(ii کتاب و سنت کے شیدائیوں میں تصوف سے بعد

اس ہمالیہ ایسی غلطی کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا جو میرے نزدیک پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے. یعنی کتاب و سنت کے شیدائیوں میں اس سے بعد پیدا ہو گیا. گویا عنوان سے بعد ہوا تو اس کے contents سے بھی دوری پیدا ہوگئی اور نتیجتاً نری ظاہر پرستی باقی رہ گئی. اگرچہ صرف عنوان ہی کی وجہ سے بعد تو نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی دیگر وجوہات بھی تھیں جنہیں ہم آگے چل کر سمجھیں گے. تاہم واقعہ یہ ہے کہ قلبی و ذہنی بعد کا آغاز عنوان کی تبدیلی ہی سے شروع ہو گیا تھا. اور دُوری کے اس عمل (phenomenon) کا نقطہ ٔعروج ہے محمد بن عبدالوہابؒ کی شخصیت.

تصوف پر اس انداز سے اعتراض کیا جائے کہ یہ دورِ نبویؐ کے بعد کی پیداوار ہے تو جواباً کہا جاتا ہے کہ دیگر علوم بھی تو حضور کے زمانے میں نہیں تھے. لیکن تصوف کے سوا دیگر علوم کے عنوانات قرآن وحدیث ہی سے ماخوذ ہیں. مثلاً ’’تفسیر‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں آیا ہے : اَحْسَنَ تَفْسِیْرًا اور یہ لفظ دورِ صحابہؓ میں بھی مستعمل تھا. اسی طرح تفقہ کا لفظ قرآن میں ہے‘ اور حضور کی حدیث ہے کہ اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ . یہ دوسری بات ہے کہ علم دین کے ایک خاص شعبہ کو فقہ کہہ دیاگیا لیکن یقینا وہ بھی تفقہ کا جزو ہی ہے. اسی طرح حدیث کا لفظ بھی قرآن میں ہے: فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ . یہ قرآن بھی ’’حدیث‘‘ ہی ہے. لیکن قرآن حدیث اللہ ہے‘ اور جسے اصطلاح میں حدیث کہتے ہیں وہ حدیث رسولؐ ہے.لہٰذا ہمارے تمام دینی علوم کا منبع و سرچشمہ قرآن اور حدیث رسول ہیں اور ان کے عنوانات بھی قرآن و حدیث ہی سے ماخوذ ہیں.لہٰذا میں اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتا کہ جیسے اور دینی علوم ہیں ویسے ہی تصوف بھی ہے. اس لیے کہ آپ نے عنوان ہی جدا کر دیا اور ایک ایسا لفظ اختیارکر لیا جس کا کتاب و سنت کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں اور مستزاد یہ کہ اس کا یہ بھی کچھ پتہ نہیں کہ یہ لفظ کہاں سے آیا ہے. اب ظاہر ہے کہ جس شخص کو کتاب و سنت سے لگاؤ اور تمسک ہے اور جس کی شخصیت میں کتاب و سنت راسخ ہو چکے ہیں اسے یقینا تصوف سے بعد نہ سہی حجاب توضرور محسوس ہو گا. لہٰذا تصوف سے بعد کی پہلی وجہ تو اس کا اجنبی عنوان ہی ہے اور اس بعد میں دیگر اسباب کی وجہ سے اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ اس فکر میں جو بیرونی نظریات اور فلسفے آئے‘ ان سے وہ حجابات بڑھتے گئے‘ یہاں تک کہ انہوں نے منافرت کی شکل اختیار کرلی.

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے تصوف سے دُوری کی سب سے نمایاں مثال محمد بن عبدالوہابؒ ہیں. ویسے میں اِنہیں بھی مجددین کی فہرست میں شامل کرتا ہوں کہ انہوں نے بدعات کا قلع قمع کیا‘ غیر اسلامی رسومات کی بیخ کنی کی ‘ دین کی تعلیمات پر جو جھاڑ جھنکاڑ آ گیا تھا اسے ہٹایا اور کم از کم دین کے عملی اور ظاہری پہلو کو نکھارنے کا کام سرانجام دیا. اس پہلو سے وہ مجددین اُمت میں شامل ہیں. لیکن اگر محمدبن عبدالوہاب نجدیؒ کا ان کے ہم عصر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے تقابل کیا جائے تو محمد بن عبدالوہابؒ کی شاہ ولی اللہؒ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے. شاہ صاحبؒ کی جامعیت کبریٰ کو ذہن میں رکھیے کہ وہ ظاہر و باطن دونوں کے جامع ہیں جبکہ محمد بن عبدالوہابؒ کی حیثیت صرف دین اور کتاب وسنت کے ظاہری پہلو کے حوالے سے ہے.

یہاں ضمنی طور پر اس بات کو بھی سمجھ لیجیے کہ عہد حاضر میں تجدیدی اور احیائی تحریکوں میں دین کے باطنی پہلو کے مفلوج ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان تمام تحریکوں کے سامنے ایک مثال اور امام کی حیثیت سے محمد بن عبدالوہابؒ کی نجدی تحریک رہی ہے. اس لیے کہ یہی ایک تحریک ہے جس نے اسلام کا قانونی نظام دوبارہ قائم کیا‘ شریعت کا نفاذ کیا‘ شعائر دین کی پابندی شروع کی‘ اگرچہ انہوں نے یہ کام آلِ سعود کے تعاون سے کیا اس کے باوجود یہ تحریک تجدید و احیائے دین کی تمام تحریکوں کے لیے ایک مثال بن گئی. اس ضمن میں ابن تیمیہؒ کا نام بھی آتا ہے لیکن ان کی شخصیت بہت مختلف تھی.