اب اصلاح کی طرف آئیے. اس ضمن میں پہلا قدم کیا ہو؟ میں بھی اگر محض اتحاد کا وعظ کہہ دوں تو اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا‘ بہت سے لوگ مجھ سے اچھا وعظ کہہ سکتے ہیں. آیات واحادیث کے حوالے سے اتحاد کی برکات پر وعظ کہنے والوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے‘ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اتحاد کیسے ہو؟ بلی کے گلے میں گھنٹی کیسے باندھی جائے اور اسے باندھے کون؟ یہ ہفت خواں کیسے طے ہو؟ اس کے لیے کچھ باتیں آپ کے گوش گزار کرنی ہیں. ان میں تین باتیں تو وعظ کی نوعیت کی ہیں جن پر قدم بقدم عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے. 

اوّلاً… محاذ آرائی سے گریز ہو. 

ثانیاً…ہم خیال جماعتیں جو تاریخی اور نظریاتی اعتبار سے کچھ قریب ہوں‘ ان کا کوئی باہمی تعاون شروع ہو جائے. 

ثالثاً… سب کی سب اگر متحد نہ ہو سکیں تو بھی تقسیم در تقسیم کے عمل کو کچھ توپسپا کریں اور ان کے مابین ادغام نہ سہی کوئی وفاق کی شکل ہی پیدا ہو جائے. 

اتحادِ باہمی کے لیے قرآن حکیم کا حکم یہ ہے کہ : 
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ (آل عمران:۱۰۳یعنی ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور باہم متفرق نہ ہو جائو‘‘. میں ان الفاظِ مبارکہ میں سے ایک لفظ حَبْل(رسی) مستعار لے رہا ہوں. آپ اس رسی کی تشبیہہ کو اپنے ذہن میں رکھیے. ایک موٹی رسی کئی لڑیوں سے بٹی ہوئی ہوتی ہے اور ہر لڑی پھر بہت سے دھاگوں سے بنی ہوتی ہے. ایک رسی میں بالعموم چار بڑی بڑی لڑیاں ہوتی ہیں اور ہر لڑی متعدد دھاگوں سے بٹ کر بنائی گئی ہوتی ہے. اب اگر اس رسی کے بل کھول دیے جائیں تو منطقی طور پر یہ صورت سامنے آئے گی کہ پہلے چار لڑیاں علیحدہ ہوں گی‘ پھر ہر لڑی کے دھاگے علیحدہ ہونا شروع ہو جائیں گے‘ چنانچہ وہ ایک رسی کی بجائے ۴x۴=۱۶ دھاگے ہوں گے. تو عقلی اور منطقی اعتبار سے ان دھاگوں کو دوبارہ رسی بنانے کا عمل کہاں سے شروع ہو گا؟ یہ اوپر سے نہیں‘ بلکہ نیچے سے شروع ہو گا‘ پہلے دھاگوں کو دوبارہ بٹ کر لڑیاں بنائیے اور پھر ان لڑیوں کو بٹ کر رسی بنائیے. اس کی عملی شکل یہی ہے‘ اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں.