(i کتاب و سنت کی اہم اصطلاح سے محجوبیت


اس ہمالیہ جیسی غلطی کے جو ہولناک نتائج نکلے‘ ان میں سے اوّلین یہ ہے کہ کتاب و سنت کی اہم اصطلاح ’’احسان‘‘ سے محجوبیت اور محرومی ہو گئی اور اب ہمیں لفظ احسان کے صرف ایک ہی معنی معلوم رہ گئے ہیں کہ یعنی کسی سے حسن سلوک کرنا‘ کسی سے بھلائی کرنا. اگرچہ اس لفظ کے یہ معنی بھی ہیں‘ چنانچہ اسی معنی میں یہ لفظ قرآن حکیم کی سورۃ القصص میں استعمال ہوا ہے. یعنی :اَحۡسِنۡ کَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ لیکن احسان دین کی ایک اہم اصطلاح بھی ہے. چنانچہ اسلام کے بعد ایمان اور ایمان کے بعد احسان کاد رجہ ہے. اس کا عمومی مفہوم ہے کسی بھی شے میں حسن پیدا کرنا. گویا ایک ہے مارے باندھے کوئی کام کیا‘ اس کے بنیادی تقاضے اور لوازم پورے کر دیے‘ لیکن ایک ہے پوری طرح جان کھپا کر‘ دل لگا کر‘ پوری توجہ اور اپنی ساری صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کام کو اچھے سے اچھا‘ عمدہ سے عمدہ انداز سے کرنا. چنانچہ ایک حدیث نبویؐ کے الفاظ ہیں: اِذَا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذِّبْحَۃَ 

یعنی کس کو قتل کرنا ہے تو بھی خوبصورتی کے ساتھ قتل کرو اور کسی جانور کو ذبح کرنا ہے تو اسے بھی خوبصورتی کے ساتھ ذبح کرو.کسی کو اذیتیں دے دے کرنہ مارو.آج کل سعودی عرب میں جوbeheading ہوتی ہے یعنی جب سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک ہی وار ہوتا ہے. سوائے رجم کی سزا کے جس کے لیے ایک عبرت ناک ماحول پیدا کرنا مقصود ہے. اسی طرح ذبح کرنا مقصود ہو تو چھری تیز ہونی چاہیے تاکہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو‘ بس ایک ہی مرتبہ آپ کی چھری اس مقصد کو پورا کر دے.اسی مفہوم میں یہ لفظ ایک اور حدیث نبویؐ میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ استعمال ہوا ہے یعنی : مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ ، مَا لَا یَعْنِیْہِ یعنی کسی شخص کے اسلام کی خوبی اور خوبصورتی یہ ہے کہ وہ ہر اس کام کو ترک کر دے جس سے نہ کوئی دُنیوی ضرورت پوری ہوتی ہو‘ نہ اخروی اجرو ثواب متوقع ہو.

یہ بہت بڑی محرومی ہے کہ دین کی ایک اتنی بنیادی اصطلاح جو حدیث جبرائیل ؑ میں آئی ہے ان الفاظ کے حوالے سے کہ 
فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ، اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ، اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ اس سے اُمت محروم اور محجوب ہوگئی. قرآن مجید کی جو آیت میں نے ابتداء میں آپ کو سنائی اس میں ایمان کے دو مرحلے بیان ہوئے‘ ایک قانونی ایمان اور دوسرا حقیقی ایمان. یہ مطالعہ قرآن حکیم کے ہمارے منتخب نصاب کی ایک مرکزی بحث ہے کہ قانونی ایمان یعنی اسلام اور حقیقی ایمان میں کیا فرق ہے. قانونی ایمان کے درجے میں عمل علیحدہ ہے ایمان سے‘ جبکہ حقیقی ایمان کے درجے میں عمل جزوِ لاینفک بن جاتا ہے ایمان کا. پھر اس سے اوپر تیسرا درجہ احسان کا ہے. اس ضمن میں سورۃ المائدۃ کی یہ آیت بڑی اہم ہے: 
لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ 

جو لوگ بھی ایمان اور عمل صالح پر مسلسل کاربند رہے ان پر کوئی الزام نہیں ان چیزوں کے ضمن میں جو وہ پہلے کھا پی چکے (یعنی اگر کسی نے کسی شے کی حرمت قطعی کا حکم آنے سے قبل کھایا پیا ہے تو اس کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ اب وہ حرام شے گویا جسم میں رچ بس گئی ہو ) درآنحالیکہ ان کی مسلسل روش یہ رہی کہ انہوں نے تقویٰ اختیار کیا پھر ایمان لائے‘اور عمل صالح کیا‘ پھر اور تقویٰ بڑھا تو وہ مزید ایمان لائے (یعنی ایمان حقیقی تک پہنچ گئے . نوٹ کیجیے کہ اس آیت میں پہلا ایمان وہ ہے جسے قانونی ایمان کہنا چاہیے‘ یعنی جس کے ساتھ عمل صالح علیحدہ حیثیت سے آتا ہے‘ اوردوسرا ایمان وہ حقیقی ایمان ہے کہ جس میں عمل کی کیٹیگری علیحدہ نہیں رہی بلکہ وہ اس کا جزوِ لاینفک ہے. چنانچہ امام بخاریؒ کا قول ہے کہ 
’’اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ‘‘ ).اور اس کے بعد جب تقویٰ اور بڑھا تو اب وہ احسان کے درجے پر فائز ہو گئے. وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب تو وہی ہیں جو محسنین میں شامل ہیں.

اس ضمن میں ایک حدیث رسول بھی نوٹ کیجیے کہ 
مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃٌ اِلاَّ نَزَعَ اللّٰہُ عَنْھُمْ مِنَ السُّنَّۃِ مِثْلِہٖ کہ جہاں کوئی بدعت آئے گی وہاں سے کوئی نہ کوئی سنت یقینا رخصت ہو جائے گی. ہر بدعت قامع سنت ہے. ہر بدعت لازماً کسی سنت کا ازالہ کرے گی یعنی اسے displace کرے گی. لہٰذا یہاں پر تصوف کے لفظ نے احسان کی خالص دینی اصطلاح کی جگہ لے لی.