اب ذرا یہ دیکھ لیجیے کہ ہر مرحلے پر ہونے والے خروج (exodus) کے کیا نتائج نکلتے رہے ہیں. پہلی مرتبہ جو لوگ علیحدہ ہوئے ان کے اکابر تبلیغی جماعت میں چلے گئے. ان میں مولانا علی میاں بھی تھے اور مولانا منظورنعمانی بھی. باقی لوگ اپنے اپنے طریقے سے کسی کام میں لگ گئے. 

دوسرے مرحلے پر یعنی۵۷.۱۹۵۶ء میں جو اختلاف ہوا اس کے بعد پہلے پہل بہت کوششیں ہوئیں کہ کوئی جماعت سازی ہو جائے اور ایک جماعت بن جائے. اس سلسلے میں مولانا اصلاحی صاحب نے بھی بڑی کوششیں کیں‘ مگر ناکامی ہوئی. لیکن اُس وقت ایک جوان نے‘ جو اَب بوڑھا ہو گیا ہے اور آپ سے مخاطب ہے‘ اپنی جدوجہد کو بر قرار رکھا‘ جس کے نتیجے میں ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی قائم ہوئی. اس تنظیم میں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور یہ اکثر و بیشتر نئے لوگوں پر مشتمل ہے. ع ’’اپنی دنیاآپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ کے مصداق میرے اپنے دروسِ قرآن‘ میری تقریروں اور تحریروں کے نتیجے میں لوگ جمع ہوئے ہیں. لیکن میرا موقف یہ ہے کہ میں اسی اصل تحریک ِ جماعت اسلامی کا تسلسل ہوں. میں اب بھی اپنے آپ کو اسی کی طرف منسوب کرتا ہوں. اپنی منزل سے انحراف سے پہلے کی جو جماعت تھی میں اس کے ساتھ متفق ہوں اور میرا دعویٰ ہے کہ میں اسی نہج پر کام کر رہا ہوں. 

تیسرے مرحلے پر‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ نعیم صدیقی صاحب اور ان کے ساتھی پہلے تحریک فکر مودودی کے نام سے اور اب تحریک اسلامی کے نام سے جمع ہو گئے ہیں. پچھلے دنوں جب میرے چھوٹے بھائی برادرم اقتدار احمد کا انتقال ہوا تو ایک عجیب سی صورت پیدا ہو گئی کہ قاضی حسین احمد صاحب اور نعیم صدیقی صاحب میرے پاس تعزیت کے لیے آئے تو اتفاقی طور پر دونوں ایک ہی وقت پر پہنچ گئے. میں نے اس وقت بھی سورۃ الانفال میں واردشدہ یہ قرآنی الفاظ پڑھے تھے: 
وَ لَوۡ تَوَاعَدۡتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِی الۡمِیۡعٰدِ یعنی اگر آپ پہلے سے طے کر کے آتے کہ ایک ہی وقت میں جانا ہے تب بھی کچھ آگے پیچھے ہو جاتا‘ لیکن اللہ نے آپ کو یہاں جمع کر دیا ہے. پھر ہمارا اس موقع کا ایک فوٹو بھی’’ندائے خلافت‘‘ میں چھپ گیا جس میں درمیان میں‘ میں بیٹھا ہوں‘ میرے دائیں ہاتھ جناب نعیم صدیقی صاحب اور بائیں ہاتھ قاضی حسین احمد صاحب ہیں.