تقویت و تغذیہ روح کے ساتھ ساتھ جو دوسرا عمل درکار ہے اسے میں نے تہذیب و تزکیہ نفس سے تعبیر کیا تھا. تہذیب و تزکیہ نفس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ مخالفت نفس کی ریاضتیں ! ریاضت کسے کہتے ہیں؟ مشقتیں یا excercises . جیسے جسمانی ریاضت کو آپ کسرت کہتے ہیں جو پہلوان کرتا ہے. اسی طرح موسیقی سیکھنے والا ریاض کرتا ہے‘ اسے بھی خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے ورنہ سر ٹھیک نہیں ہوتا. اسی پر قیاس کر کے سمجھئے کہ نفس امارہ کی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے بھی بڑی محنت کرنا پڑتی ہے‘ نفس کی مخالفت کرنا پڑتی ہے.

اس ریاضت میں سب سے پہلی چیز ’’اقامت الصلوٰۃ‘‘ ہے. مجرد نماز تو ذِکر الٰہی کاذریعہ ہے اور اس اعتبار سے تقویت و تغذیہ روح کا سامان ہے‘ لیکن اقامت الصلوٰۃ یعنی نماز کو قائم کرنا‘ کہ کوئی مصروفیت‘ کوئی دوستی‘ کوئی کاروبار دنیوی آڑے نہ آنے پائے‘ یہ مخالفت نفس کی ریاضت ہے. طبیعت آمادہ ہو یا نہ ہو‘ مسجد میں آنا ہے. شدید سردی ہے اور یخ پانی ہی دستیاب ہے تو اسی سے وضو کرنا پڑے گا. اس سے آگے بڑھ کر تہجد کی نماز میں نیند کو قربان کر کے کھڑا ہوناہے تو یہ بھی مخالفت نفس ہی کی ایک صورت ہے. اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً … یہ تہجد نفس کو کچلنے میں نہایت مؤثر ہے. پھر روزہ ہے جس میں جسمانی تقاضوں کی مخالفت کی جاتی ہے. تیسری شے انفاق مال ہے. اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے بھی نفس کی مخالفت ہوتی ہے کیونکہ مال و دولت انسان کو بہت محبوب ہوتا ہے. وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ 

نوٹ کیجیے کہ اقامت الصلوٰۃ‘ صوم‘ اور انفاقِ مال سے مخالفت نفس کا مقصد حاصل ہوتا ہے‘ اور یہی مقصد دو او فرائض کے ذریعے بھی پورا ہوتا ہے. یہ دونوں فرائض اصل میں ان تینوں کے جامع ہیں. پہلی چیز ہے حج. اس میں انفاقِ مال بھی ہے‘ احرام کی پابندیاں بھی ہیں‘ ذکر بھی ہے‘ نہایت شدید مشقت بھی ہے. اور دوسری شے ہے دعوتِ دین اور اقامت دین کی جدوجہد.ا س میں بھی مخالفت نفس ہوتی ہے. محنت اور مشقت ہے جو آرام و استراحت کے منافی ہے. تہمت و ملامت ہے جو تحسین و تعریف کے منافی ہے. یہ وہ ضرورت ہے جس کے لیے صوفیاء کے ایک طبقے نے باقاعدہ فرقہ ملامتیہ ایجاد کیا‘ کیونکہ یہ بھی نفس کی مخالفت ہی کی ایک صورت ہے کہ لوگ کسی کو حقیر سمجھیں‘ گالیاں دیں‘ فاسق و فاجر کہیں. آپ آگے بڑھ کر حق کی دعوت دیجیے‘ اس راہ میں تو محمد رسول اللہ جیسے شخص کو بھی کہا گیا کہ (معاذ اللہ) یہ ’’مجنون‘‘ ہیں‘ مسحور ہیں‘ شاعر ہیں‘ کذاب ہیں‘ ساحر ہیں. (نعوذ باللّٰہ من ذٰلک!) لیکن حکم ہے کہ صبر کرو. تو مخالفت نفس کا مقصد حاصل ہو گیا یا نہیں؟ آ پ اقامت دین کی جدوجہد میں مال خرچ کر رہے ہیں‘ یا اگر وقت صرف کر رہے ہیں تو بھی عام مقولے ’’Time is money‘‘ کے مطابق یہ انفاق مال ہی ہے. پھر آپ اپنی اور اپنی آل و اولاد کی جانوں کے لیے آفات اور مصائب کا خطرہ مول لے رہے ہیں. قتال کا مرحلہ ہے تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آرہے ہیں. اس طرح بنیادی حیوانی داعیات میں سے دو‘ یعنی بقائے نفس (Preservation of the self) اور بقائے نسل (Perservation of the species) کی مخالفت ہو رہی ہے یا نہیں؟ اب اس میں سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی ماحول میں دو ہی صورتیں ممکن ہوتی ہیں: اگر اللہ کا دین غالب ہے اور اسلامی ریاست موجود ہے تو مخالفت نفس کے لیے اقامت الصلوٰۃ‘ صوم‘ انفاق‘ اور حج کے ذرائع اختیار کیجیے. اور اگر اللہ کا دین پامال ہے تو مخالفت نفس کی ریاضتوں کے سلسلے میں بھی دعوت دین اور اقامت دین کی جدوجہد کو تمام نفلی عبادات پر فوقیت حاصل ہو جائے گی.

