سورۃ الشوریٰ کی یہ آیت قرآن مجید کی اہم ترین آیات میں سے ہے اور ’’اتحادِ اُمت‘‘ کے ضمن میں بڑی اہمیت کی حامل ہے. اس موضوع پر چونکہ مجھے آج بہت طویل مضمون cover کرنا ہے لہٰذا میں اس آیت پر آج زیادہ وقت صرف نہیں کر سکتا. کچھ ہی عرصہ قبل میں نے اسی جگہ اہل تشیع کی خدمت میں کچھ گزارشات جب پیش کی تھیں تو اس پر تفصیل سے گفتگو ہوئی تھی. میری وہ تقریر’’میثاق‘‘ کے علاوہ ایک کتابچے کی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہے. اِس وقت صرف حوالہ دینا مقصود ہے. 

’’شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ ‘‘ کے دو ترجمے ہیں. ایک ترجمے کی رُو سے مفہوم یہ ہو گا کہ تمہارے لیے بھی دین وہی مقرر کیا ہے جو حضرات انبیاء ورُسل نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کا تھا. گویا کہ دین ایک ہے. دوسرا ترجمہ یہ ہو گا کہ دین کے بارے میں تم پر بھی وہی بات فرض کی گئی ہے جو نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام پر فرض کی گئی تھی‘ یعنی ’’ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ ‘‘ کہ دین کو قائم کرو. البتہ یہ دونوں ترجمے مفہوم کے اعتبار سے ایک ہی بن جائیں گے‘ کیونکہ سارازوران الفاظ پر ہے: ’’ اَقِیۡمُوا الدِّیۡن‘‘ (دین کو قائم کرو) ’’ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ِ‘‘ (اور اس میں متفرق نہ ہو جائو!) یہاں پر ’’فِیْہِ‘‘کا لفظ بہت اہم ہے. اکثر لوگوں نے ا س ’’فِیْہ‘‘ کا حق ادا نہیں کیا ہے اور سمجھا ہے کہ جیسے بعض دوسرے مقامات پر ’’ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ‘‘ اور ’’ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ‘‘ کے الفاظ میں’’فرقہ فرقہ مت بنو‘ گروہوں میں تقسیم مت ہو جائو‘‘ کی ہدایت دی گئی ہے‘ شاید اسی طرح کی یہ بھی ایک ہدایت ہے. لیکن یہاں ’’فِیْہِ‘‘ کا اضافہ ہے‘ جس کا تقاضا ہے کہ دین میں تفرقہ نہ ہو. دین کیا ہے؟ دین اصلاً نام ہے اس کا کہ حاکم مطلق اللہ ہے اور اس کا نمائندہ اس کا رسول ہے. یعنی ’’لَا اِلٰہ الَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘. اور اسلامی ریاست کا کل دستور ان الفاظِ مبارکہ میں مضمر ہے. اسی حقیقت کو اقبال نے اس طرح پیش کیا ہے ؎

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی‘ باقی بتانِ آزری

اور

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نرسیدی تمام بولہبی است

چنانچہ دین یہی ہے جو ہمیں 
’’لَا اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ میں بتا دیا گیا ہے اور یہ دین ہمیشہ سے ایک رہا ہے. پہلے موسیٰ علیہ السلام رسول اللہ تھے‘ اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نبی اللہ تھے. رسولوں کے نام بدلتے جائیں گے ‘لیکن کلمہ یہی ہو گا. تو دین ایک ہے. اور یہاں فرمایا گیا کہ دین کے ٹکڑے نہ کرو. دین ایک اکائی ہے‘ یہ ایک حیاتیاتی وحدت (Organic Whole) ہے‘ اس کے حصے بخرے مت کرو. کہیں ایسا نہ ہو کہ دین کا ایک حصہ تو اللہ کے تابع ہو اور ایک حصہ ہماری مرضی کے تابع. اس کا ایک حصہ ہمارے رواج کے تابع ہو تو ایک حصہ زمانے کے تقاضوں کے تابع. اس طرح دین تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا. گویا ؎

اُڑائے کچھ ورق لالے نے‘ کچھ نرگس نے‘ کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!

