لیکن اس کے ضمن میں پہلی ہمالیہ جیسی غلطی اس کے لیے خالص ’’غیر قرآنی‘‘ ہی نہیں بلکہ ایک ’’مجہول الاصل‘‘ عنوان کا اختیار کر لیا جانا ہے. یہ دو الفاظ نوٹ کر لیجیے. ایک تویہ لفظ غیر قرآنی ہے. لفظ تصوف کا کوئی تعلق نہ قرآن سے ہے نہ سنت اور حدیث سے. دوسرے یہ کہ یہ لفظ مجہول الاصل بھی ہے‘ جس کا مادہ ہی متفق علیہ نہیں. اس کے بارے میں پہلی بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ یہ لفظ دوسری صدی ہجری کے اختتام کے قریب استعمال ہونا شروع ہوا. ڈاکٹر میرولی الدین نے تواس کے لیے باقاعدہ سن معین کیا ہے‘ ۸۲۲ عیسوی. حضور کا انتقال ۶۳۲ء میں ہوا‘ اور ہجرت۶۲۲ء میں ہوئی‘ تو حضور کے انتقال کے ۱۹۰ برس بعد‘ بلکہ قمری تقویم کے اعتبار سے ۱۹۶ برس بعد‘ یہ لفظ ایجا د ہوا ہے.

دوسری بات یہ نوٹ کیجیے کہ اس کے ماخذ کے بارے میں جو چار آراء رہی ہیں کہ یہ لفظ عربی کے کس مادے سے اخذ کیا گیا ہے‘ ان میں سے تین تو بالکل غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا صد فی صد ثابت ہے. چنانچہ ایک رائے یہ ہے کہ یہ لفظ ’’صفا‘‘ سے بنا ہے‘ حالانکہ صرف ونحوکے کسی قاعدے کی رو سے ’’صفا‘‘ سے ’’صوفی‘‘ کا لفظ نہیں بن سکتا بلکہ اس سے ’’صفوی‘‘ بنے گا جیسے خاندانِ صفوی. دوسری رائے یہ ہے کہ تصوف کا لفظ ’’صف‘‘ سے بنا ہے‘ لیکن یہ اس سے بھی ہرگز نہیں بن سکتا. ’’صف‘‘ کے ساتھ یائے نسبت کا اضافہ کریں تو ’’صفی‘‘ بنے گا نہ کہ ’’صوفی‘‘.تیسری رائے یہ کہ یہ ’’صفہ‘‘ سے بناہے‘ وہ بھی غلط ہے‘ کیونکہ صفہ سے تو ’’صفی‘‘ بنتا ہے ‘ صوفی نہیں. ڈاکٹر میر ولی الدین ان لوگوں میں سے ہیں جو قدیم اور جدید دونوں کے عالم ہیں. ان کی فلسفے میں ڈاکٹریٹ تھی اور اسلامی تصوف پر ان کی متعدد کتابیں ہیں. ان کی ایک تصنیف قرآنی تصوف پر ہے جس میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ یہ تینوں باتیں بے بنیاد ہیں.

البتہ ایک رائے یہ ہے کہ اس کا مصدر یا مادہ لفظ ’’صوف‘‘ ہے اور عام طور پر یہی بات مانی جاتی ہے اور اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ یہ ’’صوف‘‘ ہی سے بنا ہے. اس ضمن میں اپنی رائے میں بعد میں بیان کروں گا‘ لیکن یہ بات ایک درجے میں قابل قبول ضرور ہے. گرامر میں صوف سے صوفی بن جاتا ہے. اس اِشتقاق کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ جو اللہ والے حضرات تھے‘ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ معرفت کے حامل تھے‘ جنہوں نے تہذیب ِنفس‘ تصفیہ ٔقلب اور تجلیہ ٔروح کی منزلیں طے کی تھیں‘جن میں درویشی تھی‘ یہ حضرات اُون کا لباس پہنا کرتے تھے جس کے نیچے کوئی اور لباس نہیں ہوتا تھا‘ تاکہ اس کے ذریعے چبھن اور بے آرامی کا احساس ہوتا رہے. یعنی آرام کی بجائے سختی کی عادت پڑے. چنانچہ یہی لفظ اقبال نے اپنے اس شعر میں استعمال کیا ہے : ؎

صوفی پشمینہ پوش حال مست
اَز شراب نغمہ نغمہ قوال مست

تو یہ لوگ اُون کا کھردرا لباس پہنتے تاکہ اندر سے بال کاٹتے رہیں اور اس طرح ان کے نفس کو اِستراحت کے بجائے تکلیف اور کوفت کا احساس ہوتا رہے. اس رائے پر تقریباً اجماع ہے اور یہ لغت کے اعتبار سے بھی صحیح ہے.

اس ضمن میں میری ذاتی رائے مختلف ہے اور اپنے علم کی حد تک میں اس رائے پر منفرد ہوں. میرے نزدیک لفظ ’’تصوف‘‘ کا ماخذ یونانی لفظ 
’’Sophia‘‘ ہے جو بعض علوم کے ساتھ لاحقے کے طور پر آتا ہے. مثلاً Philosophy . یونانی زبان میں sophia کا معنی ہے wisdom یعنی حکمت و دانائی‘ اور sophos حکیم و دانا (wise) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. لفظ تصوف درحقیقت theosophy سے بنا ہے جو عرفان و معرفت خداوندی کا علم ہے. theo کا لفظ یونانی زبان میں مذہبی معاملات کے لیے استعمال ہوتا ہے. چنانچہ اسی سے theocraco کی اصطلاح بنی ہے جو مذہبی لوگوں کی حکومت کے لیے استعمال ہوتی ہے . اورمیںنے بارہا کہا ہے کہ میں اس ضمن میں مولانا مودودی مرحوم کی رائے کو بالکل صحیح سمجھتا ہوں کہ اسلامی ریاست نہ تھیوکریسی ہے اور نہ ڈیموکریسی‘ بلکہ یہ ایک ’’تھیوڈیموکریسی‘‘ ہے‘ کیونکہ اس  میں ’’theo‘‘ اور ’’demo‘‘ دونوں عنصر جمع ہیں. بالکل اسی طرح کا معاملہ heosophy کا بھی ہے. چنانچہ یہ لفظ آج بھی استعمال ہوتا ہے‘ اور درحقیقت تصوف کا لفظ یہیں سے آیا ہے. اور یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ دوسری صدی ہجری کے دوران یونانی فلسفہ اور نوافلاطونی تصوف کا ایک بہت بڑا سیلاب عالم اسلام پر آ چکا تھا. لفظ تصوف کے اِشتقاق کے بارے میں یہ میری ذاتی رائے ہے‘ کوئی اسے قبول کرنا چاہے تو کرے‘ نہ کرنا چاہے تو ردّ کر دے.بہرحال اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تصوف کی اصطلاح مجہول الاصل ہے.