ہماری مذہبی جماعتوں کا تاریخی و نظریاتی پس منظر

لیکن اس میں جو تقسیم ہے‘ کہ لڑیاں کون سی ہیں اور دھاگے کون سے ہیں‘ اس کو دو اعتبارات سے‘ یعنی تاریخی اور نظریاتی پس منظر کے حوالے سے جان لیجیے. اس ملک میں دینی جماعتوں کاپہلا پس منظر یہ ہے کہ تقریباً ایک سو سال پہلے تک پورے ہندوستان میں‘ سوائے اس کے کہ مالابار کے ساحل پر کچھ شافعی لوگ آباد تھے‘ باقی تمام مسلمان کٹرحنفی تھے. اس کے ساتھ ساتھ تمام مسلمان تصوف کے ساتھ گہرا ربط بھی رکھتے تھے اور کسی نہ کسی سلسلۂ طریقت سے علامتی یا حقیقی اور عملی وابستگی لازم سمجھی جاتی تھی. چنانچہ آپ آج سے سو سال پہلے کی کوئی کتاب دیکھ لیجیے تو اس کے مصنف کے مسلک اور مشرب کے بارے میں صراحت کچھ اس طور سے درج ہو گی کہ:حنفی مسلکاًو قادری مشرباً‘‘ وغیرہ. تب ان دو صفات کے بغیر آدمی کا تعارف مکمل نہیں ہو سکتا تھا. مشرب میں چاروں مشہور سلاسل یعنی قادری‘ چشتی‘ سہروردی اور نقشبندی یہاں رائج تھے. لیکن پچھلے سو‘ سوا سوسال میں اس رجحان میں تبدیلی آئی‘ اس لیے کہ دارالعلوم دیوبند ایک زبردست تحریک بن کر ابھرا اور واقعہ یہ ہے کہ اس کے بانیوں کا جوش و خروش اور خلوص و اخلاص مثالی حیثیت رکھتے تھے. نتیجہ یہ نکلا کہ ان حنفی اور صوفی مزاج مسلمانوں میں دیوبندی اور غیر دیوبندی کی تقسیم ہو گئی. غیر دیوبندیوں میں فرنگی محلی بھی ہیں‘ فضل حق خیرآبادی والے مکتب فکر کے حضرات بھی ہیں‘ بدایونی بھی ہیں‘ نظامی بھی ہیں اور نہ معلوم کون کون سے ہیں. جبکہ دیوبند اپنی جگہ پر اتنا بڑا بھاری پتھر بن گیا کہ وہ ان سب کو بیلنس کرنے کے لیے ترازو کے دوسرے پلڑے میں تنہا ہی کافی تھا. پھر ہوتے ہوتے یہ تقسیم دیوبندی اور غیر دیوبندی کے بجائے دیوبندی اور بریلوی کی ہو گئی‘ ا س لیے کہ اس میں جو بہت فعال عنصر پیدا ہوا ہے‘ وہ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی شخصیت ہے. تو یہ ہے مذہبی اعتبار سے ہمارا ایک تاریخی پس منظر. 

تیسرے یہ کہ اسی دور میں اہل حدیث مکتب فکر بھی کچھ نمایاں ہوا. اگرچہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تحریک کے اثرات دو سو سال پہلے ہی سے شروع ہو گئے تھے لیکن اس صدی کے اندر رفتہ رفتہ ان میں اضافہ ہوا. اور خلیج میں تیل کے برآمد ہونے کے بعدانہیں جو مالی تعاون حاصل ہوا‘ وہ کسی کومل ہی نہیں سکتا. اس کے نتیجے میں وہ اپنی عددی قوت کے مقابلے میں کئی گنا مؤثر ہو گئے ہیں. لیکن میں اس وقت اہل حدیث حضرات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے باقی دونوں کی بات کر رہا ہوں‘ یعنی دیوبندی اور بریلوی جو ’’سوادِ اعظم‘‘ ہیں. ان دونوں میں تین چیزیں مشترک ہیں: (۱) دیوبندی ہوں یا بریلوی‘ دونوں حنفی ہیں‘ ان کی فقہ ایک ہے‘ (۲) دونوں تصوف کے قائل ہیں ‘اور(۳) دونوں کے 
عقائد کی امہات الکتب ایک ہیں. ان کے مابین صرف چند مسئلوں میں اختلاف ہے. مثلاً: آیا درودو سلام پڑھتے ہوئے کھڑے ہو جانا چاہیے یا نہیں؟ ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا چاہیے یا نہیں؟ نذرونیاز کا معاملہ صحیح ہے یا نہیں؟ وغیرہ‘ اور آپ سے عرض کر دوں کہ ان مسائل کو بھی حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒنے اپنی کتاب’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ میں اس طرح طے کر دیا ہے کہ ان کے اندر دیوبندی اور بریلوی دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتا. چنانچہ دیوبندی بھی کسی نہ کسی درجے میں ان ساری باتوں کو مانتے ہیں جو بریلوی کہتے ہیں. حاجی صاحب بھی کھڑے ہو کر درود پڑھنے کو قابل اعتراض نہیں سمجھتے. اور حاجی صاحب ؒ ان تمام دیوبندیوں کے پیر تھے. وہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے بھی مرشد تھے اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے بھی. وہ صابری سلسلے کے بہت بڑے بزرگ تھے. تو اب ان کا صرف مساجد اور مدارس کا نظام الگ الگ ہے‘ ورنہ ان کے مابین سرے سے کوئی فرق نہیں. وہی حنفیت اور وہی عقائد دونوں جگہ ہیں. 

یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ شخصیات کا تصادم صرف پچھلی صدی میں شروع ہوا ہے‘ جب شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا فضل حق خیر آبادی ؒ کے مابین خالص علمی مسائل پر مناظرے شروع ہوئے. ان مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے ہنسی بھی آتی ہے اور رنج بھی ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر امت کن چیزوں میں جھگڑ رہے تھے! اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے یہ مسائل زیر بحث تھے کہ اللہ جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس کے جواب میں’’ہاں‘‘ کہیے تو یہ اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اگر ’’نہیں‘‘ کہیے تو اللہ ہر چیز پر قادر نہیں رہا. اب اس پر منطق کے گھوڑے دوڑاتے رہیے. دوسرا مسئلہ ’’امتناعِ نظیر‘‘ کا تھا کہ خود اللہ تعالیٰ بھی کوئی اور ’’محمدؐ ‘‘ پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اگر اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے تو محمد رسول اللہ  بے مثل نہ رہے.اس سے یہ معلوم ہوا کہ محمد  کی نظیر ہو سکتی ہے اور یہ حضور  کی شان میں گستاخی ہوگئی. اور اگر یہ کہیں کہ اللہ کوئی اور محمدؐ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اللہ کی شان میں گستاخی ہوگئی. میں یہ مرثیہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ حقائق کو سمجھیں. ہمارے بزرگ ان مسئلوں پر اُس وقت جھگڑرہے تھے جب انگریز بنگال سے داخل ہو کر ہندوستان کو فتح کر رہا تھا. بعینہٖ یہی بات ایک ہزار برس قبل اُس وقت ہوئی تھی 
جب سلطان محمد فاتح کی فوجیں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیے ہوئے کھڑی تھیں (جواَب استنبول یا اسلام بول کہلاتا ہے) تو وہاں کے سب سے بڑے گرجاگھر آیا صوفیا میں(جسے بعد میں مسلمانوں نے مسجد بنایا اور پھر اتاترک نے اسے ایک عجائب گھر کی شکل دے دی) عیسائی پادری ان مسائل پر مناظرے کر رہے تھے کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے آسکتے ہیں؟ حضرت مسیح ؑ نے جو آخری کھانا تناول کیا تھا اس میں جو روٹی کھائی وہ خمیری تھی یا فطیری؟ اور یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے بعد بھی حضرت مریم باکرہ رہ گئیں یا نہیں رہیں؟ پچھلی صدی میں شاہ اسماعیل شہید ؒ اور مولانا فضل حق خیر آبادی ؒ کے مابین شخصیتوں کا ٹکرائو ہوا تو اس صدی میں مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے درمیان سارا معرکہ برپا ہوا. اور اس وقت دیوبندیوں اور بریلویوںمیں جو بھی تندی اور تلخی ہے وہ ان دو حضرات کی وجہ سے ہے. میرے نزدیک یہ صرف شخصیات کا نزاع (personality conflict) ہے‘ اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے. اس حوالے سے اہل حدیث کے بارے میں کچھ عرض کرنا یہاں میرے پیش نظر نہیں ہے‘ ان کا اپنا ایک فقہی مسلک ہے. 

