اب اس کے ساتھ ساتھ میری ایک پیشکش (offer) ہے جو میری آج کی معروضات کا آخری نکتہ ہے. میں یہ آفر مسلسل کرتا رہا ہوں کہ اگر جماعت اسلامی انتخابات سے تائب ہوجائے تو میں اور میری ساری تنظیم اس میں مدغم ہو جائیں گے. آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ایک شخص اپنے بارے میں تو کوئی فیصلہ کر سکتا ہے مگر اپنی تنظیم کے بارے میں یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے؟ لیکن میں یہ بات اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ میری تنظیم بیعت کی بنیاد پر قائم ہے اور جماعت اسلامی میں شامل ہونے کا میرا حکم ہر گز کوئی حرام کام کا حکم نہیں ہے‘ لہٰذا میرے رفقاء اپنی بیعت کی بنیاد پر پابند ہیں کہ اگر میں یہ فیصلہ کروں تو انہیں اس میں شریک ہونا ہو گا.
اس کے کچھ عرصے بعد میں نے اس آفر میں کچھ مزید نرمی کی کہ اگر جماعت اسلامی پچیس برس یا بیس برس کے لیے ہی الیکشن سے مجتنب رہنے کا فیصلہ کر لے تو میں اپنی جماعت کو اس میں مدغم کر دوں گا.
اِس وقت میں ایک درجہ مزید نیچے اتر رہا ہوں اور اس طرح میں آخری بار اتمامِ حجت کر رہا ہوں. میری یہ تجویز پانچ حصوں پر مشتمل ہے:
(۱) جماعت اسلامی‘ تنظیم اسلامی اور تحریک اسلامی‘ یہ تینوں تنظیمیں ایک وفاق کی شکل اختیار کر لیں. اِس وقت میری یہ آفر اِدغام کی نہیں‘ وفاق کی ہے‘ کیونکہ ہمارا نظام بیعت کا ہے اور ان کا دستوری ہے.
(۲) اس وفاق میں شامل تینوں تنظیمیں مشترکہ طور پر عوام کی بھرپور ذہنی و فکری اور اخلاقی و عملی تربیت میں سرگرم ہو جائیں اور اس کے لیے اپنی تمام تر افرادی قوت اور معاشی و سائل و ذرائع کو بروئے کار لائیں. جہاں تک ممکن ہو سکے بڑے سے بڑے پیمانے پر لوگوں کے اذہان کو بدلنے کی کوشش کی جائے‘ تاکہ سیکولرزم‘ مغربی جمہوریت اور مغربی تہذیب کی مرعوبیت دماغوں سے نکلے اور اسلام کے معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی نظام پر اعتماد پیدا ہو. لوگوں کو یہ بھی بتلایا جائے کہ موجودہ دور میں نظامِ خلافت کا نیا ڈھانچہ کیا ہو گا؟ یہ ہمارے کرنے کا ایک بہت بڑا کوہ ہمالیہ جتنا بڑا کام ہے‘ جس کے لیے ہمیں اپنی قوتوں‘ صلاحیتوں اور وسائل و ذرائع کو مشترکہ طور پر بروئے کار لانا چاہیے اور اس ساری جدوجہد کے لیے مرکزو محور ہونے کی حیثیت قرآن حکیم کو حاصل ہونی چاہیے. اس میں اختلاف کی کوئی بات نہیں.
(۳) انتخابات میں حصہ لینے کے ضمن میں ہم مولانا مودودی کے۱۹۴۵ء کے موقف پر جمع ہوسکتے ہیں. یہ آخری اتمامِ حجت ہے جو میں جماعت اسلامی پر کر رہا ہوں. ’’رسائل و مسائل‘‘ (جو ان کی اپنی شائع کردہ کتاب ہے) کی جلد اول صفحہ ۳۷۵ پر مندرج یہ عبارت ملاحظہ ہو‘ جو دراصل ایک سوال کے جواب میں دسمبر ۱۹۴۵ء کے ترجمان القرآن میں شائع ہوئی تھی. مولانا فرماتے ہیں:
’’الیکشن لڑنا اور اسمبلی میں جانا اگر اس غرض کے لیے ہو کہ ایک غیر اسلامی دستور کے تحت ایک لادینی (Secular) جمہوری (Democratic) ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدئہ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے. لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عام کو اس حد تک اپنے عقیدہ و مسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں یہ توقع ہو کہ عظیم الشان اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستور ِحکومت تبدیل کر سکیں گے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس طریقہ سے کام نہ لیں. جو چیز لڑے بغیر سیدھے طریقہ سے حاصل ہو سکتی ہو اس کو خواہ مخواہ ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیا ہے. مگر یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہم یہ طریق کار صرف اس صورت میں اختیار کریں گے جبکہ :
اوّلاً‘ ملک میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہوں کہ محض رائے عام کا کسی نظام کے لیے ہموار ہو جانا ہی عملاً اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہو سکتا ہو.
