تین مختلف مراحل پر جماعت اسلامی سے جو خروج (exodus) ہوئے ہیں‘ اب کچھ تذکرہ ان کا بھی ہو جائے. پہلا خروج جماعت کے قیام کے دو سال بعد ہی۱۹۴۳ء میں ہو گیا تھا‘ لیکن یہ خالص شخصی بنیادوں پر تھا. حلقہ دیوبند کے علماء کی اکثریت جو جماعت میں آئی تھی اس نے جلد ہی اس رائے کا اظہار کیا کہ مولانا مودودی جو کام لے کر اٹھے ہیں یہ کام اگرچہ بہت صحیح ہے اور بہت بلند ہے لیکن مولانا مودودی کی اپنی شخصیت اور ان کا اپنا تقویٰ اور تدین اس معیار کا نہیں ہے جو اس کام کے لیے ضروری ہے. یہ اختلاف نہ نظریاتی اختلاف تھا نہ پالیسی کا‘ بلکہ صرف شخصی اختلاف تھا. چنانچہ اس موقع پر مولانا محمد منظور نعمانی‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی اور مولانا جعفر شاہ پھلواروی سمیت جماعت کے قریباً ایک تہائی ارکان جماعت سے علیحدہ ہو گئے. 

اس کے بعد دوسرا ایکسوڈس یا خروج ۵۷.۱۹۵۶ء میں ہوا‘ جس کے اندر میں بھی شامل تھا‘ اور مولانا مودودی کے دست ِ راست مولانا امین احسن اصلاحی بھی شامل تھے. یوں سمجھ لیجیے کہ اس مرحلے پر جماعت سے الگ ہونے والوں میں گویا چوٹی پر اصلاحی صاحب کا اور فرش پر میرا نام تھا اور درمیان میں آپ درجہ بندی کرتے چلے جائیے‘ ہر درجے کے لوگ شامل تھے. اس کی بنیاد خالص پالیسی کا اختلاف تھا. الگ ہونے والوں کا موقف یہ تھا کہ ہم نے الیکشن میں حصہ لے کر اپنے آپ کو غیر معمولی طور پر سیاسی بنا لیا ہے اور اس طرح ہم ایک غلط موڑ مڑ آئے ہیں‘ لہٰذا یہاں سے واپس مڑکر ہمیں اسی علمی و فکری اور ذہنی انقلاب کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور عملی انقلاب کی جدوجہد پر اپنی پوری توجہات کو مرکوز کر دینا چاہیے. اس مرحلے پر تقریباً تمام اہلحدیث علماء بھی جماعت سے نکل گئے اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے تقریباً نصف ارکان جماعت سے علیحدہ ہو گئے. مولانا اصلاحی صاحب کو شورش کا شمیری مرحوم کبھی مولانا مودودی کے’’انیجلز‘‘ لکھا کرتے تھے اور کبھی ان کے ’’حکیم نور الدین‘‘ قرار دیتے تھے. یعنی مولانا اصلاحی صاحب کی حیثیت مولانا مودودی کے ساتھ ایسی تھی جیسے مارکس کے ساتھ انیجلز جڑا ہوا تھا‘ یا جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی کو سارا علمی مواد حکیم نور الدین فراہم کیا کرتا تھا. لیکن مولانا اصلاحی بھی اس مرحلے پر جماعت سے علیحدہ ہو گئے‘ بلکہ انہوں نے مولانا مودودی پر ایک الزام ذاتی بھی لگایا کہ ان کے مزاج میں آمریت ہے مشاورت نہیں‘ جبکہ جماعت کا دستور جمہوری تھا اور جماعت کو ایک دستوری بنیاد پر قائم کیا گیا تھا. 

تیسرا ایکسوڈس ۹۵.۱۹۹۴ء میں ہوا. اس میں علیحدہ ہونے والوں میں سے نمایاں ترین نام نعیم صدیقی صاحب کا ہے. نعیم صدیقی اس اعتبار سے نہایت اہم ہیں کہ پنجاب میں مولانا مودودی کے ساتھ جو سب سے پہلا شخص متعلق ہوا وہ جناب نعیم صدیقی ہیں. وہ جماعت اسلامی کے قائم ہونے سے بھی تین سال پہلے مولانا کے ساتھ منسلک ہوئے جب علامہ اقبال کی دعوت پر مولانا مودودی دارالسلام(پٹھانکوٹ‘ ضلع گورداسپور) آئے تھے. باقی سب لوگ بعد کی پیداوار ہیں. اور اب انہوں نے جماعت کی حالت ِ زار پر بڑے درد انگیز مرثیے کہے ہیں. ان کا جماعت سے اب جو اختلاف ہوا ہے اس میں پالیسی کا اختلاف کم ہے اور خاص طور پر قاضی حسین احمد صاحب کی شخصیت کے حوالے سے زیادہ ہے. حالیہ انتخابات میں‘ بقول ان کے‘ جو رکیک اور مبتذل قسم کی حرکات کی گئی ہیں انہوں نے جماعت کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی ہے. گویا ؎

پہلے ہی اپنی کونسی ایسی تھی آبرو
پر شب کی منتوں نے تو کھو دی رہی سہی

اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر معاملہ مالیاتی سکینڈلز کا ہے. اس حلقے کے اندر یہ بات عام کہی جا رہی ہے کہ قاضی صاحب نے پہلے نواز شریف سے دس کروڑ لیا تھا‘ پھر منحرف ہو گئے اور پھر حکومت سے دس کروڑلے کر اپنا علیحدہ محاذ قائم کیا. واللہ اعلم! میں صرف ان کی ترجمانی کر رہا ہوں. بہرحال انہوں نے ایک جماعت بھی بنا لی ہے اور اس کا کنونشن بھی ہوا ہے. پہلے اس کا نام’’تحریک ِ فکر مودودی‘‘ تھا اور اب یہ’’تحریک اسلامی‘‘ کے نام سے جمع ہوچکے ہیں. جماعت سے الگ ہو کر جتنے لوگ ان کے ساتھ آئے ہیں ان سے زیادہ وہ ہیں جو آنے کو تیار بیٹھے ہیں‘ کیونکہ جماعت کے اندر ابھی اس حلقے کے کافی ہم خیال لوگ موجود ہیں.