علاج اس کا …!

اب آیئے اس سوال کی طرف کہ علاج کیاہو؟جب تشخیص ہو گئی کہ سلوکِ محمدیؐ سے اِنحراف کس نوعیت کا تھا اور کیونکر ہوا‘ تو اب علاج بھی ظاہر ہے‘ یعنی الـعَود الی البَد ئِ. اسی طریقے کی طرف دوبارہ رجوع کیا جائے جو ابتداء میں اختیار کیا گیا تھا.اسی کا نام تجدید ہے‘ اور اسی کو Revival اور Renaissance کہتے ہیں.یہ علاج بھی انحراف ہی کی طرح دو سطحوں پر کرنا ہو گا. اولاً رجوع اِلی القرآن . وہ توجہ جو قرآن سے ہٹ گئی تھی اسے دوبارہ اس پر مرکوز کریں‘ جو معاملہ غلط رُخ پر پڑ گیا تھا اسے صحیح جگہ پر لائیں. ایمان کی شدت یا گہرائی بھی قرآن سے حاصل ہو گی اور اِیمان کی گیرائی اور اس کا Intellectual Element بھی قرآن ہی سے ملے گا. معرفت کی پیاس بھی اسی سے بجھے گی اور تلاش حقیقت کے جذبے کی بھی اسی سے تسکین ہو گی. بقول اقبال ؎ 

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود

اور ؎ 


کشتن ابلیس کارے مشکل است
زاں کہ اُو گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی!
کشتہ شمشیر قرآنش کنی!

ان اشعار میں اقبال کے فکر کی بلندی ملاحظہ کیجیے. میں نے اقبال کو فکر اسلامی کا مجدد یونہی تو نہیں مان لیا ہے! 
قرآن حکیم کے متعلق ایک نکتہ اور ہے جسے ذہن نشین کر لینا چاہیے. کلامِ الٰہی کا ایک پہلو ہے اس کی تکرار‘ یعنی اسے پڑھتے رہو‘ پڑھتے رہو اور دوسرا پہلو ہے اس کا فہم‘ تفقہ‘ غور و فکر‘ تدبر و تفہم. یہ دونوں پہلو ضروری ہیں‘ لیکن مقدار کے اعتبار سے ان کے مابین نسبت و تناسب کا معاملہ برعکس رہے گا. اگر تفہم‘ تعقل اور تفقہ کم ہے تو تکرارِ تلاوت اور بار بار کی repetition پر زور دینا ہو گا. اور اگر غور وفکر کا معاملہ بڑھ جائے تو تکرار کی کم شدت سے بھی مطلوبہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے. ارشادِ ربانی ہے: 

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ (حٰم السجدۃ:۵۳
’’ہم انہیں عنقریب اپنی نشانیاں دکھائیں گے‘ آفاق میں بھی اور ان کے نفوس میں بھی‘ یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہی (قرآن) الحق ہے.‘‘

دیکھئے قرآن استخراجی منطق (Deductive Legic) کے استدلال سے ذات باری تعالیٰ کو نہیں منواتا‘بلکہ استقرائی منطق (Inductive Logic) کو استعمال کرتا ہے. وہ کہتا ہے کہ اپنے چاروں طرف دیکھو‘ کائنات پر غور کرو‘ یہ تمام مظاہر فطرت اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہی تو ہیں. ؏ ’’کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!‘‘

