روشن خیالی کا آغاز اسلام، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں قرآن سے ہوا ہے. اس سے پہلے دنیا توہمات میں مبتلا تھی. ایسے عقائد موجود تھے جن کا کوئی سر پیر نہ تھا. زلزلہ کے متعلق کہا جاتا رہا ہے کہ یہ زمین ایک بیل اپنے ایک سینگ پر اٹھائے کھڑا ہے، جب بیچارہ بیل تھک کر اسے ایک سے دوسرے سینگ پر منتقل کرتا ہے تو زلزلہ آتا ہے. کیا اس عقیدے کی کوئی عقلی یا سائنسی بنیاد ہے؟ کیا اللہ کی اتاری ہوئی کسی کتاب میں اس کا ذکر ہے؟ اس قسم کے توہمات سے انسان کو قرآن نے نکالا . اس ضمن میں قرآن کی سب سے پہلی اور بنیادی ہدایت یہ تھی کہ:’’مت پیچھے لگو کسی ایسی چیز کے جس کے لیے تمہارے پاس علم نہیں ہے. بے شک کان اور آنکھ اور دماغ ان سب کی اس سے پوچھ ہو گی.‘‘(بنی اسرائیل)یعنی یہ جو ہم نے تمہیں سماعت اور بصارت دی ہے اور ان دونوں کے جو Sense Data دماغ میں فیڈ ہوتے ہیں، ان سب کا تم سے محاسبہ ہو گا. پوچھا جائے گا کہ اس سے کام کیوں نہیں لیا، توہمات میں کیوں پڑے رہے! ذہن میں رکھیے کہ علم کی ایک قسم وہ ہے جسے ہم کسبی علم(Acquired Knowledge) کہتے ہیں. اسے انسان خود حاصل کرتا ہے. آنکھ سے دیکھا، کان سے سنا، ہاتھ سے چھوا، زبان سے چکھا، ناک سے سونگھا، یہ Sense Data دماغ میں فیڈ ہو جاتا ہے.اس طرح قدم بقدم انسان کا علم بڑھتا چلا جاتا ہے، جس کی میں بڑی سادہ سی مثال دیا کرتا ہوں. ایک زمانہ تھا کہ ہمارے آباء و اجداد کی خوراک پھل، جڑی بوٹیاں اور جڑیں ہوتی تھیں، یا پھر کچا گوشت کھاتے جیسے کہ درندے کھاتے ہیں. ایک روز کسی شخص نے دیکھا کہ اوپر سے ایک پتھر نیچے چٹان پر گرا تو ایک شعلہ برآمد ہو گیا. اس نے دو پتھر لے کر ٹکرائے تو توانائی کی پہلی شکل (First Form of Energy) یعنی آگ ایجاد ہو گئی. اب انسان نے سبزیاں اور گوشت پکا کر کھانا شروع کر دیا.اس کے بعدکسی نے دیکھا چولھے پر چڑھی ہوئی ہانڈی کے اوپر ڈھکن ہل رہا ہے. اس نے سوچا کیا یہ کسی جن بھوت کا کام ہے؟ غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ڈھکن کے نیچے جو بھاپ موجود ہے، اس میں طاقت ہے، جو ڈھکن کا اٹھا رہی ہے. لہٰذا توانائی کا دوسرا ذریعہ (Second Source of Energy) وجود میںآ گیا. اب سٹیم انجن ایجاد ہو گئے. پہلے اس ترقی کی رفتار کافی سست تھی، لیکن پچھلے کوئی ڈیڑھ سو سال میں یہ دھماکے کی مانند نہایت تیزی کے ساتھ بڑھی ہے.یہ علم آج اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے. جیسے اقبال نے کہا تھا کہ ؏