اب آئیے اس موضوع پر کہ‘ سیاسی اعتبار سے ہماری مذہبی جماعتوں کا پس منظر کیا ہے!تقسیم ہند سے قبل ایک مذہبی جماعتیں وہ تھیں جو ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے ہندوئوں کے ساتھ اتحاد کو صرف جائز اور ضروری ہی نہیں‘ لازم اور فرض سمجھتی تھیں‘ جس سے متحدہ قومیت کا تصور ابھرا کہ’’آج کل قومیں اوطان سے بنتی ہیں.‘‘ یہ مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا قول ہے. یعنی آج کل دنیا میں قومیت کا تشخص ملک کے حوالے سے ہوتا ہے. یہ ہندوستانی ہے‘ یہ ایرانی ہے‘ یہ امریکی ہے! قومی تشخص مذہب کے حوالے سے نہیں ہوا کرتا. ہم جب ہندوستانی ہیں تو مسلمان بھی ہندوستانی ہے اور ہندو بھی ہندوستانی ہے. یہ موقف جمعیت علماء ہند اور خاص طور پر اس میں مولانا حسین احمد مدنی کے گروپ کا تھا جو پورے ہندوستان میں مذہبی قیادت کے حوالے سے بہت مضبوط اور طاقتور تھا. ان کے ہم خیال علمائ‘ خطبائ‘ ائمہ ٔ مدارس‘ معلمین اور مدرسین ہندوستان بھر میں موجود تھے. اس کے علاوہ ایک اور جماعت مجلس احرارِ اسلام تھی جس کا 
سیاسی موقف بھی بالکل وہی تھا جو جمعیت علماء ہند کا تھا. دوسری جانب بریلوی مکتب فکر کے علماء اور مشائخ تھے جن کی اکثریت کا موقف جمعیت علماء ہند کے برعکس تھا. یعنی پہلے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو طے کرنا چاہیے‘ پھر انگریز سے چھٹکارا پانے کی بات ہو گی‘ ورنہ یہاں کے ہندو ہمیں دبالیں گے اور ہمارا استحصال کریں گے. گویا اس ضمن میں ان کا موقف وہی تھا جو مسلم لیگ کا تھا. اس حلقے نے متحدہ قومیت کی شدت کے ساتھ مخالفت کی اورمذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے حق میں آواز اٹھائی. اسی کی دہائی ہمارے سلہری صاحب ہمیشہ دیتے رہتے ہیں کہ پاکستان مسلم قومیت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا. اسی موقف کی بنا پر دیوبندی علماء میں سے بھی ایک جماعت نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا‘ یعنی تھانوی حلقے کے علماء نے جن میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ شامل تھے. مولاناتھانویؒ خود بھی مسلم لیگ کے موقف کے مؤید تھے. باقی زیادہ تر بریلوی علماء و مشائخ مسلم لیگ کے ساتھ تھے. 

ان کے علاوہ ایک تیسرا مکتب فکر بھی تھا جسے ایک اعتبار سے آپ بین بین بھی کہہ سکتے ہیں اور ایک مرکب فکر کا حامل بھی. اس حلقے نے جداگانہ قومیت کا پر زور اثبات کیا اور متحدہ قومیت کی زبردست نفی کی. اس اعتبار سے گویا تحریک مسلم لیگ کی تائید کی اور اس کی تقویت کا ذریعہ بنے. لیکن انہوں نے مسلم لیگ سے اپنا راستہ اس لیے جدا کر لیا کہ ان کا خیال یہ تھا کہ خالص قومی تحریک اور قومی جدوجہد سے اسلام قائم نہیں ہو سکتا. ان کا موقف یہ تھا کہ ہماری منزل اسلام قائم کرنا ہے‘ صرف ایک آزاد مسلمان ملک حاصل کرنا نہیں ہے‘ کیونکہ دنیا میں اور بھی بیسیوں آزاد مسلمان ممالک موجود ہیں لیکن کہیں بھی اسلام کا نظام قائم نہیں ہے. اگر ایسا ہی کوئی اور مسلمان ملک وجود میں آ جائے تو کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ یہاں سے ان کا راستہ تحریک مسلم لیگ اور تحریک پاکستان سے الگ ہو گیا. ابتدا میں‘ جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے‘ یہ صرف اختلاف تھا‘ لیکن رفتہ رفتہ اس میں مخالفت کا رنگ بھی پیدا ہوتا گیا. یہ حلقہ مولانا مودودی مرحوم کا تھا. جماعت اسلامی کے لوگ جب ثابت کرنے پر آتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں مولانا مودودی کا بڑا حصہ ہے تو وہ اس اعتبار سے سچ کہتے ہیں کہ متحدہ قومیت کے خلاف اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے اثبات میں انہوں نے زبردست علمی اور قلمی جہاد کیا. اس معاملے میں علامہ اقبال کے سب سے بڑے شارح مولانا مودودیؒ ہیں. لیکن انہوں نے مسلم لیگ اور قائد اعظم سے زبردست اختلاف کیا. پاکستان بننے کے بعد ’’ترجمان القرآن‘‘ کے جو پہلے تین پرچے شائع ہوئے تھے ان میں مولانا مودودی نے اپنے اداریوں میں مسلم لیگ کے قائدین پر بڑی زبردست چارج شیٹ لگائی تھی اور انہیں تقسیم کے وقت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کا مجرم گردانا تھا‘ صرف یہ احتیاط کی تھی کہ’’قائداعظم‘‘ کی بجائے’’قیادت ِ عظمیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس میں عموم پیدا کر دیا تھا. مولانا نے لکھا تھا کہ یہ قیادتِ عظمیٰ اس قابل ہے کہ اسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے‘ اگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ تقسیم ہند پر یہ کچھ ہونے والا ہے تو یہ کودن تھے‘ بے وقوف تھے‘ احمق تھے‘ جاہل تھے‘ اور اگر اندازہ تھا اور اس کے باوجود یہ سب کچھ ہوا ہے تو یہ قاتل ہیں‘ مجرم ہیں.