اسی مفہوم کی ادائیگی کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں: 
اَلَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَہُمْ یعنی ’’انہوں نے اپنے دین کو پھاڑ ڈالا‘ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا‘‘. ایک ہے خود متفرق ہو جانا‘ فرقوں میں بٹ جانا‘ لیکن فَرَّقُوْادِیْنَہُمْکی ترکیب میں ’’دین‘‘ مفعول بہٖ ہے. یعنی انہوں نے دین ہی کے ٹکڑے کر ڈالے. 

وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ کے الفاظ میں دو ہدایات دی جا رہی ہیں. پہلی یہ کہ دین کی اِس کلیت اور اس کی ہمہ گیریت اور اس کے ہمہ پہلو ہونے کو برقرار رکھو. اس میں تفرقہ نہ ہو‘ اس میں ٹکڑے نہ ہوں‘ اس کے حصے بخرے نہ ہوں کہ کچھ اللہ کو دو اور باقی کچھ کسی اور کو دے دو.’’جو خدا کا ہے خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے قیصر کو دو‘‘ کا فلسفہ دین میں تفرقہ کے مترادف ہے. ’’ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ‘‘ کے الفاظ میں دوسری ہدایت یہ ملتی ہے کہ اقامت ِ دین کے لیے تفرقہ نہ ہو. ’’فِیْہِ‘‘ میں ضمیر مجروریا دین کی طرف جائے گی یا اقامت ِ دین کی طرف. دین کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایک رہا ہے‘ البتہ شریعتیں جدا رہی ہیں. موسیٰ علیہ السلام کی شریعت اور تھی‘ اور محمد رسول اللہ  کی شریعت اور ہے. لیکن جہاں تک دین کا تعلق ہے وہ محمد کا بھی وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کا تھا. دین تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد  تک ایک ہی ہے. شریعتوں میں فرق ہو سکتا ہے اور ہوا ہے. اسی طرح دین اسلام کے اندر مختلف فقہیں اور مسالک مختلف ناموں سے… مثلاً فقہ حنفی‘ فقہ شافعی‘ فقہ مالکی‘ فقہ حنبلی اور فقہ جعفری… موجود ہیں. لیکن ان کو دین میں تفرقے کی بنیاد بنایا جانا بہرصورت غلط ہے. 
سورۃ الشوریٰ کی آیت۱۳ کے بعد اب ہم سورۃ الانبیاء کی آیت۹۲ کا مطالعہ کرتے ہیں. قرآن حکیم کی چند سورتیں ایسی ہیں کہ جن میں مختلف اعتبارات سے انبیاء کرام علیہم السلامکے اسماء گرامی کا بڑا خوبصورت گلدستہ آیا ہے. انہی میں سے ایک مقام سورۃ الانبیاء بھی ہے. اس میں بہت سے انبیاء ورُسل کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: 

اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۫ۖ وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۹۲﴾ 

’’بیشک تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے ‘اور میں تمہارا رب ہوں‘ پس تم میری ہی عبادت کرو.‘‘

یعنی خواہ وہ ابراہیم ہوں‘ اسماعیل ہوں‘ اسحاق ہوں‘ یعقوب ہوں‘ لوط ہوں‘ نوح ہوں‘ دائود ہوں‘ سلیمان ہوں‘ ایوب ہوں‘ ادریس ہوں‘ یونس ہوں یا زکریا ہوں (علیہم الصلوٰۃ والسلام) ان سب کا تعلق ایک ہی ملت سے ہے. اور ان سب کو ایک ہی حکم دیا گیا تھا کہ میں تمہارا ربّ ہوں‘ تمہیں میرا حکم ماننا ہے‘ تم میری بندگی کرو. اور اسی کا نام دین ہے.