اب تک ہم نے جو بات سمجھی ہے وہ یہ ہے کہ اصل کام روح کو تقویت پہنچانا ہے‘ اس کا ذریعہ ذکر الٰہی ہے اور اس کا حاصل ایمان ہے. ذکر الٰہی کے ضمن میں اہم ترین شے قرآن ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن اپنے آپ کو ’’الذِّکر‘‘ کہتا ہے. یہاں الف لام کو خواہ حصر کے لیے سمجھا جائے خواہ جنس کے لیے‘ دونوں صورتوں میں مطلب یہی ہو گا کہ کل کا کل ذکر یہی ہے اور جنس ذکر اس قرآن میں محصورہو گئی ہے. تبعاً ذکر میں نماز بھی شامل ہے. لیکن نوٹ کیجیے کہ نماز میں بھی دو elements ہیں‘ ایک عملی ذکر ہے یعنی رکوع‘ سجود‘ قیام‘ اور دوسرے خود قرآن ہے. چنانچہ قرآن نے فجر کی نماز کو تو کہا ہی ہے ’’قراٰن الفجر‘‘ . اسی طرح رات کی تہجد ہے تو وہ بھی قرآن کے ساتھ ادا کرنا مطلوب ہے. تیسرے درجے میں نبی اکرم سے روز مرہ معمولات کے ضمن میں جو اَذکار منقول ہیں ان کی پابندی کی جائے تو یہ بھی ذکر الٰہی کی ایک صورت ہو گی.

تزکیہ نفس‘ ایمان اور احسان کے حوالے سے جو بات ہم نے سمجھی ہے اسے صوفیاء کی اصطلاحات کے حوالے سے بھی سمجھ لیں. میں نے شروع میں 
’’تجلیہ روح‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا. صوفیاء کہتے ہیں کہ جیسے سورج کی ایک کرن ہو جو کسی سبب سے ٹھنڈی پڑ گئی ہو‘ بس ایسا ہی روح کا معاملہ ہے ‘ ذکر الٰہی کے ذریعے گویا آپ نے اسے دوبارہ حرارت پہنچاناشروع کی. اس کی روشنی ماند پڑ گئی تھی آپ نے اسے دوبارہ روشن کرنا شروع کیا. یہ تجلیہ ہے ! اور یہاں بھی میں لفظ ’’تحریر الروح‘‘ کو لانا چاہتا ہوں‘ لیکن یہاں ’’تحریر‘‘ کا لفظ حرارت سے ہے. روح کا تجلیہ اور روح کو حرارت بہم پہنچانا‘ یہی ذکر کا اصل کام ہے. البتہ ذکر کے ضمن میں اصل شے قرآن میں ہے‘ پھر نمازآتی ہے‘ اور اس کے بعد اذکارِمسنونہ ہیں.