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے

چاندپر تو انسان اتر گیا، آگے مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے. بہرحال یہ علم ہے. اسلام اسے تسلیم 
(Acknowledge) کرتا ہے، (دوسری قسم کا علم وہ ہے جو ہمیں وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، یعنی علم ہدایت، لیکن اس وقت یہ میرا اصل موضوع نہیں ہے.) چنانچہ فرمایا گیا کہ علم کی بنیاد پر اپنا موقف قائم کرو. ہمارے نزدیک وہ علم یا تو سائنس کے ذریعے سے حاصل شدہ ہو گا، یا پھر وحی کے ذریعے سے آیا ہوا علم ہوگا. ایم این رائے انٹرنیشنل کیمونسٹ پارٹی کی بلند ترین سطح پر قائم ایک تنظیم ’’کمیونسٹ انٹرنیشنل‘‘ کارُکن تھا. اس نے لاہور میں ۱۹۲۰ء میں Historical Role of Islam کے عنوان سے ایک لیکچر دیا تھا، جس میں اُس نے بڑی ہی خوبصورت بات کہی تھی. اس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے چوبیس برس کی قلیل مدت میں طوفان کی طرح جو فتوحات حاصل کیں، ا ِدھر دریائے جیحوں(Oxus) اور اُدھر بحرالکاہل تک پہنچ گئے، تو اکثر لوگ ان فتوحات کی برق رفتاری کا مواز نہ دوسرے فاتحین سے کر بیٹھتے ہیں. جیسے چنگیز خان مشرق سے چلتا ہوا مغرب میں پہنچ گیا تھا، اٹیلا بھی مشرق سے مغرب تک پہنچ گیا تھا، اسی طرح سکندر اعظم بھی مقدونیہ سے چل کر دریائے بیاس تک آ گیا تھا. لیکن ان تمام فاتحین کی اور مسلمانوں کی فتوحات میں بڑا بنیادی فرق ہے. چنگیز خان اور سکندر اعظم کی فتوحات کے نتیجے میں کوئی تہذیب وجود میں نہیں آئی، دنیا کو روشنی نہیں ملی، نئے علوم کی ایجاد نہیں ہوئی، جب کہ مسلمانوں کی فتوحات نے ایک تہذیب اور تمدن کو جنم دیا، تمام پرانے علوم کو دوبارہ زندہ کر دیا. اُس وقت یورپ تاریک دو ر (Dark Ages) سے گزر رہا تھا. اگرچہ ہر ملک کا اپنا بادشاہ تھا، لیکن سب کے اوپر پوپ تھا اور اصل حکومت اسی کی تھی. ہر معاملے میں اسی کا حکم چلتا تھا، اور اس نے سائنس اور فلسفہ کی تعلیم کو حرام قرار دے رکھا تھا. اس کا حکم تھا کہ اگر کہیں سے سائنس کی کتابیں نکل آئیں تو اس گھر کو آگ لگا دی جائے، کسی نے فلسفہ پڑھا ہے تو اس کو زندہ جلا دیا جائے. پوپ جو کہہ دیتا بس وہی قانون تھا. تورات کا جو قانون حضرت مسیح علیہ السلام دے کر گئے تھے اس کو تو سینٹ پال نے منسوخ (Abrogate) کر دیا. کوئی شریعت نہیں رہی تھی. اس کے بعد تو پوپ کا حکم ہی شریعت کا درجہ اختیار کر گیا. اس اعتبار سے پورا یورپ پوپ کے زیر اثر تھا. امریکہ کا تو اُس وقت وجود ہی نہیں تھا. اگر تھا بھی تو دنیا نہیں جانتی تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے. وہاں وحشی قبائل رہتے تھے جو کسی طرح کی تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھے. اس سے پہلے یونانی دور میں یورپ متمدن رہا تھا اور وہاں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں کافی ترقی ہوئی تھی، لیکن پوپ کے تسلط نے تاریکی پیدا کر دی تھی. ایم این رائے کے مطابق، ایسے حالات میں مسلمانوں نے دنیا کو روشنی دی. اس حوالے سے روشن ترین عہد عباسی دور حکومت کا تھا، جس میں قدیم یونان کے تمام علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا. سقراط، افلاطون اور ارسطو کو مسلمانوں نے ہی زندہ کیا ہے. اسی طرح ہندوستان سے علم طب بھی لیا، منطق بھی لی اور حساب بھی لیا، پھر اُن علوم کو وسعت اور ترقی بھی دی گئی. لہٰذا اُس وقت پوری دنیا کے اندر روشن خیال معاشرہ مسلمانوں کا تھا. یہ ایک ایسے شخص کی رائے ہے جو ہندو بھی تھا اور کمیونسٹ بھی.تیسری بات علامہ اقبال نے فرمائی ہے، جو بہت گہری ہے اور یہ صرف وہی کہ سکتے تھے. وہ کہتے ہیں کہ: The inner core of the present western civilization is Quranic 
ایک طرف تو علامہ اقبال مغربی تہذیب کی شدید مذمت کرتے ہیں. جیسے ؎

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا!

