اب آئیے منہاجِ محمد یؐ کی طرف. اور جان لیجیے کہ یہ دور اصلاً منہاجِ محمدیؐ کا دور ہے. منہاجِ محمدیؐ یہ ہے کہ سب سے پہلے دعوت دو‘ جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسے قبول کریں‘ انہیں منظم کرو‘ ان کی تربیت کرو‘ انہیں ایک طاقت بنائو اور کوڑے کی صورت میں نظام باطل کے اوپر دے مارو اور نظام باطل کا بھیجا نکال دو. از روئے الفاظِ قرآنی: بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ عَلَی الۡبَاطِلِ فَیَدۡمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ؕ ( الانبیآئ:۱۸یعنی’’ہم باطل کے اوپر حق کا کوڑا دے مارتے ہیں جو اس کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘اور وہ تو ہے ہی زائل ہو جانے والی شے ‘‘.یہ منہاجِ محمدیؐ ہے. یہ انقلاب برپا کرنے اور نظام کو بدلنے کے لیے محمد رسول اللہ  کا عطا کردہ طریق کار ہے. اس حوالے سے آپ  دنیا کے سب سے بڑے انقلابی راہنما ہیں. گاندھی جی کے بارے میں غالباً برنارڈشا نے کہا تھا: 

He is a saint among politicians and a politician among saints. 

یعنی وہ اگر سیاست دانوں میں بیٹھا ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو کوئی سادھو ہے‘ سیاست دان تو لگتا ہی نہیں اور جب سادھوئوں میں بیٹھا ہوتا ہے تو لگتا ہے کہ یہ تو سیاست دان ہے. اس اسلوب کلام کے حوالے سے میں یہاں محمد رسول اللہ  کے بارے میں ایک بات عرض کر رہا ہوں‘ اگرچہ ’’چہ نسبت خاک رابا عالم پاک‘‘ کے مصداق دنیا بھر کے انقلابی راہنما سیرت و کردار اور اعلیٰ ترین اخلاق و اطوار غرضیکہ کسی بھی اعتبار سے آپؐ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے‘ لیکن بات سمجھانے کے لیے یہ اندازِ تعبیر اختیار کر رہا ہوں کہ 

He is a revolutionary among prophets and a prophet among revolutionaries. 
’’آپ انبیاء کرام ؑکے درمیان ایک انقلابی ہیں اور انقلابیوں کے مابین ایک نبیؐ ہیں. ‘‘

انقلابیوں 
(Revolutionaries) میں آپ رکھیے مارکس‘ انیجلز‘ لینن‘ والٹیر اور روسو وغیرہ کو. لیکن محمد رسول اللہ  ایک عظیم انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جلیل القدر پیغمبر بھی ہیں. اور تمام ابنیاء و رسل(علیہم الصلوٰۃ والسلام) میں آپؐ اس اعتبار سے ممتاز ہیں کہ آپؐ نے صرف دعوت و تبلیغ کا کام نہیں کیا بلکہ بالفعل ایک انقلاب بھی برپا کیا‘ پہلے سے موجود نظام کو جڑ بنیاد سے تبدیل کر دیا ؎

در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید

آپ نے صرف مبلغ ‘صرف معلّم و مدرس اور صرف مربی پیدا نہیں کیے ‘ بلکہ ان سب کو مجاہد بھی بنایا ہے. اور اس جہاد کا ہدف اسلام کے نظام ِ عدلِ اجتماعی کو قائم کرنا قرار دیا کہ وقت آنے پر اس کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرو.