تعمیر سیرت میں صلوٰۃ کی اہمیت

اسلام اور قرآن حکیم انسان کے سامنے جو اعلیٰ نصب العین پیش کرتے ہیں‘ اس کے حصول کے لیے جو جدوجہددرکار ہے اس کے لیے پہلے پختہ انسانی شخصیتیں ایک ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں. اور ان پختہ شخصیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے جو پروگرام اور لائحۂ عمل قرآن مجید تجویز کرتا ہے اس کا اوّل و آخر صلوٰۃ ہے. ہم نے قرآن حکیم کے ان دو مقامات پر دیکھا کہ آغاز میں بھی نماز کا ذکر ہے اور اختتام پر بھی نماز ہی کا ذکر ہے.میں اس بات کو نبی اکرم کی دواحادیث سے واضح کروں گاکہ اسلام کا نقطۂ آغاز نماز ہے. رسول اللہ فرماتے ہیں: 

بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْـکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ 
(۱
’’شرک و کفر اور بندے کے درمیان نماز ترک کرنے کا معاملہ حائل ہے.‘‘ 

یعنی اسلام اور کفر کے مابین امتیاز نماز ہی سے قائم ہوتا ہے. پھر دیکھئے کسی عمارت کی درمیانی اور اہم شے اُس کا عمود ہوتی ہے جس پر چھت کھڑی ہوتی ہے‘ جسے ہم ستون کے نام سے جانتے ہیں . رسول اللہ نے فرمایا: 


اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ (۲’’نماز دین کا ستون ہے‘‘. پھر یہ کہ دین کی اس بلند ترین حقیقت کے بارے میں صوفیاء کا مشہور قول ہے: ’’اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ یعنی صلوٰۃ مؤمنین کے لیے معراج کا درجہ رکھتی ہے. چنانچہ ابتدا بھی‘ اہم اور درمیانی عمود بھی اور چوٹی بھی‘ ان تمام مرحلوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ نماز دین کی اہم ترین شے ہے .میں اسے یوں تعبیر کروں گا کہ اگر ہم انسان کی سیرت سازی کو ایک شہر سے تشبیہہ دیں تو اس کے گردا گرد جو فصیل کھینچی ہوئی ہے وہ نماز ہے. واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو سے بھی اگر دیکھا جائے تو نماز کو اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں قائم کر لے تو اس کی زندگی گویا ایک حصار میں آ جاتی ہے‘ ایک کھونٹے سے بندھ جاتی ہے. پھر اس کے سارے پروگرام اس نماز کے حوالے سے طے ہوں گے‘ اس کی appointments اگر ہوں گی تو نماز کے اوقات کو مدنظر رکھ کر ہوں گی‘ اس کے شب و روز کے معمولات میں فیصلہ کن چیز نماز ہو گی .لہٰذا پوری انسانی زندگی کو شکنجے میں کس لینے والی شے نماز ہے.