اور ؎

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!

لیکن دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس تہذیب کا 
(Inner Core) قرآنی ہے. سائنس میں موجودہ ترقی ایسے حاصل ہوئی کہ جب بنو عباس نے مسلم دنیا کے قلب میں قائم بنو اُمیہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو ان کا ایک شہزادہ بچ کر وہاں سے نکل بھاگا، اس نے سپین جا کر وہاں ایک زبردست حکومت قائم کر لی، جسے مسلمان پہلے ہی فتح کر چکے تھے. سپین کو طارق بن زیاد نے (۷۱۲؍۷۱۳ء) میں فتح کیا تھا. اس موقع پر یہودیوں نے مسلمانوں کی مدد کی تھی اور انہیں راستے بتائے تھے، کیونکہ مسلمان فوج کسی نامعلوم مقام پر اتر گئی تھی اور اپنی کشتیاں بھی جلا چکی تھی. یہ وہ دور تھا جب یہودیوں کو عیسائیوں کی جانب سے شدید تعذیب (Persecution) > کا سامنا تھا، ان پر تشدد ہوتا تھا، انہیں ٹارچر کیا جاتا تھا، ان سے نفرت کی جاتی تھی. عیسائی ان سے گھن کھاتے تھے، لہٰذا انہیں شہروں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی. ان کے لیے شہروں سے باہر اقلیتی محلے (Ghetto) قائم تھے. شام کو انہیں دو، تین گھنٹوں کے لیے شہر میں آنے کی اجازت تھی تاکہ وہ خرید و فروخت کر سکیں. ان اوقات کے علاوہ شہر میں ان کا داخلہ بند ہوتا. پھر انہیں زندہ بھی جلا دیا جاتا تھا، خاص طور پر سپین میں. اُس وقت سپین سو فی صدر ومن کیتھولک ملک تھا، اور آج بھی ایسا ہی ہے. بہرحال مسلمانوں نے سپین میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد یہودیوں کو اپنا محسن سمجھا. لہٰذا انہیں کندھوں پر اٹھایا، سر پر بٹھایا اور بہت عزت و توقیر دی. اسی لیے بن گوریان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ: 

Muslim Spain Was the golden era of our diaspora 
’’مسلم سپین ہمارے دورِ انتشار‘‘ کا سنہری زمانہ تھا.‘‘
سن ۷۰ میں یہودیوں کو رومیوں نے فلسطین سے نکال دیا تھا اور وہ دنیا بھر میں منتشر ہو گئے. جس کا جہاں سینگ سمایا، چلا گیا. چنانچہ یہ روس، شمالی افریقہ، ہندوستان اور ایران چلے گئے، لیکن فلسطین سے بہرحال نکال دیئے گئے. یہ یہود کی تاریخ کا دورِ انتشار 
(Diaspora) کہلاتا ہے، جو انتہائی ذلت کا دور تھا. ہر جگہ یہودی کا لفظ ایک گالی بن چکا تھا. چنانچہ مسلمانو ں نے سپین میں ان کو سہارا دیا. لیکن یہاں بیٹھ کر انہوں نے کیا کیا، اسے اچھی طرح جان لیجئے!علم و حکمت کی وہ روشنی جو مشرق وسطیٰ کے اندر پیدا ہوئی تھی، وہ مسلمانوں کے ذریعے ہسپانیہ میں بھی پہنچ گئی. ہسپانیہ کے تمام بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں. جیسے آج ہمارے نوجوان پڑھنے کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں، ایسے ہی اُن کے نوجوان Pyrenees کی پہاڑیوں کا سلسلہ عبور کر کے فرانس، اٹلی اور جرمنی سے ہسپانیہ آتے اور یہاں سے اسلام کی روشنی لے کر جاتے تھے. یہ روشنی حریت، آزادی اور مساوات کی روشنی تھی، یعنی کوئی حاکم نہیں، سب اللہ کے محکوم ہیں. ع ’’تمیز بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے.‘‘ تمام انسان پیدائشی طور پر برابر ہیں. کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں. کوئی گورا کسی کالے سے اور کوئی کالا کسی گورے سے برتر نہیں. اسلام نے دنیا کو اخوتِ انسانی کا پیغام دیا کہ تم سب کے سب ایک ہی جوڑے کی اولاد ہو. ارشاد الٰہی ہے: ’’اے لوگو! یقینا ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا.‘‘ یعنی آدم اور حوا علیہ السلام سے. ’’اور تمہیں تقسیم کر دیا قوموں اور قبیلوں میں، تاکہ تم ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرو (ایک دوسرے کو پہچانو).‘‘ دنیا بھر کے انسانوں کی شکلیں بھی بدل دیں، رنگ بھی بدل دیئے. یہ سب تعارف کے لیے ہے، کسی کو برتر ثابت کرنے کے لیے نہیں. ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب زیادہ پرہیزگار ہے.‘‘ جو بھی تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے، برائی سے بچتا ہے، لوگوں کے حقوق تلف نہیں کرتا، لوگوں کی عزت سے نہیں کھیلتا وہی اللہ کے ہاں باعزت ہے.علم کے یہ دھارے سپین سے پورے یورپ کو جا رہے تھے، لیکن یہودی اُن میں سیاہی گھول رہے تھے.

