اب یہاں میں اصل موضوع سے کسی قدر ہٹ کر ایک بات کرنا چاہتا ہوں. اسے ایک ضمیمہ سمجھ لیجیے. اس بات کو میں نے حقیقت ایمان کے موضوع پر ہونے والے محاضرات میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حصولِ ایمان کے تین ذرائع ہیں. اولاً یہ کہ صاحب یقین کی صحبت سے ایمان حاصل ہوتا ہے ‘ جیسے آپ آگ کی بھٹی کے پاس بیٹھیں گے تو حرارت ملے گی. ثانیاً یہ کہ شریعت پر عمل پیرا ہونے سے بھی ایمان پیدا ہوتا ہے.

لیکن یہ دونوں قسم کے ایمان ایک نوع کے blind faith کے درجے میں ہیں. اس میں شعوری یا intellectual عنصر ضروری نہیں ہے‘ اس میں فہم و تفقہ بھی ضروری نہیں ! اگرچہ ان ذرائع سے حاصل ہونے والے ایمان میں گہرائی تو ہو سکتی ہے لیکن اس میں وسعت فکر و نظر نہیں ہو گی. وہ ایمان جس میں شدت یقین کے ساتھ ساتھ وسعت فکر و نظر بھی ہو‘ جس میں گہرائی کے علاوہ ایک شعوری یا intellectual عنصر بھی ہو‘ ایسا ’’علیٰ وجہ البصیرت‘‘ ایمان صرف اور صرف قرآن سے ملے گا. قرآن کے سوا کسی اور ذریعے سے اس نوعیت کا ایمان نہیں مل سکتا. یہاں اس نکتے کو بھی سمجھ لیجیے کہ حدیث کی رو سے ایمان کا افضل ہونا اور شے ہے اور ایمان کا اعجب یا most wonderful اور most fascinating ہونا اور شے ہے. یعنی ایک ایمان کی افضلیت ہے اور دوسرے اس کی اعجبیت ہے. اہل سنت کے ہاں یہ مسلم ہے کہ سب سے افضل ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے‘ یہاں تک کہ ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کا ایمان بھی بڑے سے بڑے ولی اللہ اور دانشور کے شعوری ا یمان سے افضل ایمان مانا جائے گا.

لیکن یہ ذہن میں رکھیے کہ مختلف صحابہؓ کے ایمان میں بھی فرق تھا. ظاہر ہے کہ نبی اکرم کی صحبت تو تمام صحابہؓ کو حاصل تھی لہٰذا صحبت سے حاصل ہونے والا ایمان سب میں مشترک تھا‘ لیکن صحابہؓ میں سے بہت سے فہیم اور باشعور یعنی intellectual افراد بھی تھے جنہوں نے قرآن حکیم سے شعوری ایمان اخذ کیا تھا. لہٰذا یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ معاذ اللہ تمام صحابہ کرام کا ایمان محض blind faith تھا‘اگرچہ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ صحابہؓ کا غیر شعوری ایمان بھی چونکہ محمد رسول اللہ کی صحبت سے حاصل ہوا تھا لہٰذا وہ قیامت تک افضل رہے گا. البتہ ایمان کا حسین اور اَعجب ہونا ایک بالکل مختلف بات ہے‘ اور یہ راستہ آج بھی کھلا ہوا ہے.دیکھئے حضور نے ہمارے احساسِ محرومی کے ازالے کے لیے کیسی کیسی باتیں ارشاد فرمائی ہیں. ایک مرتبہ فرمایا کہ میری امت کا معاملہ بارش کی مانند ہے‘ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا اوّل حصہ بہتر ہو گا یا آخر. لہٰذا اگر ہم حضور کے زمانے میں پیدا ہونے سے محروم رہ گئے تب بھی کوئی حرج نہیں کہ صدیقیت اور شہادت اور صالحیت کے تمام مراتب آج بھی قابل حصول ہیں. صرف نبوت کا دروازہ بند ہے‘ لیکن وہ تو صحابہؓ کے لیے بھی بند تھا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ مراتب حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں‘ محنت کرو اور اِکتساب کرو. دوسری وہ حدیث ہے جس میں حضور نے صحابہؓ سے سوال کیا کہ تمہارے نزدیک مخلوقات میں حسین ترین (اَعجب)ایمان کس کا ہے؟ انہوں نے کہا ملائکہ کا. آپؐ نے فرمایا کہ ملائکہ کیسے ایمان نہ لاتے وہ تو اپنے ربّ کے حضور میں حاضر ہیں‘ ان پر توحقائق منکشف ہیں . مراد یہ ہے کہ ان کا کیا کمال ہوا؟ صحابہؓ نے کہا پھر انبیاء کا ایمان اَعجب ہے. حضور نے ارشاد فرمایا کہ وہ کیسے ایمان نہ لاتے‘ ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے.ا س پر صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ پھر ہم ہیں. 

آپ نے فرمایا کہ تم کیسے ایمان نہ لاتے جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں. پھر آپ نے فرمایا: 

اِنَّ اَعْجَبَ الخلق الیَّ اِیْمَانًا لاِخْوَانِنا الَّذین یَاْتُونَ مِن بعدی یجدون صُحُفًا فِیہ کتابُ اللّٰہ فَیُوْمِنُون بِمَا فِیْھَا یعنی ’’میرے نزدیک تو سب سے حسین ایمان ہمارے ان بھائیوں کا ہو گاجو میرے بعد آئیں گے (وہ میری صحبت نہیں پائیں گے بلکہ) انہیں تو اوراق ملیں گے جن میں اللہ کی کتاب درج ہو گی اور وہ اس پر ایمان لائیں گے.