تیسرے نمبر پر‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ دیوبندی اور بریلوی دونوں حلقوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بہت مخلص اور بہت فعال ہیں. یہ خالصتاً غیرسیاسی بھی ہیں اور غیر متحرک بھی. میری مراد مدرّسین ہیں جو دارالعلوم چلاتے ہیں‘ بیٹھ کر’’قال اللہ وقال الرسول‘‘ پڑھاتے ہیں. ان کا معاملہ بھی وہی ہے کہ ایک ہی نصاب پڑھا رہے ہیں‘ وہی کتابیں وہ پڑھا رہے ہیں‘ وہی آپ پڑھا رہے ہیں‘ درسِ نظامی کے پورے نصاب میں اوّل سے آخر تک ان کے مابین کوئی فرق ہے ہی نہیں. لہٰذا ان کا ایک ہی وفاق المدارس باآسانی بن سکتا ہے. جب دونوں کے نصاب میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہے تو پھر یہ صرف علامتی اختلاف اور اس کی وجہ سے تفرقہ آخر کیوں؟ میں پھر عرض کروں گا کہ اگر سنگینی ٔوقت کا کچھ اندازہ ہے کہ حالات کدھر جا رہے ہیں تو ان دھاگوں کو بٹ کر لڑیاں بنانے اور پھر ان لڑیوں کو باہم بٹنے کی پوری سنجیدگی کے ساتھ کوشش ہونی چاہیے. خدانخواستہ اب وہ صورت پیش نہ آئے کہ انگریز آ رہا تھا اور ہم جھگڑرہے تھے‘ اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان پر ہماری ہزار سالہ حکومت ختم ہو گئی. اور جب انگریز گیا تو ملک کا اتنا بڑا حصہ ہندو کے رحم وکرم پر ہو گیا. لہٰذا خدا را’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ کے تحت یہ سب جمع ہو جائیں جو ان سب کے مابین متفق علیہ ہے.