بقول شاعر ع ’’کون سیاہی گھول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں؟‘‘ چونکہ انہیں عیسائیوں سے انتقام لینا تھا، لہٰذا انہوں نے اس میں زہر گھولا اور وہ اس طرح کہ آزادی کو مادر پدر آزادی بنا دیا، یعنی اخلاقی اقدار سے بھی آزادی، شرم و حیا سے بھی آزادی، سرمائے کے حصول اور استعمال کی آزادی. پھر خدا سے آزادی کے نتیجے میں سیکولرازم پیدا کر دیا کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں. کوئی مسجد جائے یا مندر، سنیگاگ میں جائے یاچرچ میں، لیکن نظام ریاست، قانونِ ملکی، نظام معاشرت میں کسی مذہب کا کوئی دخل نہیں ہوگا. یہ ہے سیکولرازم کی بنیاد! یہ بیج اس لیے بوئے گئے کہ سیکولرزم یہودیوں کے لیے بہت مفید تھا. ظاہر ہے اگر اکثریتی مذہب کی بنیاد پر کسی ملک کا نظام تشکیل پائے گا تو اقلیتی مذاہب کے افراد میں تفریق کی جائے گی. ایک عیسائی ریاست کا نظام مکمل طو رپر عیسائیت ہی ہو گا اور یہودی وہاں دوسرے درجے کا شہری ہو گا اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی. لہٰذا انہوں نے سیکولرازم کے ذریعے سب کو برابر کر دیا کہ ایک ملک کی حدود میں رہنے والے سب برابر کے شہری ہیں، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، سکھ ہوں یا عیسائی، پارسی ہوں یا یہودی. اس اعتبار سے وہ اوپر آ گئے اور عیسائیوں کے ہمسر، ہم پلہ، بن گئے.اس کے نتیجے میں یورپ میں دو تحریکیں چلی ہیں.ایک تحریک احیاء علوم (Renaissance) جس کے تحت جن علوم کے اوپر پوپ نے ڈھکن رکھا ہوا تھا وہ اٹھا دیا گیا کہ فلسفہ پڑھو، سائنس بھی پڑھو، دیکھو، استقراء کرو، نتیجے نکالو. پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ سورج گردش کر رہا ہے، زمین ساکن ہے. پھر ایک دور آیا جس میں کہا گیا کہ سورج ساکن ہے، زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے. اس کے بعد ایک دور آیا جس میں انسان پر یہ منکشف ہوا کہ کائنات کے تمام ستارے اور سیارے گردش میں ہیں. اور یہ حقیقت قرآن پہلے سے بیان کر چکا ہے: کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۳۳﴾ کہ کائنات کی ہر چیز حرکت میں ہے. لہٰذا دیکھو، غور کرو، سوچتے رہو. اسی طرح قرآن نے کہا کہ: اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَلَکُمْ مَا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ… (لقمان: ۲۰’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے.‘‘ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کو تمہارا خدمت گار بنایا ہے. سورج تمہارا خدمت گار ہے، چاند تمہارا خدمت گار ہے، تم انہیں مسخر کر سکتے ہو، ان کے ذریعے سے توانائی اور قوتیں حاصل کرو. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج سورج سے توانائی حاصل کی جا رہی ہے. شمسی توانائی سے بجلی بنانے اور کاریں چلانے کی کوشش ہو رہی ہیں.

یہ چیزیں تمہارے فائدے کے لیے ہیں، یہ تو تمہاری خادم ہیں، لیکن تم نے انہیں خدا بنا دیا؟ یوں یورپ میں سائنس اور فلسفہ کا فروغ ہوا. یورپ میں دوسری تحریک اصلاحِ مذہب (Reformation) کی چلی، جس کے نتیجے میں مذہب اور پاپائیت سے بغاوت ہو گئی.یہودی نے تیسرا کام یہ کیا کہ سود کو جائز کر دیا. جب تک پوپ کا نظام تھا اس وقت تک پورے یورپ کے اندر سود حرام تھا. انفرادی سطح پر مہاجنی سود اور تجارت میں کمرشل انٹرسٹ دونوں حرام تھے. پروٹسٹنٹ طبقہ نے پوپ کے خلاف احتجاج کیا اور سب سے پہلے اپنا چرچ علیحدہ کر لیا. یوں برطانیہ میں ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ وجود میں آیا. سب سے پہلا بینک ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ بھی برطانیہ میں قائم ہوا. یہ بھی یہودیوں کی ایجاد تھی.اس پوری کائنات میں شر کے منبع اور سرچشمہ شیطانِ لعین کا انسانوں میں سب سے بڑا ایجنٹ یہودی ہے، اور یہود کا سب سے بڑا آلۂ کار پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں، خصوصاً وائٹ اینگلو امریکن پروٹسٹنٹس اور وائٹ اینگلو سیکس پروٹسٹنٹس. انہی کے ذریعے سے یہودیوں نے چرچ کو علیحدہ کرایا، انہی کے ذریعے سے سود کی اجازت لی اوربینک آف انگلینڈ بنایا. یہ تہذیب یورپ میں پھیلتی چلی گئی. پوپ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی، کیونکہ انہوں نے بہت دبا کر رکھا تھا کہ سائنس پڑھو نہ فلسفہ. تو رد عمل کے طور پر مذہب سے بغاوت پیدا ہوئی اور مذہب دشمنی کا رویہ فروغ پانے لگا. مذہب کو کسی شخص کے ذاتی فعل تک محدود کر دیاگیا. کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھے، روزہ رکھے یا کسی قسم کی کوئی اور عبادت کرے، لیکن ریاست کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام (Politico-socio-economic system) سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، چاہے وہ اسلام ہو یا عیسائیت، یہودیت ہو یا کوئی اور عقیدہ. یورپ میں یہ تہذیب پروان چڑھی ہے، جس کی بنیاد سیکولرازم، سود پر مبنی سرمایہ داری اور لذت پرستی (Headonism) پر ہے.اس دوران علم کی دوسری آنکھ بند کر دی گئی او ر وحی کی جانب بالکل نہیں دیکھا گیا. لہٰذا دنیا میں یہ دجالیت قائم ہوئی. سیکولرازم کے تحت مذہب کا تعلق انسان کی اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں سے بالکل ختم کر دیا گیا. سود کے ذریعے یہودیوں نے پہلے یورپ کو جکڑا تھا، اب وہ چاہتے ہیں کہ پوری انسانیت ہمارے قبضے میں آ جائے. ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے اسی لیے وجودمیں لائے گئے ہیں.یہ فنانشل کلونیلزم ہے جو اِس وقت دنیا کے اندر اپنی جکڑ بندی کر رہا ہے.

