اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں‘ یعنی تصوف کا طریق منصوص و مسنون تھا کیا؟ میرے نزدیک جو طریقہ کتاب و سنت سے منصوص ہے وہی طریق محمدیؐ ہے اور وہی طریقہ درحقیت عقل و منطق سے قریب بھی ہے.
اس ضمن میں پہلی قابل توجہ بات وہی ہے جو تنظیم اسلامی کی قراردادِ تاسیس کے اوّلین جملے میں بیان ہوئی ہے یعنی یہ کہ ’’دین کا اصل مخاطب فرد ہے‘‘. مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اللہ تعالیٰ کے باغ کا ایک حسین پودا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ پودا پروان چڑھے‘ اس میں جو بھی امکانات اس نے ودیعت فرمائے ہیں وہ بروئے کار آئیں‘ اس کی شخصیت پھول کی مانند کھلے. مجھے بیدل کا شعر یاد آ گیا ؎

ستم است کہ گر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو وسمن درا
تو ز غنچہ کم نہ دمیدئہ درِ دل کشا بہ چمن درا

یہ شعر میرے استاد مولانا منتخب الحق قادری نے ایک کلاس میں پڑھا تھا اور اگرچہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا لیکن یہ ان کے پڑھنے کے انداز کا اعجازتھا‘ اور میرے ذہن کی مناسبت کا مظہر‘ کہ یہ شعر مجھے اسی وقت یاد ہو گیا. شاعر کہتا ہے کہ بڑا ہی ستم کا معاملہ ہے‘ بڑا ظلم ہے کہ تجھے خواہش نفس کھینچ کر لے جاتی ہے کہ چلو باغ میں سرو و سمن کی بہار دیکھیں. حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تو خود ایک کھلا ہوا غنچہ ہے‘ اپنے دل کا دروازہ کھول اور جو باطنی چمن اللہ تعالیٰ نے تیرے باطن میں کھلا رکھا ہے کبھی اس کی سیر بھی کر! گویا تم جو خارج کے پھولوں کی سیر کرتے پھرتے ہو کبھی اپنے من میں ڈوب کر بھی دیکھو.

میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہر انسان اللہ کا لگایا ہوا پودا ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ یہ پھلے پھولے‘ کھلے‘ کھلے‘ اس کی شخصیت پروان چڑھے.اس کے اندر کے تمام محاسن ظاہر ہوں ‘ تمام امکانات جو اس میں ptentially ودیعت کیے گئے ہیں وہ بروئے کار آئیں. یہاں پر سورۃ المائدۃ ہی کی وہ آیت یاد کیجیے جس میں کہا گیا ہے کہ 

عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ 


یعنی ہر انسان پر اصل ذمہ داری اس کی اپنی ہے. دوسروں کے لیے دعوت‘ تلقین‘ تبلیغ‘ نصیحت جو بھی ممکن ہو‘ کرے‘ اس لیے کہ یہ کام فرائض کے درجے میں ہیں. لیکن اگر میری کوشش کے باوجود کوئی نہیں مانتا تو اپنے اعمال کا ہر شخص خود جواب دہ ہے‘ میری اصل ذمہ داری میری ذات کی حد تک ہے. اگر میری کوتاہی ہو گی تو میں پکڑا جاؤں گا. لہٰذا مجھے اس حوالے سے سوچناچاہیے کہ میں اپنے فرائض ادا کروں. جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے اس ضمن میں یہ اصول بیان فرما دیا گیا ہے کہ 

لَا تُسۡئَلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِیۡمِ 
آپ سے تو مؤاخذہ نہیں ہو گا کہ یہ لوگ کیوں جہنم میں چلے گئے.

سورۃ المائدۃ کی مذکورہ بالا آیت کا غلط مفہوم بھی لیا گیا ہے ‘ اور یہ غلطی دورِ صحابہؓ ہی میں ہونے لگی تھی. لوگوں نے اس آیت کو دلیل بنایا اس بات پر کہ ہمیں دعوت و تبلیغ یا نصیحت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اُس دور میں بھی ہر طرح کے لوگ موجود تھے‘ منافقین بھی تھے اور اپنے فرائض سے جی چرانے والے بھی. لہٰذا اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ تم اس آیت کا غلط مفہوم لے رہے ہو عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ سے یہ مراد نہیں ہے کہ تم دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے سے بری ہو گئے ہو. تاہم جو حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ ہر شخص پر اصل ذمہ داری اس کی اپنی ذات ہی کے حوالے سے عائد ہوتی ہے. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن میں نقل ہوا ہے کہ : 
رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ 
کہ اے رب میرا اختیار تو صرف اپنے نفس پر اور اپنے بھائی (ہارونؑ) پر ہے. یہاں بھائی کا ذکر بھی صرف اس لیے آ گیا کہ وہ خود تیار تھے‘ ورنہ ظاہر ہے کہ اپنے بھائی پر بھی کسی انسان کو اختیار حاصل نہیں ہوتا. اسی طرح فرمایا کہ: اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ 

(یعنی ’’اے نبیؐ ! آپؐ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے‘ یہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے کہ جسے چاہے ہدایت سے نواز دے.‘‘