اس کے بعد اب سورۃ المائدہ کی آیت۴۸ کے اس جزوپر توجہ مرکوز کیجیے: لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا ؕ 
’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور ایک منہاج مقرر کیا ہے.‘‘

ظاہر بات ہے کہ اگرچہ تمام انبیاء ورُسل ایک ہی اُمت سے تعلق رکھتے ہیں‘ لیکن پھر انبیاء و رسل کی اُمتیں بھی ہیں. حضرت موسیٰ ‘ حضرت عیسٰی اور حضرت محمد (علیہم الصلوٰۃ والسلام) یہ سب ایک اُمت ہیں‘ لیکن ایک اُمت ِموسوی ہے‘ ایک اُمت ِعیسوی ہے اور ایک اُمت ِمحمد ی ہے. چنانچہ ایک اعتبار سے اگر یہ ساری ایک امت ہے تو دو اعتبارات سے ان میں فرق ہے. یہ فرق سورۃ المائدۃ کے زیر نظر الفاظ : 
لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا ؕ میں بیان کیا گیا ہے. یہاں پر ہر اُمت کے لیے دو چیزیں معین کیے جانے کا ذکر ہوا ہے‘ ایک شریعت اور دوسری منہاج. شریعت کی بات تو واضح ہو چکی. مثلاً شریعت ِموسوی اور شریعت ِمحمدی  جدا جدا ہیں. اسی کے تابع ہمارے ہاں فقہیں ہیں. لیکن یہ منہاج کا فرق کیا ہے؟ یہ بات میں آج پہلی بار بیان کر رہا ہوں. 

مجھے جب کسی خاص موضوع پر گفتگو کرنی ہوتی ہے اور اس کے اعتبار سے جب میں قرآن حکیم کو دیکھتا ہوں تو کوئی اور نیا پہلو نظر آجاتا ہے جو اس سے پہلے میری نظر سے مخفی تھا. قرآن حکیم کے بارے میں رسول اللہ  نے فرمایا تھا: 
لَا تَنْقَضِی عَجَائِبُہٗ یعنی اس قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے. وَلاَ یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ بار بار کے پڑھنے سے اس پر کوئی بوسیدگی طاری نہیں ہوگی‘ اس سے آدمی کاجی نہیں اکتائے گا. اسے پڑھتے رہو‘ پڑھتے رہو تو یہ نئی شان کے ساتھ ظاہر ہو گا. وَلاَیَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَائُ اور اصحابِ علم اس سے کبھی سیر نہیں ہو سکیں گے. بلکہ علم کی پیاس بڑھتی ہی رہے گی. 

اب آپ نوٹ کیجیے کہ’’منہاج‘‘ سے کیا مراد ہے؟ کیا تمام رسولوں کا منہاج ایک نہیں تھا؟ اس کا جواب نفی میں ہے. 
لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا ؕ کے الفاظ وضاحت کر رہے ہیں کہ جیسے شریعتیں جدا تھیں‘ ایسے ہی منہاج بھی جدا تھا.