اب غور کیجیے‘ منہاجِ موسویؑ کیا تھا؟ آپ ؑ کی سب سے اہم کوشش ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کو غلامی سے نجات دلانے کی تھی. جیسے ہی حکم ہوا: اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿۫ۖ۱۷﴾ (النازعات)(جائیے فرعون کی طرف‘ وہ سرکش ہو گیا ہے) تو جاتے ہی پہلی بات یہ کہی: فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ (طٰـہٰ:۴۷’’پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو اور انہیں عذاب مت دو!‘‘ انہیں اجازت دو کہ جہاںسے آئے تھے وہاں واپس چلے جائیں. تم نے انہیں زنجیروں میں جکڑ لیا ہے‘ غلامی کے شکنجے میں کس لیا ہے‘ تم ان سے بیگار لے رہے ہو‘ انہیں چھوڑ دو کہ یہ فلسطین کو واپس لوٹ جائیں. اور وہ قوم اس قدر بگڑی ہوئی قوم تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نو(۹) کھلے معجزے دیکھنے کے بعد‘ اور فرعون کی غلامی سے نجات اور مصر سے ہجرت کے بعد جب ان سے کہا گیا کہ آئو اللہ کی راہ میں جنگ کرو تو پوری قوم میں سے دو آدمیوں کے سوا کوئی جان کی بازی لگانے کے لیے تیار نہ تھا. وقت کے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون( علیہما السلام) کے علاوہ کل دو افراد اس کام کے لیے تیار ہوئے ‘یعنی حضرت یوشع بن نون اور حضرت کالب بن یفنا. گویا چھ لاکھ کے مجمع میں سے چار آدمی اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے. کوئی تصور کر سکتا ہے کسی قوم کی ناہنجاری کا؟

پھر یہ وہ بدبخت قوم تھی کہ سارے معجزے دیکھنے کے باوجود جیسے ہی انہیں غلامی سے نجات ملی اور مصر سے نکلے تو اللہ کے پیغمبر ؑ سے یہ کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی کوئی بت بنا دو جس کی ہم پوجا کیا کریں. موسیٰ علیہ السلام چالیس دنوں کے لیے کوہ طور پر گئے تو ان کے پیچھے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی.لیکن بہرحال وہ ایک مسلمان قوم تھی‘ کلمہ اس کا وہی تھا ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ لہٰذاحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی نجات کی فکر کی. یہ منہاجِ موسوی ؑ تھا. اس خاص پہلو سے یہ کہا جا سکتا ہے اس منہاج پر مسلم لیگ نے کام کیا ہے. چنانچہ تحریک پاکستان اس بنیاد پر چلی کہ برعظیم پاک وہند کے اندر دس کروڑ مسلمان بس رہے ہیں‘ اگر کہیں ہندوستان ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہو گیا تو ہندو ان پر ظلم کریں گے‘ ان کے ثقافتی تشخص تک کو ختم کر دیں گے‘ ان کو شدھی کرنے کی تحریک چلائیں گے‘ ان کا معاشی استحصال کریں گے‘ لہٰذا ہندو کی غلامی سے بچائو کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہندوستان کا بٹوارہ کر دو‘ اور ہمیں دو ٹکڑے ایسے دے دو جہاں ہماری اکثریت ہے تاکہ ہم وہاں اپنے تمدن کے مطابق نظام چلائیں. مسلم لیگ نے جو منہاج اختیار کیا یہ منہاجِ موسوی ؑسے بہت زیادہ قریب ہے.