اب تک ہم نے یہ سمجھا ہے کہ دین کا اصل مقصود فرد کی تعمیر و ترقی ہے. فرد مرکب ہے دو متخالف اور متحارب عناصر سے‘ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ خیر کی قوت یعنی روح کی تقویت اور تغذیہ کا بندوبست ہو اور شر کی طاقت یعنی نفس امارہ کی تہذیب اور تزکیہ کا سامان کیا جائے. اب سوال یہ ہے کہ روح کی تقویت کاکیا ذریعہ ہے؟ ایک لفظ میں اسے بیان کیا جائے تو وہ ہے ذکر الٰہی. اس کا فلسفہ کیا ہے؟ ۱۹۶۵ء میں اپنے مشن کے لیے ذاتی اور انفرادی سطح پر کام کا آغاز کرنے کے بعد میرا پہلا جو کتابچہ شائع ہواتھا یعنی ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ میں اُس میں اس بات کی پوری وضاحت کر چکا ہوں. حقیقت یہ ہے کہ روحِ انسانی میں اللہ تعالیٰ کی معرفت موجود ہے ایک شعور خفتہ (dormant consciousness) کی شکل میں ! اس لیے کہ ہماری روح اللہ تعالیٰ کی ذات کا جزو تو ہرگز نہیں ہے‘ لیکن صادر تو وہیں سے ہوئی ہے. یہ امر رب ہے. تو کیا یہ روح اندھی اور بہری ہو سکتی ہے؟ معاذ اللہ! البتہ سوئی ہوئی ہے‘ اور اللہ کا ذکر اس کو بیدار کرتا ہے. جناب یوسف سلیم چشتی مرحوم نے ایک مرتبہ جرمن فلسفی کانٹ کا ایک جملہ سنایا تھا : 
"Hume awakened me, from my dogmatic slumber." 


انگریز فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی کتابیں پڑھ کر کانٹ کہتا ہے کہ میں اپنے اندھے عقیدے کی دھن میں سویا ہوا تھا کہ ہیوم نے مجھے جگا دیا. اسی طرح حفیظ جالندھری کی ایک نظم ہے ’’جاگ سوزِ عشق جاگ‘‘. اور میں نے اپنے ہائی سکول کے بالکل ابتدائی زمانے میں ایک گیت سنا تھا جس کے یہ الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں ؎ ’’تم ہی نے مجھ کو پریم سکھایا‘ سوئے ہوئے ہردے کو جگایا‘‘. ہندی میں ’’ہردہ‘‘ کہتے ہیں جی یا نفس کو. تو یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ انسان کی روح میں سب کچھ پہلے سے موجود ہے. میں نے اپنے کتابچے ’’نبی اکرم کامقصد بعثت‘‘میں دو الفاظ استعمال کیے ہیں کہ اس روح کے اندر معرفت رب بھی موجود ہے اور محبت رب بھی. اس کی ہمارے بعض عارفین نے جو مثال دی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری روح کا ذات باری تعالیٰ کے ساتھ وہی تعلق ہے جو سورج کی کرن کا سورج کے ساتھ ہوتا ہے. سورج کی کرن اپنے source سے کروڑہامیل دُور چلی جائے لیکن اس کا تعلق سورج سے منقطع نہیں ہوتا.

لہٰذا ذکر الٰہی کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت روح بیدار ہوتی ہے‘ اس کا سویا ہوا شعور متحرک (acttivate) ہوتا ہے. اس ضمن میں سورۃالنور کے پانچویں رکوع کے درس میں جو بحث آتی ہے اس کو بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے. یعنی یہ کہ نورِ وحی اور نورِ فطرت کے امتزاج سے ہی نورِ ایمان وجود میںآتا ہے اور درحقیقت یہ سارا معاملہ ایمان ہی کا ہے. ایمان صرف زبانی اقرار تک ہے تو یہ ’’اسلام‘‘ ہے. جب ایمان کی دل کی گہرائی میں اتر کر راسخ ہو گیا اور تصدیق بالقلب حاصل ہو گئی تو یہ ’’ایمان‘‘ ہے. پھر جب اسی ایمان میں وہ شدت اور گہرائی پیدا ہوگئی کہ مؤمن یہ محسوس کرنے لگا کہ وہ گویا اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم یہ استحضار حاصل ہو گیا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو یہ ’’احسان‘‘ کی منزل ہے. واقعہ یہ ہے کہ ’’احسان‘‘ کے درجے کو بیان کرنے کے لیے ہماری زبان میں اس سے بہتر کوئی مثال نہیں ہے کہ یہ ایمان کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ایک شخص غیبی حقائق کو گویا آنکھوں کے سامنے موجود پائے. یقین کی گہرائی کے لیے اس سے آگے کوئی استعارہ اور کوئی تعبیر ممکن نہیں ہے. ایمان جب اس شدت کو پہنچ جاتا ہے کہ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّـہٗ یَرَاکَ کی کیفیت حاصل ہوجائے‘ یعنی یہ کہ بندہ اللہ کی عبادت اور اللہ کی رضاجوئی کے لیے عمل اتنی شدت اور خلوص و اخلاص سے کرنے لگے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے اور اگر وہ اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تو یقینا اسے دیکھ رہا ہے .) تو یہی احسان ہے اور یہی مقامِ ولایت ہے.