دعوت و اقامت دین کی جدوجہد میں انفرادی اعتبار سے جو اصل ہدف ہے وہ ہمارے سامنے آ گیا‘یعنی مخالفت نفس کی ریاضت تاکہ روح کو تجلیہ حاصل ہو جائے. اب اجتماعی پہلو سے دیکھئے کہ اس میں اضافی حکمت کیا ہے. اس جہاد کا ہدف ہے نظامِ عدل و قسط کا قیام‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں انسانوں کے لیے اس سلوک کی راہ کو اختیار کرنا ممکن ہو سکے . غور کیجیے کہ کس قدر خود غرضی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ شخص جو برسہا برس جنگلوں اور ویرانوں میں مخالفت نفس کے لیے مشقتیں جھیل رہا ہے‘ خود کو مانجھ رہا ہے‘ رگڑ رہا ہے‘ اور دوسری طرف کروڑوں انسان مسلسل ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں. انسانوں کی عظیم اکثریت کو وہ موقع ہی میسر نہیں کہ کوئی اعلیٰ خیال یا اُونچا آدرش ان کے حاشیہ خیال ہی میں گزر سکے.اگر تم اپنی روح کو نفس کی بیڑیوں سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہو تو دوسروں کو بھی ظلم و استحصال سے نجات دلانے کی جدوجہد کرو تاکہ وہ بھی اس راہ میں آگے بڑھ سکیں.

یہ نکتہ میں نے ’’نبی اکرم کا مقصد ِبعثت‘‘ نامی کتابچے میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضور کی بعثت انسانی تاریخ کے ایک نہایت اہم موڑ پر ہوئی ہے. حضور کی بعثت کے بعد سے افراد کے ارادے اور اختیار کی آزادی محدود سے محدود تر ہوتی چلی گئی ہے اور اجتماعی نظام کی گرفت روز بروز شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے. اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ انسان اپنے اجتماعی ماحول اور مجموعی نظام کے اثر سے آزاد ہوکرزندگی گزار سکے. چنانچہ آج ظالمانہ نظام کی گرفت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے. سیاسی جبر‘ معاشی استحصال اور معاشرتی اونچ نیچ پر مبنی اجتماعی نظام سے فرد کا متاثر نہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے. حضور کی حدیث ہے کہ : کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّـکُوْنَ کُفْرًا یعنی فقرو فاقہ‘ احتیاج اور افلاس انسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں. ورنہ کم از کم اللہ تعالیٰ سے غافل تو کر ہی دیتے ہیں‘ بقول فیض ؎

دُنیا نے تیری ہاتھ سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

اس سلسلے میں اصل حکیمانہ قول حضرت شاہ ولی اللہؒ کا ہے. وہ کہتے ہیں کہ جس معاشرے میںتقسیم دولت کا نظام غیر منصفانہ ہو گاوہاں ایک جانب دولت کے انبار لگیں گے‘ عیاشیاں ہوں گی‘ بدمعاشیاں اور خرمستیاں ہوں گی‘ اور دوسری طرف فقر و احتیاج کا دور دورہ ہو گا. اور انسانوں کی عظیم اکثریت باربرداری کے حیوانات کی مانند زندگی گزارنے پر مجبورہو جائے گی. اللہ تعالیٰ سے وہ بھی غافل اور یہ بھی غافل ‘ وہ بھی محروم اور یہ بھی محروم. ان حالات میں نظامِ عدل اجتماعی کے قیام کے بغیر انسانوں کی عظیم اکثریت کے لیے روحانی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

یہاں ایک اور نکتہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ خدمت خلق کی تین منزلیں ہیں. پہلی منزل ہے بھوکوں کو کھانا کھلانا‘ ضرورت مندوں کی امدا دکرنا اور ایک داعی حق کے لیے یہ چیز نہایت ضروری ہے‘ ورنہ اس کی دعوت دوسروں تک نہیں پہنچ پائے گی دوسری منزل ہے خدمت خلق کے حوالے سے لوگوں کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرنا‘ اللہ کی طرف دعوت دینا. اس سے بڑی کوئی خدمت خلق نہیں ہو سکتی کہ انسان دوسروں کی ابدی زندگی کی فلاح کے لیے کوشش کرے خدمت خلق کی تیسری منزل یہ ہے کہ خلق خدا کو ظالمانہ نظام کے جبر و استحصال سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے. صرف پہلی قسم کی خدمت خلق کو کل سمجھ لینا دراصل دین کے محدود تصور کا شاخسانہ ہے.