اب ذرا یہ سمجھ لیجیے کہ الیکشن کے بارے میں میرا اور تنظیم اسلامی کا اب تک موقف کیا ہے؟
(۱) ہمارے نزدیک تاریخ انسانی میں آج تک کوئی انقلاب انتخابات کے ذریعے نہیں آیا. (واضح رہے کہ انقلاب سے مراد Politico-Socio Economic System میں کوئی بنیادی تبدیلی ہے.)یہ بات تاریخی طور پر طے شدہ ہے. انتخابات کے ذریعے سے نہ ایران میں آیت اللہ خمینی کی حکومت بن سکتی تھی اور نہ معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ‘ الیکشن کے ذریعے سے محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں اور پھر پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی حکومت قائم کر سکتے تھے. یہ میں نے چودہ سو برس کے فصل سے دو مثالیں آپ کے سامنے پیش کر دی ہیں‘ درمیانی خلا آپ خود پُر کر لیجیے.
(۲) ہمارے نزدیک الیکشن پہلے سے قائم کسی نظام کو چلانے کے لیے ہوتے ہیں‘ کسی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں. امریکہ میں دونوں انتخابی حریف یعنی Democrates اور Republicans امریکہ میں قائم نظام پر متفق ہیں.
ان کے مابین فرق صرف پالیسی سے متعلق بعض معاملات میں ہے. مثلاً ٹیکسیشن پالیسی میں کوئی باریک سا فرق ہو گا‘ یا اسی طرح ہیلتھ پالیسی میں کوئی معمولی فرق ہو گا. اسی طرح انگلستان میں خواہ لیبرپارٹی ہو یا کنزرو یٹوپارٹی‘ ملک میں رائج موجودہ نظام پر ان دونوں کا اتفاق ہے. ہاں بعض جزوی معاملات میں ‘مثلاً تارکین وطن کے بارے میں پالیسی پر یا ٹریڈ یونینز پالیسی پر‘ ان کے مابین اختلاف ہو سکتا ہے. بہرکیف الیکشن ہوتے ہیں کسی نظام کو چلانے کے لیے‘ بدلنے کے لیے نہیں.
(۳) الیکشن خواہ کتنے ہی صاف و شفاف اور غیر جانبدارانہ و منصفانہ کیوں نہ ہوں‘ معاشرے میں موجود جو بھی اقتصادی Power bases ہوں گے یا بالفاظِ دیگر معاشی و اقتصادی ڈھانچے پر جن طبقات کا تسلط ہو گا‘ ان انتخابات کے نتائج میں انہی کی reflection (عکاسی) ہو گی. اگر وہاں جاگیرداری نظام قائم ہے تو کوئی جاگیردار ہی انتخابات کے ذریعے اوپر آئے گا. اَسی پچاسی فیصد نشستوں پر وہی قابض ہوں گے‘ باقی پندرہ بیس فیصد محض ڈگڈگی بجاتے رہ جائیں گے. اصل کھیل تو جاگیردار ہی کھیلے گا‘ چاہے وہ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے پہ آیا ہو اور چاہے کسی اور نعرے کے بل پر اسمبلی میں پہنچا ہو‘ لیکن جاگیردار بہرحال جاگیردار ہی رہے گا خواہ وہ اپنے اوپر کوئی بھی لبادہ اوڑھ لے. بھٹو کو اللہ نے جاگیرداری نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کا موقع دیا تھا. اگر وہ اپنے سوشلزم کے ساتھ ہی مخلص ہوتا تو وہ اس ملک کا مائوزے تنگ بن سکتا تھا‘ لیکن وہ بھی اپنی جاگیردارانہ کھال (skin) سے باہر نہ نکل سکا اور اُس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ اندر سے وہ بھی جاگیردار ہی تھا. لہٰذا موجودہ مروّجہ نظام کے تحت جب بھی الیکشن ہوں گے‘ نتیجہ وہی نکلے گا. وہی جاگیردار طبقہ آپ کو اسمبلی کی نشستوں پر براجمان اور اقتدار کی غلام گردشوں میں متحرک نظر آئے گا. زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ کچھ نام بدل جائیں گے یا کچھ چہرے بدل جائیں گے‘ بات وہیں کی وہیں رہے گی. اِس وقت ایک بہت بڑے جاگیردار یعنی سرجمال خان لغاری کا پوتا آپ کا صدر ہے اور ایک بہت بڑے جاگیردار یعنی سرشاہ نواز بھٹو کی پوتی آپ کی وزیراعظم ہے. دونوں’’سروں‘‘ کی اولاد ہیں.
