سلوکِ محمدیؐ سے انحراف کا دوسرا سبب یہ ہوا کہ مخالفت نفس کی ریاضتوں کے ضمن میں دعوت و اقامت دین کی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ سرے سے خارج از بحث ہو گئے. اس کا بھی اصل سبب تو بالکل فطری اور طبعی تھا. یعنی جب اسلام دعوت و تحریک کے مرحلے میں تھا تو جہاد کی حیثیت فرض عین کی تھی. اس لیے کہ دعوت و تبلیغ بھی جہاد ہے‘ نظم کی پابندی بھی جہاد ہے‘اور حق و باطل کے مابین براہِ راست تصادم اور قتال کا مرحلہ آ جائے تو وہ بھی جہاد ہے. تاہم جب اسلام سلطنت و ریاست کے مرحلے میں داخل ہوا تو اب اس ہمہ گیر جہاد کا تصور سمٹ کر محض قتال تک محدود ہو کر رہ گیا. جہاد کو قتال کا ہم معنی قرار دے دیا گیا اور اس قتال کا مقصد بھی صرف مملکت کی سرحدوں کادفاع اور اگر بس چلے تو توسیع تک محدود ہو گیا. ظاہر ہے کہ اگر کسی محاذ پرایک مخصوص تعداد میں آدمیوں کی ضرورت تھی اور اس تعداد میں آدمی نکل آئے تو گویا باقی سب کی طرف سے یہ فرض ادا ہو گیا. نتیجہ یہ ہوا کہ جہاد فرضِ عین کے بجائے فرضِ کفایہ قرار پایا. یہ معاملہ تو دورِ خلافت راشدہ ہی میں ہو گیا تھا اور میں نے ہمیشہ عرض کیا ہے کہ اگر دین غالب ہو تو تقرب بالنوافل کا راستہ بالکل صحیح ہے. آپ نفلی عبادات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی ممکن ہو قرب حاصل کریں‘ یا مخالفت نفس کے لیے جو ایک بہت بڑی اور جامع عبادت ہے‘ یعنی حج‘ اسے اختیار کریں.

لیکن جب خلافت راشدہ بھی ختم ہو گئی تو اب مسئلہ دہرا ہو گیا.اب ملوکیت اور جاگیرداری پر مبنی ظالمانہ نظام آ گیا جس کے خلاف فطری طور پر جدوجہد ہونا چاہیے تھی‘ لیکن عملی طور پر دو رکاوٹوں کے باعث نہیں ہو سکی. پہلی رکاوٹ یہ تھی کہ بعض لوگوں کے نزدیک فاسق و فاجر مسلمان حکمرانوں کے خلاف قتال صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ صریح کفر کا حکم دیں.اس مفہوم کی بعض احادیث بھی موجود ہیں‘ لہٰذا ہمارے ہاں اہل حدیث مکتبہ فکر اسی موقف پر قائم ہے. البتہ اس معاملہ میں امام ابوحنیفہؒ نے واقعتا مجتہدانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے خروج کا دروازہ کھولا ہے‘ لیکن انہوں نے بھی شرط اس قدر کڑی عائد کر دی کہ عملاً یہ ناقابل حصول ہو گیا.یعنی خروج اسی صورت میں ہو سکے گا جبکہ تبدیلی لانے کے لیے ضروری قوت فراہم ہو چکی ہو. اس دور میں چونکہ شہری حقوق کا تصور خصوصاً اظہار رائے اور جماعت سازی کا حق موجود ہی نہیں تھا تو یہ مطلوبہ قوت کیسے حاصل کی جاتی؟ ایسی کسی کوشش کو تو بغاوت کی تیاری سمجھ کر ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیا جاتا. تو یہ اس معاملے کی دوسری رکاوٹ تھی.

اس طرح حضور کے طریقہ تزکیہ اور طریقہ سلوک میں جو عملی شعبہ تھا‘ یعنی جہاد فی سبیل اللہ‘ وہ عملی طور پر کالعدم ہو کر رہ گیا. جہاد دراصل مخالفت نفس کا نہایت اہم ذریعہ ہے. اس میں ایک انسان مشقت جھیلتا ہے‘ تکالیف اٹھاتا ہے‘ اپنی جان و مال کے لیے سو طرح کے خطرات مول لیتا ہے‘ مال خرچ کرتا ہے اور اس طرح مخالفت نفس بھی ہوتی ہے اور دوسرے پہلو سے روح کی ترقی بھی. دورِ ملوکیت میں تزکیہ نفس کا اتنا بڑا شعبہ defunct ہو کر رہ گیا. میں مثال دیا کرتا ہوں کہ فرض کیجیے کہ ایک درخت ہے جو طبعی طور پر اُوپر کی طرف اُٹھ رہا ہے لیکن‘ اگر اس کے راستے میں چھت حائل ہو جاتی ہے تو اب وہ لامحالہ ٹیڑھا ہو جائے گا‘ اور کسی جانب کو مڑ کر بڑھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ اُوپر کی سمت میں تو اس کے لیے رکاوٹ ہے. چنانچہ ملوکیت وہ رکاوٹ یا چھت بن گئی جسے خواہی نخواہی قبول کرنا پڑا. نتیجتاً دورِ ملوکیت میں جب مخالفت نفس کا یہ اہم شعبہ بند ہوا تو اس کے حصے کا سارا بوجھ بھی اَوراد و اَذکار اور مراقبوں اور چلوں پر آ گیا. یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں وہی نت نئے چلے‘ نت نئی ریاضتیں‘ سالہا سال کی سیاحت‘ جنگلوں اور ویرانوں میں برسوں گزارنے کے طریقے رواج پا گئے‘ یہاں تک کہ اسلام میں بعینہٖ رہبانیت والارنگ پیدا ہو گیا.

حالانکہ حضور نے واضح طور پر فرما دیا تھا : لَا رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ اِلاَّ الْجِھَاد فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اور لَا سَیَّاحَۃَ فِی الاِسْلَامِ اِلاَّ الصَّوْم. آپ صوفیاء کے قصے پڑھ لیجیے. ان میں وہی چالیس چالیس سال کی ریاضتوں اور شدید قسم کی مشقتوں کا تذکرہ ملے گا . بہت سے صوفیوں نے تجرد کی زندگی گزاری‘ اس لیے کہ گھر گھرہستی کا کھکھیڑ مول لے کر ’’تزکیہ ٔنفس‘‘ کیسے کریں گے؟

اس معاملے کو ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجیے کہ صدرِ اوّل میں اہم ترین حقیقتیں دو ہی تھیں. یعنی قرآن اور جہاد . اور ان دونوں کو link کرنے والا ’’ایمان‘‘ تھا. لیکن جب اسلام دعو ت و تحریک کے مرحلے سے گزر کر سلطنت و ریاست کے دور میں داخل ہو تو ایک طبعی اور فطری عمل کے طور پر توجہات میں shift پیدا ہو گیا.ایک طرف ذکر کے لیے قرآن پر سے توجہ ہٹ گئی اور اَذکار کے مختلف طریقے رائج ہونے لگے‘ دوسری طرف دعوت و اقامت دین اور جہاد فی سبیل اللہ پر سے توجہ ہٹ گئی اور نہایت مشقت طلب اور غیر مسنون ریاضتیں رائج ہونے لگیں. اس کے ساتھ ہی سارا زور نفلی عبادات پر آگیا‘اور تقرب بالفرائض کے بجائے تقرب بالنوافل کا معاملہ بڑھتا چلا گیا.