تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی

ایک دوسرے اعتبار سے دیکھیے. دیوبندی حلقے سے ایک بہت بڑی تحریک’’تبلیغی جماعت‘‘ کی صورت میں اٹھی‘ جو خالص غیر سیاسی‘ تبلیغی اور اصلاحی تحریک ہے. اس کی عمر ستر برس سے زیادہ ہو چکی ہے اور بلامبالغہ کروڑوں لوگ اس کے ساتھ ہیں‘ جن میں لاکھوں فعال ہیں. اس کی بہت بڑی تنظیم ہے اور اس میں پوری سوسائٹی کا’’کراس سیکشن‘‘ موجود ہے. علماء بھی ہیں‘ فوجی آفیسر اور جوان بھی ہیں‘ سول ملازمین بھی ہیں‘تاجر بھی ہیں‘ زمیندار پہلے نہیں تھے اب ان کا بھی کچھ رجحان ہو گیا ہے. الغرض معاشرے کے ہر طبقے کے افراد اس سے وابستہ ہیں ‘لیکن اس کے ردّ عمل میں اب چند سال سے بریلوی طبقہ میں سے دعوتِ اسلامی کے نام سے ایک تحریک اٹھائی جا رہی ہے‘ جسے آپ تبلیغی جماعت کا’’ری پرنٹ‘‘ کہہ لیں یا اس کی’’کاربن کاپی‘‘ . بہرحال ابھی اس کی عمر بہت تھوڑی ہے اور اس میں صرف لوئرمڈل کلاس کے تاجر‘ دستکاریا ملازمت پیشہ افراد شامل ہیں. اوپر کے طبقات کے لوگ میرے علم کی حد تک اس میں نہیں ہیں. ان سے بھی میں یہی کہوں گا کہ آپ کا جوش وخروش بجا ہے‘ آپ کی نئی نئی تحریک ہے‘ لیکن بھائی آپ بھی حنفی ہیں وہ بھی حنفی‘ آپ بھی صوفی مزاج رکھنے والے ہیں وہ بھی صوفی مزاج ہیں. پھر یہ فرق کیوں؟ کیوں یکجا نہیں ہو جاتے؟ مل کر کوشش کریں‘ دین کی دعوت دیں‘ اپنے مخصوص شعائر کی دعوت نہ دیں کہ ہری پگڑی ہو گی تو پہچانا جائے گا کہ یہ فلاں ہے. یہ تو تفرقہ پیدا کرنے والی باتیں ہیں.