ثانیاً‘ ہم اپنی دعوت و تبلیغ سے باشندگانِ ملک کی بہت بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بناچکے ہوں اور غیر اسلامی نظام کے بجائے اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہو چکا ہو.
ثالثاً‘ انتخابات غیر اسلامی دستور کے تحت نہ ہوں بلکہ بنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آئندہ نظام کس دستور پر قائم کیا جائے.‘‘
یہ مولانا مودودی مرحوم کا دسمبر۱۹۴۵ء یعنی قیامِ پاکستان سے پونے دو سال پہلے کا موقف ہے. اب اس کے ہوتے ہوئے انہوں نے۱۹۵۱ء کے الیکشن میں کیسے حصہ لیا‘ یہ ایک علیحدہ بحث ہے‘ جس میں میں نہیں جانا چاہتا. انسان سے غلطی ہو سکتی ہے‘ نسیان بھی ہو سکتا ہے‘ ’’الانسانُ مرکبٌ من الخطأ والنِّسیان‘‘ اس پہلے ہی الیکشن کے بعد اندازہ ہو گیا تھا کہ ناکامی اس لیے ہوئی کہ مذکورہ بالا تین شرطیں پوری نہیں تھیں‘ ورنہ تو کامیابی ہوتی. لہٰذا جماعت کو اس سے رجوع کر لینا چاہیے تھا‘ لیکن افسوس یہ ہے کہ پھر اس پر اصرار رہا اور ہر آنے والے الیکشن میں درجہ بدرجہ نیچے اترتے گئے. (اس موضوع پر’’مولانا مودودی مرحوم اور انتخابات‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون ستمبر۱۹۹۵ء کے میثاق میں شائع کیا جا چکا ہے. تفصیل وہاں سے دیکھی جا سکتی ہے)
یہ تینوں جماعتیں جو وفاق بنائیں وہ کسی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ اُس وقت کرے جب کہ مولانا مودودی مرحوم کی معین کردہ وہ تین شرطیں پوری ہو چکی ہوں. یہ شرطیں جماعت اسلامی پر بھی حجت ہیں اور تحریک اسلامی پر بھی‘ کیونکہ وہ اصلاً ہے ہی’’تحریک فکر مودودی‘‘ اور ان شرائط کو میں بھی درست تسلیم کرتا ہوں. اب حل طلب مسئلہ صرف یہ رہ گیا کہ یہ assessment کون کرے گا کہ مطلوبہ فضا تیار ہو گئی یا نہیں؟ یہ اندازہ کس طرح ہو گا کہ حقیقت میں یہ شرائط پوری ہو گئیں یا نہیں؟ اس کے لیے میں یہ تجویز دے رہا ہوں کہ تینوں جماعتوں کی ایک مشترک مجلس مشاورت قائم کی جائے‘ جس میں پچاس فیصد نمائندگی جماعت اسلامی کی ہو‘ ۲۵ فیصد نمائندگی نعیم صدیقی صاحب کی تحریک اسلامی کو دے دی جائے جو اگرچہ ابھی ایک نوزائیدہ جماعت ہے اور صحیح معنوں میں جماعت کہلانے کی حقدار بھی نہیں ہے‘ لیکن میں نعیم صدیقی صاحب کو اپنا بزرگ مانتا ہوں. اور بقیہ صرف ۲۵ فیصد پر میں خود قناعت کرنے کے لیے تیار ہوں کہ وہ تنظیم اسلامی کی ہو. اگر اس مجلس مشاورت کی دوتہائی اکثریت یہ فیصلہ کر دے کہ یہ شرائط پوری ہو گئی ہیں‘ بشرطیکہ اس میں ہر جماعت کی بھی کم ازکم نصف تعداد شامل ہو‘تو یہ وفاق الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر دے. یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ نہ ہو کہ دو جماعتیں مل کر دو تہائی اکثریت ظاہر کر دیں اور تیسری جماعت’’ایل بی ڈبلیو‘‘ ہو جائے.
اس ضمن میں آخری بات یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ میری آخری آفر (offer) ہے اور یہ سابقہ ساری offers کی ناسخ ہے. چنانچہ قبل ازیں میں جماعت اسلامی کے ساتھ تنظیم اسلامی کے ادغام کی جو پیشکش کر چکا ہوں اسے اب منسوخ سمجھا جائے .اور اگر میری یہ آخری پیشکش بھی قبول نہیں تو پھر معاملات جس طرح چل رہے ہیں اسی طرح چلیں گے‘ بلکہ بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے اور ظاہر ہے کہ اس میں کسی کی بھی خیر نہیں ہے.
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین