میرے اصل مخاطب کون لوگ ہیں؟

میں یہ وضاحت بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ میری آج کی گفتگو کے مخاطب کون ہیں اور کون نہیں. معین کر لینا چاہیے کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں‘ کیونکہ بھینس کے آگے بین بجانا وقت کا ضیاع ہے. 

پاکستان میں اب ایسے لوگوں کی کمی نہیںہے‘ بلکہ کبھی بھی کمی نہیں رہی ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان غلط بنا ہے‘ اور اگرچہ وہ واضح الفاظ میں نہیں کہتے‘ لیکن اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ ان کے نزدیک اس کو ختم ہو جانا چاہیے اور اس طرح قیام پاکستان کی غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے. چنانچہ جی ایم سید نے اس پر پوری کتاب لکھی کہ اب پاکستان کو ختم کردینا چاہیے اور یہ کتاب اس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلائی گئی. اور میں آپ کو بتا دوں کہ پاکستان کے تینوں چھوٹے صوبوں میں یہ فکر بعض مذہبی حلقوں میں بھی موجود ہے اور سیاسی حلقوں میں بھی. 

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا بننا تو درست تھا لیکن اب یہ اس درجے بگڑ گیا ہے کہ اصلاحِ احوال کا کوئی امکان ہی باقی نہیں‘ لہٰذا خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلکان نہ کرو‘ بلکہ آنے والے وقت کا انتظار کرو ؎

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!

اور یہ دوسری قسم کے لوگ اصلاحِ احوال کی کوشش کرنے والے لوگوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم کیوں دیواروں کے ساتھ سر ٹکرا رہے ہو؟ گویا 
لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ(الاعراف:۱۶۴تمہاری اس تبلیغ و تلقین سے‘ سعی و کوشش سے‘ محنت اور جدوجہد سے‘ واویلا کرنے اور نالہ و شیون سے کچھ حاصل نہیں ہے‘ لہٰذا لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو. یہ طرز فکر رکھنے والے لوگ بھی میرے مخاطب نہیں ہیں. 

تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا بننا بھی درست تھا اور اس کا قائم رہنا بھی ضروری ہے. یہاں اگر بگاڑ پیدا ہوا ہے تو ہماری اپنی غلطیوں سے ہوا ہے‘ ہمیں آخر دم تک اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے. چنانچہ سورۃ الاعراف کی آیت۱۶۴ ہی میں مذکورہ بالاالفاظ کے بعد اصلاح کی کوشش کرنے والوں کا جواب بھی نقل ہوا ہے. انہوں نے کہا: مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾ یعنی ہم یہ ساری کوشش اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ’’اپنے رب کے حضور معذرت تو پیش کر سکیں‘‘ کہ پروردگار ‘ہم تو آخر دم تک اسی کام کے لیے کوشاں رہے‘ ہم نے دنیا نہیں بنائی‘ جائیدادیں نہیں بنائیں‘ اپنے پروفیشن اور کیرئیر نہیں چمکائے‘ بلکہ ہم اس راہ میں محنت کرتے رہے‘ ہماری سعی وجہد کا نتیجہ تو تیرے ہاتھ تھا.’’اور شاید کہ ان میں تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘. کیا پتہ کہ یہ جاگ ہی جائیں. تم یقینی طور پر کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ ہلاک ہو کر ہی رہیں گے. کیا خبرکہ انہیں ہوش آ ہی جائے. ایک معالج آخری سانس تک مریض کا علاج کرتا ہے کہ کیا عجب کوئی دواکار گر ہو جائے. میرا خطاب ان تیسری قسم کے لوگوں سے ہے. 

چوتھے نمبر پر وہ لوگ ہیں کہ جو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان ٹھیک بنا ہے اور اس بارے میں پُر امید بھی ہیں کہ جلدیا بدیر حالات صحیح ہو جائیں گے. اب ان میں پھر مختلف قسم کے لوگ ہیں. چنانچہ کچھ تو خوابوں کی بنا پر دعوے کرتے ہیں‘ کچھ لوگوں کو بعض ملنگ قسم کے لوگوں کی پیشین گوئیوں پر یقین ہے‘ اور کچھ لوگ حضور  کی دی ہوئی پیشین گوئیوں کے حوالے سے پرامید ہیں‘ ع میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے! اس ضمن میں ہم نے’’نوید ِخلافت‘‘ نامی چھوٹا سا کتابچہ مفت تقسیم کے لیے شائع کیا ہے‘ جس میں ہم نے آیات اور احادیث کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ یہ خطہ ٔ زمین اسلام کا گہوارہ بنے گا اور عالمی خلافت ِ اسلامیہ کا احیاء یہیں سے ہو گا. ظاہر بات ہے کہ یہ سوچ رکھنے والے لوگ بھی یقینی طور پر میرے مخاطب ہیں کہ وہ تجزیہ کر کے سوچیں کہ ہمارے بگاڑ کا اصل سبب کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ پھر اس کے لیے وہ اپنی امکانی حد تک کوشش بھی کریں. یہ اگر نہیں کریں گے تو پھر اس کا کچھ حاصل نہیں. 

پانچواں طبقہ وہ ہے جو میرے نزدیک ایک خالص دینی فکر کا حامل ہے. اور وہ فکر یہ ہے کہ حالات اور سیاست سے قطع نظر‘ خواہ پاکستان بنتا یا نہ بنتا‘ اور رہے یا نہ رہے‘ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے کہ ہمیں دنیا میں اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے. اگر بالفرض پاکستان نہ بنتا تو کیا یہ جدوجہد ہم پر فرض نہیں تھی؟ کیا پاکستان بننے سے پہلے ہم اُمت ِمسلمہ کا حصہ نہیں تھے اور ہم پر شہادت علی الناس کی ذمہ داری نہیں تھی؟ کیا ہم 
اَقِیْمُواالدِّیْنَ کے قرآنی حکم کے مخاطب نہیں تھے؟ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے قیام نے ہماری ذمہ داری کو ہزار گنا بڑھا دیا ہے‘ لیکن اگر یہ نہ بھی بنتا تب بھی’’اقامت ِدین‘‘ ہماری دینی ذمہ داری تو تھی. اسی طرح پاکستان رہے یا نہ رہے‘ یہ دینی ذمہ داری تو پھر بھی برقرار رہے گی. میرے نزدیک یہ صحیح ترین فکر ہے اور میں خود اسی پر عمل پیرا ہوں. میں نے جو پانچ طبقات گنوائے ہیں ان میں سے پہلے دو سے تو مجھے اس وقت کوئی بات نہیں کرنی ہے‘ میرے مخاطب مؤخرالذکر تین طبقات ہیں. ان لوگوں کے غور و فکر کے لیے اب میں چند اہم عوامل جن سے ہمیں اس وقت سابقہ ہے‘ سامنے رکھنا چاہتا ہوں.