اس طرح آیاتِ ربانیہ کی تین اقسام ہو گئیں‘ قرآنی آیات‘ آفاقی آیات‘ اور انفسی آیات. ان تینوں کے مابین ہم آہنگی ہے اور ان پر غور وفکر کرنے کے نتیجے میں انسان کے اندر کا شعورِ خفتہ (Dormant consciousness) ابھر کر سطح پر آ جاتا ہے. اسی کا نام تذکر ہے‘ یعنی یاد دہانی حاصل کرنا. یہی حصولِ ایمان کا طریقہ ہے. اب ظاہر ہے کہ آج مظاہر فطرت کا جتنا علم اور فہم انسان کو حاصل ہو چکا ہے وہ پہلے تو نہیں تھا. لہٰذا سائنسی تحقیق کے منکشف اور مبرہن ہونے کی وجہ سے آج فہم قرآن کے بھی نئے سے نئے راستے کھل رہے ہیں‘ اور تعقل و تفہم قرآن کا پہلو آج بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے جو اس دور میں اس انداز سے موجود نہ تھا. چنانچہ آج تذکر بالقرآن کی شعوری اور Intellectual جہت اصل اہمیت کی حامل بن چکی ہے. اسی نکتے سے علامہ اقبال کے اس موقف کا تعلق جڑتا ہے جو انہوں نے اپنی ’’تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ میں پیش کیا ہے کہ تزکیہ نفس کے لیے صوفیاء نے جو طریقے ایجاد اور اختیار کیے تھے‘ آج کے انسانوں کی طبائع ان مشقت طلب اور کٹھن ریاضتوں (Rigorous Exercises) کی متحمل نہیں ہو سکتیں. ہم نے مخالفت نفس کی ان ریاضتوں پر اس اعتبار سے تو غور کیا تھا کہ وہ مسنون نہیں بلکہ طریق محمدیؐ سے انحراف و الحاد کی مظہر ہیں‘ اور ان غیر مسنون طریقوں کو اس وقت اختیار کیا گیا جبکہ باطل اور نظام باطل کے خلاف جہاد کا دروازہ بندہو گیا تھا‘ لیکن اس میں اضافی بات یہ بھی ہے کہ اس دور کے صوفیاء نے جو شدید اور کٹھن ریاضتیں تجویز کی تھیں‘ آج کا انسان واقعتا اس کا متحمل نہیں ہے. اس کمی کو پورا کرنے کے لیے لامحالہ تذکر بالقرآن کی Intellectual Dimension پر زور دینا ہوگا.اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے علوم کے جو نئے دروازے انسان پر وا کیے ہیں اور جن کی بدولت قرآن مجید کے تفہم و تعقل و تفقہ کا معاملہ بہت آگے بڑھ گیا ہے‘ اس سے ان شدید مشقتوں اور ریاضتوں کی compensation ہوتی ہے.

علاج کے ضمن میں پہلا نکتہ رجوع الی القرآن ہے‘ اور دوسرایہ کہ مخالفت نفس کے لیے دوبارہ دعوت و اقامت دین کی جدوجہد کی طرف پلٹا جائے. عبادات میں تقرب بالفرائض پر زور ہو.ا ور صوفیاء کے دور میں نفلی عبادات پر جو over-emphasis ہو گیا تھا اس سے رجوع کیا جائے. اس معاملے میں بھی جومسنون عبادات ہیں ان کی حد تک تو ہر شخص کوشش کرے‘ لیکن تہذیب وتزکیہ نفس کا اصل ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کو بنایا جائے اورساری محنت و مشقت دعوت و اقامت دین کے راستے میں صرف کی جائے. میں آپ کو تجزیہ کر کے بتا چکا ہوں کہ مخالفت نفس کی ریاضتوں کے ذریعے جو مقاصد حاصل کیے جاتے تھے وہ تمام کے تمام جہاد کے راستے سے بھی پورے ہو جاتے ہیں. اس میں محنت و مشقت ہے جو نفس کی طلب استراحت و آرام کے خلاف ہے‘ اس میں انفاقِ وقت و مال ہے جو حب مال کے منافی ہے. آپ خطرات مول لیتے ہیں‘ اور دعوت آگے بڑھتی ہے تو جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آنے کا مرحلہ بھی آتا اور یہ بقائے ذات اور بقائے نسل کے داعیات کی مخالفت ہے.

