یہ جو تینوں دھڑے ہیں ان کے مابین کیا چیز قدرِ مشترک ہے اور کیا مابہ الاختلاف ہے؟ اس کو نوٹ کر لیجیے. یہ بھی ایک ہی لڑی کے تین دھاگے ہیں‘ اسی طرح جیسے جمعیت علماء اسلام کی لڑی کے تین دھاگے ہیں‘ اور جمعیت علمائِ پاکستان اور جمعیت اہلحدیث کی لڑیوں کے مختلف دھاگے ہیں. اس لڑی کے جو یہ تین دھاگے ہیں ان میں مندرجہ ذیل اقدار مشترک ہیں: 

(۱) دین کا ہمہ گیر تصور کہ وہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو اپنا غلبہ اور مکمل تسلط چاہتا ہے. اسلام اپنے ماننے والوں سے جزوی اطاعت نہیں بلکہ مکمل اطاعت اور انقیاد کا مطالبہ کرتا ہے.

(۲) فرائض دینی کا یہ تصور کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کرنا ہر بندۂ مومن کا فرض عین ہے. اگر وہ یہ نہیں کرتا تو قانونی مسلمان تو شمار ہو سکتا ہے حقیقی مؤمن شمار نہیں ہو سکتا. ان تصورات پر ہم سب متفق ہیں. 

(۳) مولانا مودودی مرحوم نے’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے‘‘ میں جو اساسی طریق کار پیش کیا ہے اس پر بھی ہم سب کا اتفاق ہے. یعنی پہلے خود مسلمان بنو‘ پھر معاشرے اور ریاست کو مسلمان بنانے کے لیے ایک منظم جماعت میں شامل ہو کر تن من دھن سے کوشش کرو. پھر اس میں بھی ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ سارا کام قرآن کی بنیاد پر ہونا چاہیے. ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ مولانا مودودی ایک بہت بڑے مصنف اور مفکر تھے اور ان کی بعض تعبیرات اور علمی آراء سے اختلاف ہو سکتا ہے‘ لیکن اِس وقت میں مولانا مودودی کی نہیں‘ جماعت اسلامی کی بات کر رہا ہوں. چنانچہ مولانا مودودی کے بیان کردہ علمی مسائل‘ تعبیرات اور تشریحات سے قطع نظر‘ اصل تحریک کے دو تصورات یعنی دین کا تصور اور فرائض ِ دینی کا تصور ہمارے درمیان قدرِ مشترک ہیں. اس کے علاوہ انقلابِ اسلامی کا اساسی طریق کار‘ جس کی توضیح ’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے‘‘نامی پمفلٹ میں ہے‘ وہ بھی متفق علیہ ہے ‘یعنی پہلے خود مسلمان بنو‘ حلال اور حرام پر کار بند رہو‘ پھر با ہم جڑو اور ایک منظم طاقت بنو ‘اور اب یہ طاقت استعمال ہو گی دین کو غالب کرنے کے لیے. البتہ دین کے غلبے کے لیے آخری قدم کیا ہو گا؟ یہ معاملہ ہمارے مابین بنائے نزاع ہے. کیا وہ الیکشن ہے؟ تنظیم اسلامی کا موقف اس اعتبار سے سخت ترین ہے کہ الیکشن سے کچھ حاصل نہیں ہو گا. نعیم صدیقی صاحب کی زیر قیادت بننے والی تحریک اسلامی بھی الیکشن سے تقریباً تائب ہو چکی ہے. البتہ جماعت اسلامی‘ جسے اِس وقت ’’قاضی حسین احمد اینڈ کمپنی‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے‘ یعنی جماعت کے موجودہ امیر اور اس کے عام کارکن جو اسی سیاسی دور کی پیداوار ہیں‘ وہ اس پر عازم اور جازم ہیں کہ اِس وقت راستہ تو بس یہی الیکشن کا راستہ ہے.