اس وقت دیوبندی علماء کے سیاسی عناصر کا ایک مجموعی جنرک نام (Generic Name) جمعیت علمائِ اسلام ہے‘ اس کے آگے دھڑے ہیں: فضل الرحمن گروپ اور سمیع الحق گروپ. ایک زمانے میں جمعیت علماء اسلام(حقیقی) بھی بنی تھی جیسے ایم کیو ایم(حقیقی) ہے. یہ تین دھاگے ایک ہی لڑی کے ہیں. گویا ایک لڑی تین دھاگوں میں بٹ چکی ہے. ان کا مذہبی مکتب فکر بھی ایک ہے اور سیاسی مکتب فکر بھی ایک ہی ہے. یہ مولانا مدنی ؒ کے سیاسی مسلک کے قائلین ہیں‘ اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ ان کے زعماء نے تحریک پاکستان سے کھلم کھلا دو ٹوک الفاظ میں اعلانِ براء ت کیا اور یہاں تک کہا کہ ’’پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شامل نہیں تھے‘‘. اسی طرح بریلوی مکتب فکر کے علماء کی تنظیم کا جنرک نام جمعیت علمائِ پاکستان ہے. اس کے بھی دو دھڑے تو نمایاں ہیں ہی‘ مولانا نورانی گروپ اور مولانا عبدالستار نیازی گروپ. ان کے علاوہ بھی کہیں جمعیت المشائخ کے عنوان سے اور کہیں کسی اور حوالے سے مختلف اجتماعیتیں بنتی رہتی ہیں. کبھی حنیف طیب صاحب نے بھی اپنا ایک چھوٹا سا گروپ بنایا تھا. 

میں بصدادب ان سب سے عرض کروں گا کہ بھائی‘ امت کے بڑے اتحاد سے پہلے‘ خدا کے لیے‘ ان دھاگوں کو تو بٹ لو. ’’جمعیت علماءِ اسلام‘‘ تو ایک ہو جائے. آپ کے مابین سوائے شخصی قیادت کے اختلاف کے اور کون سا جھگڑا ہے؟ آپ کا سیاسی پس منظر ایک‘ آپ کے عقائد ایک‘ آپ کا مسلک ایک‘ آپ بھی حنفی‘ وہ بھی حنفی‘ دونوں دیوبندی‘ آپ کے بزرگ ایک‘ وہی مولانا مدنی‘ مولانا تھانوی‘ اور حاجی امدادا للہ مہاجر مکی ( رحمہم اللہ)آپ سب کے بزرگ ہیں. اسی طرح ’’جمعیت علماءِ پاکستان‘‘ سے بھی میری یہی گزارش ہے کہ خدا کے لیے ان تین دھاگوں کو جوڑ کے ایک بڑی لڑی بنائو. آپ کے اتحاد میں کیا رکاوٹ ہے؟ وہ تو چلو دیوبندی ہیں‘ آپ تینوں تو بریلوی مکتب فکر سے متعلق ہیں. لہٰذا خدا کے لیے پہلے اپنے مختلف دھڑوں کو متحد کریں اور پھر بریلوی اور دیوبندی باہم جڑ جائیں. ایک زمانے میں اس کی ایک شکل سامنے آئی بھی تھی کہ مولانا نورانی میاں اور مولانا فضل الرحمن نے ایک اتحاد قائم کیا تھا. میرے نزدیک یہ اتحاد اس اعتبار سے غیر منطقی تھا کہ ابھی دونوں جمعیتوں کے دھڑے آپس میں نہیں جڑے تھے. گویا دھاگے جڑے نہیں اور اوپر لڑی جڑ رہی ہے. میں عرض کر رہا ہوں کہ اتحاد کرنا ہے تو پہلے ان دھاگوں کو توبٹ لو. جمعیت علمائِ اسلام کے دھڑے ایک ہو جائیں اور جمعیت علمائِ پاکستان کے دھڑے ایک ہو جائیں. پھر ان لڑیوں کو آگے بٹا جا سکتا ہے‘ اس میں قطعاً کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں. وہ بھی حنفی‘ تم بھی حنفی‘ وہی تصوف کا مسلک تمہارا وہی ان کا‘ مدارس کا وہی نصاب تمہارا وہی ان کا. مدارس اور دارالعلوم خواہ دیوبندی ہوں یا بریلوی‘ ان کے نصاب میں کوئی فرق نہیں. ان کے ہاں عقائد کی امہات الکتب ایک ہیں‘ فقہ‘ اصولِ فقہ‘ منطق اور فلسفے کی کتابیں ایک ہیں. حدیثیں ایک ہیں اور قرآن تو ہے ہی ایک. پھر یہ دونوں لڑیاں باہم متحد کیوں نہیں ہو سکتیں؟ 

البتہ’’ثالثُ ثلاثہ‘‘ یعنی اہل حدیث حضرات کا ان کے ساتھ جوڑ نہیں ملتا‘ اس لیے کہ فقہی مسلک کے لحاظ سے ان کی ایک بالکل علیحدہ حیثیت ہے. لیکن ان کے بھی بہت 
دھڑے ہیں. آج کل تو زیادہ نام سامنے نہیں آ رہے ہیں لیکن ایک زمانے میں ان کے بے شمار دھڑے وجود میں آگئے تھے‘ جن میں ایک طرف علامہ احسان الٰہی ظہیر کا دھڑا اور دوسری طرف میاں فضل حق صاحب کا دھڑا زیادہ معروف تھے. اب بھی ان کے اندر متعدد دھڑے موجود ہیں. ان کو بھی چاہیے کہ یہ’’جڑنے‘‘ کے عمل کا آغاز اپنے اندر تو کریں. میں عرض کر رہا ہوں کہ اگر ہماری مذہبی جماعتیں واقعتا چاہتی ہیں کہ یہاں اسلام آئے‘ اگر یہ خالی خولی دعویٰ نہیں ہے‘ محض سیاسی نعرہ نہیں ہے‘ اگر حقیقتاً کچھ کرنے کا ارادہ ہے‘ اگر صورتحال کی سنگینی اور اندرونی و بیرونی خطرات کا کوئی اندازہ ہے اور اگر اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں کے تمام مسائل کا حل ایک ہی ہے کہ یہاں اسلام قائم کیا جائے تو خدا کے لیے اپنے ان خود ساختہ اختلافات کو ختم کیجیے .اور اس کی ترتیب یہی ہو گی جو میں نے بیان کی ہے.