دوسرے یہ بات اس اعتبار سے بھی واضح ہو گئی کہ اب غلبہ دین کا دور نہیں ہے‘ اسلام اس وقت سلطنت و ریاست کے دور میں نہیں ہے‘ بلکہ حدیث نبویؐ کی رو سے یہ اسلام کی غربت کا زمانہ ہے :بَدَاَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَئَ، فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ . لہٰذا منطقی طور پر بھی یہ بات درست ہے اور معقول و مطلوب ہے کہ اب دوبارہ جہاد فی سبیل اللہ کی طرف رجوع کیا جائے. اسلام کے سلطنت و ریاست کے دور میں اس ضمن میں جو کمی پید ہو گئی تھی وہ بھی آج کے دور میں موجود نہیں ہے. جب دوبارہ غلبہ دین ہو جائے گا تو پھر یہ مسئلہ بھی دوبارہ پیدا ہو گا ‘ لیکن یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے. فی الوقت دین غالب نہیں ہے اور دعوت و اقامت دین ی جدوجہد اس وقت فرض عین بن چکی ہے. پھر یہ کہ دورِ ملوکیت میں جو رکاوٹ پیدا ہو گئی تھی وہ الحمد للہ کم از کم پاکستان میں اب تک تو نہیں ہے. آپ کو شہری حقوق حاصل ہیں. اظہارِ رائے‘جماعت سازی اور اجتماع کی آزادی موجود ہے. آپ پر کوئی قدغن نہیں‘ کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو اس کام میں رکاوٹ ڈالتا ہو. البتہ آپ نے بہت سی قدغنیں خود اپنے اوپر عائد کر رکھی ہیں.

حب مال‘ حب جاہ‘ آسائش اور عیش کی محبت! اب کسی کے لیے اس کا career ہی معبود بن چکا ہے‘ اسے کیسے چھوڑ دے؟ کسی کے نزدیک اس کی ملازمت ہی معبود ہے‘ گویا اس کے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رزاقیت اسی ملازمت کے ذریعے سے پوری ہو سکتی ہے‘ کسی اور ذریعے سے پوری ہو ہی نہیں سکتی. یہ سب وہ رکاوٹیں ہیں جو آپ نے خود اختیار کر رکھی ہیں. ان کی ذمہ داری آپ پر ہے. خارجی طور پر تو کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے. آپ جتنا ایثار کر سکتے ہیں کریں‘ جس قدر آگے بڑھ سکتے ہیں بڑھیں‘ اس جدوجہد میں آپ جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہو گا. ’’ This depends entirely upon you‘‘ … آپ جتنی قربانی دیں گے اتنا ہی اپنی روحانی ترقی کا راستہ کھولیں گے.جتنی نفس کی مخالفت کریں گے اتنی ہی ارتقائے روحانی کی منازل طے ہوں گی. اب وہ معاملہ تو نہیں ہے کہ کوئی ذرا سی بات کرتا تو باغی اور گردن زدنی شمار ہو جاتا تھا. حضرت حسینؓ کو اسی لیے باغی سمجھا گیا کہ اس وقت بیعت لے کر جنگ کرنے کے سوا کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں. حضور کے لیے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طورپر اس جہاد کے ضمن میں سازگار حالات پیدا فرما دیے تھے‘ جنہیں میں نے حال ہی میں اپنی تقاریر میں واضح کیا ہے . جزیرہ نمائے عرب میں ایک مرکزی حکومت کا نہ ہونا درحقیقت حضور کے لیے بہت بڑی سہولت تھی. دوسرے اس وقت کی سپر پاور ز یعنی روم اور ایران کا غافل رہنا‘ کہ انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ ان کی جڑیں کٹ رہی ہیں. ان عوام کی بدولت حضور کو Breathing Space ملی. آپ کے علم میں ہے کہ حکومت نام کی کوئی شے اگے تھی تو کسی درجے مکہ میں تھی‘ اور اسی لیے حضورکو بالآخر وہاں سے نکلناپڑا.اس حوالے سے پاکستان میں وہ رکاوٹیں موجود نہیں ہیں. یہ درست ہے کہ نظامِ باطل کے پاسبانوں کے پاس ہر نوع کے وسائل ہیں‘ وہ آپ کی کردار کشی (Character Assasination) کر سکتے ہیں. بڑے سے بڑے قلم کاروں کو اس مقصد کے لیے خرید سکتے ہیں. چنانچہ یہ سب تو ہوگا‘لیکن قانونی و آئینی اعتبار سے نہ آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ نہ؏ ’’بول! کہ لب آزاد ہیں تیرے!‘‘کے مصداق آپ کی زبان ہی پر کوئی تالے ڈال دیے گئے ہیں!

