اب ذرا تجزیہ کیجیے کہ منہاجِ ابراہیمیؑ کیا تھا؟ آپؑ نے جگہ جگہ توحیدکی کی دعوت کے مراکز قائم کیے. آپ ؑ کی زندگی میں کوئی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد نظر نہیں آتی. آپؑ نے اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو عامورہ اور سدوم کی طرف بھیج دیا کہ وہ وہاں جا کر دعوتِ توحید کا ایک مرکز قائم کریں. ایک بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو لا کے حجاز میں آباد کر دیا. رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ (ابراہیم:۳۷) چنانچہ ایک مرکز حجاز میں بن گیا‘ جبکہ دوسرے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو فلسطین میں آباد کر دیا. اگر آپ اس پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس منہاج پر ہمارے صوفیاء اور اولیاء اللہ نے کام کیا ہے. انہوں نے کفر و شرک کے مراکز میں ایمان کی شمعیں روشن کیں اور خانقاہیں آباد کیں‘ جہاں پر آنے والے لوگوں کا انہوں نے تزکیہ کیا. ان خانقاہوں کو آپ آج کل کی خانقا ہوں پر قیاس نہ کیجیے. پچھلے زمانے میں روحانی اور باطنی علوم کی تلقین و تعلیم‘ ظاہری علوم کی تکمیل کے بعدشروع ہوتی تھی. قرآن‘ حدیث اور فقہ جیسے علوم کی تحصیل کر چکنے کے بعد لوگ سلوک کی منازل طے کرتے.
یہ نہیں کہ ’’ ا ‘‘ کا نام’’ ب ‘‘ نہیں جانتے اور سجادہ نشین بھی ہیں اور کسی شیخ طریقت کے خلیفہ ٔ مجاز بھی ہیں. اس طرح کے لوگ تو اس دور کی پیداوار ہیں جب ہم نے دین کو دھندا اور profession بنا لیا. جبکہ اگلے وقتوں کے مشائخ عظام‘ دین کے عالم بھی ہوتے تھے. وہ اپنے تربیت یافتہ خلفاء کو مختلف مقامات پر بھیج دیتے ‘جہاں دعوتِ دین اور اصلاح و ارشاد کے مراکز قائم ہو جاتے. چنانچہ شیخ فرید الدین مسعود شکر گنج رحمہ اللہ علیہنے پاک پتن سے اپنے خلیفہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ علیہ کو دہلی بھیجا کہ وہاں پر دعوت و اصلاح کا مرکز قائم کریں. اسی طرح شیخ صابر رحمہ اللہ علیہ کو کلیر اور شیخ جمال رحمہ اللہ علیہ کوہانسی میں مراکز قائم کرنے کے لیے بھیجا‘ جبکہ اپنے ایک داماد کو اپنے پاس رکھا جو وہاں کے جانشین بنے. اور پھر نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ علیہ سے جو سلسلہ چلا ہے‘ اس کے کیا کہنے‘ ایک ایک وقت میں پانچ پانچ ہزار مسترشدین ان کی خانقاہ میں تربیت حاصل کر رہے ہوتے تھے. یہ حضرات خود تربیت حاصل کرنے کے بعد پورے ہندوستان کے اندر پھیل گئے. تو یہ منہاج ِ ابراہیمی ( علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) ہے.