تحریک منہاج القرآن اور تنظیم الاخوان

اس کے بعد اب میں دو تحریکوں کا نام لے رہا ہوں.آج میں چاہتا ہوں کہ اس ضمن میں تجزیہ مکمل ہو. یہ ہیں تحریک منہاج القرآن اور تنظیم الاخوان. ان میں پہلی کے قائد علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اور دوسری کے قائد مولانا محمد اکرم اعوان صاحب ہیں. ان دونوں کے بارے میں یہ جان لیجیے کہ یہ بہت حد تک فرقہ واریت سے بالا تر ہیں. بریلوی اور دیوبندی کی تقسیم کو انہوں نے کسی درجے میں بھی اپنایا نہیں ہے. دوسرے یہ کہ ان دونوں تحریکوں میں بھی پوری سوسائٹی کا کراس سیکشن موجود ہے‘ چنانچہ سول اور ملٹری بیورو کریسی‘ وکلائ‘ ٹیچر‘ پروفیسر اور تاج ر دونوں میں ہیں. ان کے مابین جو تیسری قدرمشترک ہے وہ یہ کہ ان دونوں کے ہاں خوابوں اور روحانیات کا تذکرہ اتنا غیر متناسب ہے کہ یہ مجھے حضور  ‘ صحابہ کرامؓ ‘ تابعینؒ اور تبع تابعینؒ میں نظر نہیں آتا.

یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ خواب سچے ہیں یا جھوٹے‘ اور خواب دیکھا بھی ہے یا نہیں دیکھا‘ یا خواب میں جسے دیکھا ہے وہ کون تھا‘وہ واقعتا فرشتہ تھا یا کوئی شیطان تھا‘ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں‘ لیکن بہرحال یہ باتیں دونوں کے ہاں پائی جاتی ہیں. ایک کے ہاں تو یہ دعویٰ بھی ہے کہ ہمارے پاس آ جائو تو ہم براہ راست حضور  کے دست ِ مبارک پر بیعت کروا دیں گے‘ درمیان میں واسطے کا سوال ہی نہیں‘ اور کشف ِ قبور سکھا دیں گے کہ قبر پر کھڑے ہو کر بتا دو کہ یہاں پر کسی کو عذاب ہو رہا ہے یا ثواب مل رہا ہے. میرا علم بہت محدود ہے‘ لیکن اس کا کوئی تذکرہ مجھے نہ دورِ رسالت میں ملتا ہے‘ نہ دورِ صحابہ ؓ میں‘ نہ تابعین میں نہ تبع تابعین میں. حقیقت تو یہ ہے کہ حضور  کا جسد مبارک ابھی رکھا تھا‘ ابھی زیر زمین بھی نہیں گیا تھا‘ اور خلافت کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا تھا‘ اُس وقت صحابہ کرام ؓمیں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں مراقبہ کر کے حضور  سے دریافت کر لیتا ہوں. اس سے سارے جھگڑے طے ہو جاتے. اور چلیے یہ معاملہ تو جلدی طے ہو گیا‘ بعد میں جو ایک لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے قتل ہوئے‘ اس خونریزی سے بچنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مراقبہ کیوں نہ کر لیا کہ حضور  کی روحِ مطہر سے براہِ راست راہنمائی حاصل کر لیتے. اسی طرح نہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ یہ مراقبہ کر سکے اور نہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کہ براہ راست روحِ محمد  سے معاملات کا حل دریافت کر لیتے. بہرحال یہ چیزیں میرے مزاج سے بعد رکھتی ہیں. ان میں سے کسی کی براہِ راست دربارِنبویؐ تک رسائی ہے اور کوئی بار گاہِ جیلانی ؒ سے اپنے حکمنامے اور تقرری کے پروانے لے کر آتے ہیں‘ میں ان چیزوں کو جھوٹ نہیں کہتا ‘لیکن اسے میری وہابیت سمجھ لیجیے کہ مجھے ان چیزوں سے مناسبت نہیں ہے‘ کیونکہ مجھے بہرحال سلف صالحین میں یہ چیزیں نظر نہیں آتیں. ورنہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کے مرشد مولانا اللہ یار صاحب چکڑالوی سے میری دو مرتبہ ملاقات ہوئی اور میں بعض اعتبارات سے ان سے بہت متاثر ہوا‘ لیکن اس ایک پہلو کی وجہ سے میں نے کچھ مغائرت محسوس کی جس کا میں نے آپ کے سامنے اقرار کیا ہے. 

پھر یہ کہ پچھلے دنوں ہم نے ان دونوں تحریکوں کے اکابر سے رابطہ قائم کیا تھا اور اشتراکِ عمل کے امکانات کا جائزہ لیا تھا‘ کیونکہ دونوں انقلاب کا نام لیتے ہیں. ایک کا سلسلہ قادریہ ہے ایک کا اویسیہ نقشبندیہ ہے. ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ ان کے پیش نظر انقلاب کا لائحہ عمل ہے کیا؟ لیکن اسے ہماری کم فہمی سمجھئے یا سخن ناشناسی کا نام دیجیے کہ ہمیں تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کے سامنے انقلابی عمل کے کیا مراحل ہیں اور وہ کس طور سے انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ بہرکیف میری رائے یہ ہے کہ ان دونوں تحریکوں کو یکجا ہو جانا چاہیے‘ ان میں بہت سے معاملات مشترک ہیں.