اب اس بحث کو سمیٹ لیں! دیکھئے تزکیہ نفس اور تصوف کے حوالے سے بھی سارا تجزیہ اور ساری تشخیص اسی نکتے پر آ گئی‘ یعنی دعوت و اقامت دین کی جدوجہد. اصل کام وہی ہے جو ہم کر رہے ہیں. ؏ ’’آئی صدائے جبرائیل تیرا مقام ہے یہی!‘‘یہاں میں اس آیہ مبارکہ کا حوالہ دوں گاکہ قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ (یوسف:۱۰۸). الحمد للہ کہ جہاں تک فکراور سوچ کا تعلق ہے تو یہ سارا تانا بانا اور صغریٰ کبریٰ اس کام کے شروع کرنے سے پہلے ہی میرے ذہن میں مکمل تھا. اس کی گواہی کے لیے میرے کتابچوں ’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ‘‘ اور ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کا مطالعہ کر لیجیے یا ’’حقیقت زندگی‘‘ نامی مضمون دیکھ لیجیے جو ۱۹۶۶ء میں لکھا تھا‘ یا ’’اسلام میں عقل و نقل کی کشمکش‘‘ نامی تحریر ملاحظہ کر لیجیے جو ۱۹۶۸ء میں لکھی گئی تھی. اب میں اسی آیت کو ایک ’’دعویٰ‘‘ کی صورت میں تبدیل کر کے پڑھ رہا ہوں: ھذہ سبیلی ادعوا الی اللّٰہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی، سبحان اللّٰہ وما اَنا من المشرکین، ولا منَ المبتدعبین. اللہ پاک ہے‘ میں نہ مشرکوں میں سے ہوں اور نہ مبتدعین میں سے. اگرچہ ؎ ’’ایں سعادت بروز بازو نیست. تانہ بخشد خدائے بخشندہ!‘‘

جہاں تک مقاصد کا تعلق ہے تو اہل تصوف کے مقاصد کو میں صد فی صد دین سمجھتا ہوں. میں نے آپ کو مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا قول سنایا تھا کہ اسلام کے اصل فلسفی صوفیاء ہی ہیں. لہٰذا اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھیے کہ میری سوچ میں یہ عنصر بھی ہے خواہ وہ فلسفہ وجود کے حوالے سے ہو یا حقیقت زندگی اور حقیقت انسان کے حوالے سے. لیکن میرا اصل مبدء اور منبع‘ میرا اوڑھنا بچھونا‘ میری سوچ کا ماخذ اور source درحقیقت قرآن حکیم ہی ہے. میری سوچ میں عقل و منطق یا قیاس کے حوالے سے جو اضافے ہیں وہ الگ رہیں گے‘ لیکن اس کا اصل تانابانا قرآن مجید کے محکمات پر قائم ہے. اس میں تصوف کا فلسفیانہ حصہ بھی شامل ہے‘ لیکن جہاں تک تصوف کے عملی پہلو کا تعلق ہے تو اس کے متعلق تفصیل آپ کے سامنے آ گئی کہ اس کی اساس کیا تھی‘ کس طرح انحراف ہوا‘ اور کیوں ہوا. اس حوالے سے میں نے آپ کے سامنے اپنا موقف رکھ دیا ہے. اگر اس میں کوئی خیر ہے تو منجانب اللہ ہے‘ یا پھر آپ لوگوں کا حسن نظر ہے. اور اگر کوئی شر ہے‘ خطا یا غلطی ہے‘ تو میں خود بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا ہوں‘ اور آپ کے لیے بھی دعا گو ہوں کہ وہ اسے آپ کے حافظے سے محو کر دے . ؎ 

یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے!
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے!!

مقاماتِ تصوف کے بعض پہلو آج کی گفتگو میں زیر بحث نہیں آئے‘ جیسے مقام صبرِ مقام رضا‘ مقامِ توکل‘ لیکن یہ تمام موضوعات سورۂ تغابن کے درس میں موجود ہیں. 

اقول قولی ھذا واستغفراللہ لی ولکم ولسائرالمسلمین والمسلمات.