مذکورہ بالا تین نکات سے ہم جو نتیجہ نکالتے ہیں وہ یہ ہے کہ نظام اسلام کے قیام کے لیے الیکشن میں حصہ لینا ’’Exercise in futility‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہے‘ یہ محض قوت اور وقت کا ضیاع ہے. تاہم الیکشن کے بارے میں اپنے اس موقف کا بھی میں ہمیشہ اظہار کرتا رہا ہوں کہ یہ حرام نہیں ہیں. میں نے مولانا صوفی محمد صاحب سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کئی بار کیا ہے جو مالاکنڈ کی تحریک نفاذِ شریعت کے قائد ہیں. ان کا فتویٰ یہ ہے کہ الیکشن میں ووٹ دینا بھی حرام ہے اور الیکشن لڑنا بھی حرام ہے. میں ان کے پاس حاضر ہوا تھا. دیر کے ایک دور دراز علاقے میں’’میدان‘‘ نام کا ایک مقام ہے‘ جہاں صوفی صاحب رہائش پذیر تھے. میں ان سے ملنے کے لیے وہاں پہنچااور عرض کیا کہ مولانا! میں اس حد تک آپ سے متفق ہوں کہ الیکشن کا اس لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس کے ذریعے سے دین نہیں آسکتا‘ لیکن آپ اس کو حرام کہہ رہے ہیں تو اس کے لیے کوئی وزنی دلیل درکار ہے. اس کے لیے آپ کو علماء کے سامنے اپنے دلائل پیش کر کے ان کا اتفاقِ رائے حاصل کرنا چاہیے. میں بہرحال اسے حرام نہیں کہہ سکتا اور میں نے کبھی بھی اس کو حرام قرار نہیں دیا.
دوسرے‘ میں یہ بھی ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ جو لوگ خلوص و اخلاص کے ساتھ قائل ہیں کہ اس ذریعے سے یہاں واقعتا کوئی تبدیلی آ سکتی ہے‘ اسلامی نظام آ سکتا ہے تو وہ ضرور اس کے لیے کام کریں. تاہم ایسے لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ باہم متحد ہو جائیں‘ تاکہ اسلام کے نام پر الیکشن میں حصہ لینے والے تو ایک پلیٹ فارم پر آجائیں. اگر آپ نے اسلام کو ایک پارٹی ایشو بنا ہی لیا ہے تو معاشرے میں اسی بنیاد پر polarization ہو جانی چاہیے.
سیکولرذہن کے لوگ ایک طرف ہوں اور مذہبی ذہن کے لوگ ایک طرف. اور اگر مذہبی کیمپ پانچ حصوں میں بٹا ہوا ہو گا تو پھر وہی کچھ ہو گا جو اب تک ہو رہا ہے کہ دن بدن عزت کا دھیلا ہو رہا ہے.علماء کی کوئی حیثیت ہی نہیں. ان کے کچھ بیانات ضرور اخبارات میں چھپ جاتے ہیں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشرے پر علماء کی گرفت بتدریج ڈھیلی ہوتی چلی جا رہی ہے. اور یہ سارا نتیجہ اس غلط حکمت عملی کا ہے جو ان کی طرف سے اختیار کی گئی ہے.