ہمارے لیے غور وفکر کا مقام یہ ہے کہ اس صورتحال کا سبب کیا ہے؟ اس پوری صورتحال کے دوسرے داخلی اور خارجی اسباب بھی ہیں‘ جو اپنی جگہ نہایت اہم ہیں‘ لیکن اہم ترین سبب میرے نزدیک ہمارا اپنی اصل منزل سے انحراف اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے سے روگردانی ہے. دوسرے اسباب اپنی جگہ پر اہم ہیں‘ مثلاً اس ضمن میں مسلم لیگ کا کردار زیربحث آسکتا ہے‘ اس پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے کہ ہماری آرمی کے اندر جو امنگیں پیدا ہو گئیں ان کا کیا نتیجہ نکلا‘ ہمارے ہاں کے جاگیرداروں کا جو ایک مزاج تھا اس نے کیا گل کھلائے. ہماری بیوروکریسی کو بھی زیر تنقید لایا جا سکتا ہے کہ وہ انگریز کی تربیت یافتہ تھی‘ اور ذہناً و ثقافتاً‘ خالصتاًمغربی تھی‘ صرف نام کے مسلمان لوگ تھے. یہ سارے اسباب آپ گنتے چلے جائیے‘ لیکن میرے نزدیک اہم ترین سبب اصل منزل سے انحراف ہے. ہماری منزل تھی نفاذِ اسلام‘ پاکستان میں نظام اسلام کا قیام‘ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ! لیکن ہم نے اپنی منزل سے انحراف کیا. اس انحراف میں کس کا کتنا حصہ ہے‘ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں. میں نے پچھلے سال۱۶ دسمبر کو’’سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب و عوامل‘‘ کے موضوع پر اپنی تقریر میں(جو جنوری ۱۹۹۵ء کے میثاق میں شائع ہو گئی تھی) پورا کچا چٹھا بیان کر دیا تھا کہ ؏ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے! ہم نے پہلے دن سے ہی اس ملک میں سیکولرازم کی بنیاد قائم کی‘ چنانچہ اس کا پہلا وزیر قانون ایک ہندو کو اور پہلا وزیر خارجہ ایک قادیانی کو مقرر کیا گیا. معلوم ہوا کہ اسلام‘ ایمان اور عقائد کا یہاں کوئی اعتبار ہی نہیں. اپنے اس طرزعمل سے ہم نے گویا پوری تحریک پاکستان کی نفی کر دی ع میں باز آیا محبت سے‘ اٹھالو پاندان اپنا! لہٰذا بعد میں آنے والوں کو کیا الزام دیا جائے ‘جبکہ روزِاوّل ہی معاملہ اس شعر کے مصداق تھا ؎

خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج!

منزل سے اس انحراف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تحریک پاکستان میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے 
ایک خاص وعدہ کیا تھا کہ اے اللہ! ہمیں ہندو اور انگریز کی غلامی سے نجات دلا‘ ہم تیرے عطا کردہ خطہ ٔ زمین میں تیرے دین کا بول بالا کریں گے. اور اس وعدہ خلافی کی بدترین سزا ہمیں نفاق کی صورت میں مل چکی ہے. میں کئی مرتبہ سورۃ التوبہ کی آیات ۷۵ تا۷۷ کے حوالے سے یہ مضمون بیان کر چکا ہوں. 

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾ 

’’اور ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے ایک عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہمیں اپنے فضل سے نواز دے(غنی کر دے) تو ہم خوب صدقہ و خیرات کیا کریں گے اور نیک بن جائیں گے.‘‘ 

فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾ 

’’پھر جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا تو انہوں نے بخل سے کام لیا اور پیٹھ موڑلی اور اعراض کیا.‘‘ 

فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ بِمَاۤ اَخۡلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوۡہُ وَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۷۷﴾ 

’’پس اللہ نے سزا کے طور پر ان کے دلوں میں نفاق پیدا کر دیا اُس روز تک جب وہ اس سے ملاقات کریں گے‘ بسبب اس وعدہ خلافی کے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی اور بسبب اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے.‘‘

ان آیات میں تو چند لوگوں کے حوالے سے اللہ کے عذاب کا ذکر ہے کہ انہیں ان کی بدعہدی کی سزا نفاق کی صورت میں ملی‘ جبکہ یہاں تو پوری قوم کا یہی معاملہ ہے. دس کروڑ کی قوم نے اللہ سے ایک وعدہ کیا اور پھر اس کی خلاف ورزی کی. لہٰذا ہم قومی سطح پر نفاق کا شکار ہو گئے. اور یہی وجہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارے ہاں دونوں قسم کے نفاق موجود ہیں‘ منافقت بھی اور نفاقِ باہمی بھی. جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ دجال کے ماتھے پر لکھا ہو گا ’’ک ف ر‘‘ (کفر) اسی طرح ہمارے قومی ماتھے پر’’نفاق‘‘ کا لفظ لکھا ہوا ہے. ایک نفاقِ 
باہمی ہے کہ پوری قوم اب قومیتوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے. لسانی قومیتیں‘ نسلی قومیتیں‘ ثقافتی دھڑے بندیاں‘ پھر سب سے بڑھ کر صوبہ پرستی اور ان سب پر مستزاد مذہبی فرقہ واریت‘ یہ سب نفاقِ باہمی کے عملی مظاہر ہیں. اس کے علاوہ نفاقِ عملی کا بھی ہم پر پورے طور پر تسلط ہو چکا ہے اوریہ چیز اس قوم کی پہچان بن چکی ہے‘ چنانچہ جھوٹ‘ وعدہ خلافی اور خیانت کا دور دورہ ہے. جو جتنا بڑا ہے وہ اتنا ہی بڑا جھوٹا ‘ وعدہ خلاف اور خائن ہے. اِلاّ ماشاء اللہ‘ استثناء ات تو قاعدے کلیے کو ثابت کرتی ہیں (The exception proves the rule ) .چنانچہ آپ کوذاستثناء ات کے طور پر افراد تومل جائیں گے‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پوری قوم مجموعی طور پر نفاق میں مبتلا ہے. تو یہ ہے ہمارے بگاڑ اور فساد کا اصل سبب جس کے دوپہلو میں نے آپ کے سامنے رکھے.