اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کا علاج کیا ہے؟ اس کا اصل علاج تو اپنی منزل کی طرف پیش قدمی یعنی نظامِ اسلامی کا قیام ہے‘ لیکن فوری اور تخفیف شدہ (Palliative) علاج کے طور پر بھی کچھ اقدامات ضروری ہیں. مثلاً ایک خاص مسئلے کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ پاکستان کے چھوٹے صوبے بنائے جائیں. پورے ملک کو لگ بھگ ایک ایک کروڑ کی آبادی کی مناسبت سے کم ازکم بارہ صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے. لوگ محسوس کریں کہ ہمارے معاملات ہمارے ہاتھوں میں ہیں. نئی صوبائی تقسیم میں لسانی اور ثقافتی عوامل کو بھی مدنظر رکھا جائے. پاکستان کے ماحول کے اعتبار سے یہ ایک ’’کلمہ ٔ کفر‘‘ ہے جو میں کہہ رہا ہوں. لیکن نوٹ کیجیے کہ میں یہ بات بہت پہلے سے ایک تسلسل کے ساتھ کہہ رہا ہوں. ۱۹۹۱ء میں میں نے تحریک خلافت کا آغاز کیا تو اس میں بھی یہ بات ایک نکتے کی حیثیت سے شامل کی تھی. مختلف حلقوں کی طرف سے اس بات کی تائید بھی سامنے آئی ہے. چنانچہ صوبوں کے بارے میں ایئرمارشل (ر) اصغر خان صاحب کا موقف بھی یہی ہے اور آج کے ’’News‘‘ میں ان کا ایک مضمون بھی شائع ہوا ہے. اس سلسلے میںگزشتہ دنوں دو نہایت قیمتی مضامین میرے مطالعے میں آئے ہیں. ان میں سے ایک اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہ جماعت اسلامی کے حلقے کے انگریزی جریدے ’’The Universal Message‘‘ میں شائع ہوا ہے.

یہ جریدہ ادارئہ معارفِ اسلامی کراچی کی طرف سے شائع ہوتا ہے. اس کے اگست ۱۹۹۵ء کے شمارے میں محمد علی شہاب صاحب کا ایک مضمون ’’Small Provinces or.....?‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے میرا نام لے کر میرے موقف کی تائید کی ہے کہ اگر ملک کو بچانا ہے تو پورے پاکستان میں چھوٹے صوبے بنائے جائیں. دوسرا مضمون ایک غیر مسلم صحافی اور سیاست دان مسٹر ایم پی بھنڈارہ(سابق اقلیتی رکن قومی اسمبلی) کا ہے جو روزنامہ’’ڈان‘‘ میں چھپا ہے. میرے نزدیک سندھ کی صورتحال کا اس قدر اختصار اور جامعیت کے ساتھ مبنی بر حقیقت تجزیہ‘ بشمول میرے‘ شاید کسی اور نے نہ کیا ہو. حالانکہ اس میں اکثر و بیشتر چیزیں وہی ہیں جو میں آج سے آٹھ سال پہلے ’’استحکام پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ نامی کتاب میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں.

لیکن اس مضمون میں آپ کو یہ سارا تجزیہ اختصار کے ساتھ اور ایک خالص سیکولر نقطہ ٔ نظر سے مل جائے گا. ہم نے ان دونوں انگریزی مضامین کو ایک کتابچے کی صورت میں شائع کر دیا ہے‘ آپ میں سے انگریزی دان حضرات اس کتابچے کو حاصل کر کے ضرور پڑھیں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ آپ کے ملک میں کیا ہو رہا ہے‘ آپ کے مسائل ہیں کیا؟ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ ان اقدامات کی حیثیت ’’Palliative Treatment ‘‘ کی ہے‘ نہ کہ مستقل علاج کی. کسی کو۱۰۶ درجے کا بخار ہو جائے تو بخار کو فوری طور پر اتارنے کے لیے آپ جو تدابیر کرتے ہیں اس سے بخار تو اُتر جاتا ہے اور مریض کو اُس وقت بحرانی کیفیت سے نجات مل جاتی ہے‘ لیکن اسے علاج نہیں کہتے. ہمیں جو مرض بحیثیت قوم لاحق ہے اس کا علاج (Curative Treatment) صرف ایک ہے ع علاج اس کا وہی آبِ نشا ط انگیز ہے ساقی! یعنی یہ پوری قوم توبہ کرے اور دوبارہ اپنی منزل کی طرف رخ کرے ع کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو! اور یہاں پر نفاذِ اسلام کے لیے اپنی پوری توجہات کو مرکوز کر دے. اس ضمن میں زیادہ بڑی ذمہ داری دینی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے. اس وقت میں تفصیل میں نہیں جائوں گا‘ اس لیے کہ اس موضوع پر میری کتاب ’’استحکامِ پاکستان‘‘ پورے دستاویزی حوالوں اور دلائل کے ساتھ موجود ہے. میرے نزدیک قیامِ پاکستان ایک معجزہ تھا‘ اور یہ ملک صرف اس لیے وجود میں آیا کہ ہم نے اللہ سے ایک عہد کیا تھا اور سارا خلفشار اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اس عہد کی خلاف ور زی کی ہے. اب علاج صرف یہی ہے کہ اس وعدے کو پورا کیا جائے.