گلوبلائزیشن جب پورے عروج پر آ جائے گی، اور Trips کا معاہدہ ہو جائے گا توملک بے معنی ہو جائیں گے، حکومتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوگی، اصل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں حکومت کر رہی ہوں گی. وہ اپنے منیجرز کو جو تنخواہیں دیتی ہیں، سرکاری ملازمت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا. یہ درحقیقت یہود کا وہ سارا نظام ہے جس نے پہلے یورپ کو جکڑا، پھر امریکہ کو اور اب وہ پوری دنیا کو جکڑنا چاہتے ہیں.بدقسمتی سے اسی تہذیب کو آج ہم چاہتے ہیں. ہمارے صدر سمیت حکومتی حلقوں میں سیکرلر ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہیں. وہ سود کو جائز سمجھتے ہیں، انہیں اس میں کوئی غلط بات نظر نہیں آتی. اسی طرح بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے. صدر صاحب نے صاف کہہ دیا ہے کہ جو لوگ لڑکیوں کی ننگی رانیں نہیں دیکھ سکتے وہ اپنی آنکھیں بند کر لیں، ٹی وی کو آف کر دیں. ہم تو خواتین کو کرکٹ بھی کھلائیں گے اور ہاکی بھی. جو انہیں نیکروں میں نہیں دیکھ سکتا وہ نہ دیکھے. اسمبلیوں میں ۳۳ فیصد سیٹیں دے کر ہم ایک دم چالیس ہزار عورتوں کو گھروں سے نکال کر میدان میں لے آئے ہیں. یہودیوں کا جو پروگرام اس وقت دنیا میں چل رہا ہے، ان کے اوّلین آلۂ کار برطانیہ اور امریکہ ہیں. یہ دونوں یک جان دو قالب (Hand in Glove) ہیں. باقی عیسائی دنیا بھی ان کے تابع ہو چکی ہے. اب یہ اس کو گلوبلائز کرنا چاہتے ہیں. چنانچہ جو بھی ان کی تعلیم پا کر آتا ہے، ان کی تہذیب کے رنگ میں رنگا جاتا ہے. ایسے تمام افراد ان کے ایجنٹ ہیں، چاہے وہ عرب ہوں یا غیر عرب، ہندوستان ہوں یا پاکستانی. ان کی برین واشنگ کی جا چکی ہے. بقول شاعر ؎

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے!

انہوں نے یہاں کی سول سروس اور فوج کی ایک خاص نہج پر تربیت کی ہے. وہ اگرچہ چلے گئے ہیں لیکن درحقیقت 
By Proxy حکومت انہی کی ہو رہی ہے. انہی کے غلام، کاسہ لیس اور انہی کے جوتوں کی ٹوہ چاٹنے والے اس وقت عالم اسلام پر حکمران ہیں. آج اس تہذیب کو پوری دنیائے اسلام میں جو شخص سب سے بڑھ کر فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے، وہ ہمارے صدر مشرف ہیں. انہوں نے ۳۳ فیصد عورتوں کو اسمبلیوں میں بٹھانے کا جو قدم اٹھایا ہے، ایسا تو آج تک دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوا. کسی مسلمان ملک تو کجا، امریکہ میں نہیں ہے جو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے. ہندوستان میں بھی نہیں ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں جمہوریت کا ہونا ایک معجزہ ہے. خواندگی کی شرح اتنی کم ہے، لیکن پھر بھی جمہوریت کام کر رہی ہے. وہاں پہلے دن جو گاڑی دستور کی پٹڑی پر چلنی شروع ہوئی تھی، وہ آج تک چل رہی ہے. وہاں کبھی کوئی فوجی حکومت نہیں آئی. ایک بار تھوڑے سے عرصے کے لیے ایمبرجنسی لگی تھی، لیکن وہ کوئی بالائے دستور کام نہیں تھا. وہاں یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک آیا تو سارا دستور ختم کر کے اپنا بنا رہا ہے، دوسرا آیا تو پھر سارا دستور ختم کر کے ججوں سے پی سی او کے تحت حلف اٹھوا رہا ہے. یہ کھیل پاکستان میں ہوا ہے. اب اس میں سب سے بڑھ کر انہوں نے یہ کیا ہے کہ عورتوں کو گھر سے نکالو، انہیں میدان کے اندر لائو. جو نہیں دیکھنا چاہتے وہ آنکھیں بند کر لیں. قدامت پرست، انتہا پسند لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عورت کا جسم ڈھکا رہے، اورعورت برقعے اور پردے کے ساتھ گھر سے نکلے. ان دقیانوسی اور تاریک خیال ملائوں کے پیروکاروں کا زمانہ گزر گیا. یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں، روشن خیالی ہر حال میں ہو گی. جیسے کبھی اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھاکہ: ؎

چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں
بات وہ ہے جو پانئیر میں چھپے

اسی طرح آج تہذیب وہ ہے جو یورپ کی ہے. علامہ اقبال نے کہا اس کا 
Inner Core اسلامی اور قرآنی ہے، لیکن اس کے گرد جو غلاف چڑھا دیئے گئے ہیں وہ انتہائی خطرناک ہیں. اس آزادی کو مادر پدر آزاد بنا دیا گیا ہے کہ اللہ سے آزاد، اخلاقی حدود و قیود سے آزاد، شرم و حیا کی قیود سے بھی آزاد. آج اس سارے نظام کا نام روشن خیالی ہے. حالانکہ یہ تاریک ترین خیال ہے. انسان اپنی عظمت اور اشرف المخلوقات کے منصب سے حیوانیت کی طرف رجوع کر رہا ہے.اس ضمن میں، ہماری موجود حکومت سب سے بازی لے گئی ہے. پوری اسلامی دنیا میں ہمارے حکمران اس نئی تہذیب کے سب سے بڑے آلۂ کار ہیں. ان کے نزدیک سیاست سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں رہا. سود کی حرمت کی بات کرنے پر کہا جاتا ہے کہ پرانی دنیا کی باتیں کرتے ہو، آج تو یہی چلے گا. حکومت کی پوری پالیسی امریکہ ڈکٹیٹ کر رہا ہے. نائن الیون کے بعد ہم نے ایک دم جو یوٹرن لیا تھا، اس سے ہر چیز تلپٹ ہو گئی ہے. ہماری مذہبی جماعتوں کا کردار بھی بہت مشکوک اور غلط ہے. میرے نزدیک وہ اس چیز کے مجرم ہیں کہ جب پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کو ۳۳ فیصد نمائندگی دینے کا فیصلہ ہوا تو کسی نے اس کے خلاف بیان تک نہیں دیا. دراصل ان کی گھٹی میں انتخابات ایسے پڑ گئے ہیں کہ انہوں نے سوچا اگر ہم نے کوئی مظاہرہ کیا یا اس کے خلاف آواز اٹھائی تو کہیں انتخابات ملتوی ہی نہ ہو جائیں.جنرل مشرف نے ہمارے سیاسی اور معاشرتی نظام کے اندر اتنی بڑی چھلانگ لگائی اور یہ کچھ نہ بولے.

اسی انتظام کے تحت الیکشن بھی لڑے، اسی کے تحت عورتوں کی سیٹوں کے لیے بھی مقابلہ کیا. مزید یہ کہہ دیا کہ ہم طالبان نہیں ہیں. جن شہداء کے خون کی بدولت انہیں اقتدار ملا ہے آج انہی سے اعلانِ براء ت کر رہے ہیں جو کچھ مشرف نے کیا ہے وہی یہ کر رہے ہیں. کہا جا رہا ہے کہ ہم طالبان نہیں، ہم عورتوں کو برقع اوڑھنے پر مجبور نہیں کریں گے. کیوں؟ اسلام میں پردہ ہے یا نہیں؟ انہیں کم از کم صوبہ سرحد میں، جہاں سو فیصد ان کی حکومت ہے، وہاں تو شریعت نافذ کرنی چاہئے. سعودی عرب میں آج بھی شرعی قوانین نافذ ہیں. وہاں گھر کے اندر ان کی عورتیں بالکل یورپین لباس میں ہوتی ہیں لیکن جب باہر نکلتی ہیں تو برقع لے کر نکلتی ہیں. بہرحال حکومت تو جو کچھ کر رہی ہے، لیکن ہماری دینی جماعتوں کا رول بھی صحیح نہیں ہے.اب سوچنا یہ ہے کہ کرنا کیا چاہئے! اس سلسلے میں افراد کو اٹھنا پڑے گا. انہیں وہ کچھ کرنا ہو گا جو ساٹھ ستر سال پہلے مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا.اپنی تہذیب کے دفاع میں کھڑا ہونا پڑے گا، لیکن جب تک خالص اسلام کے حوالے سے تحریک نہیں چلے گی کوئی فائدہ نہیں ہوگا. گڈ مڈ کر کے تحریک چلائیں گے تو گڈ مڈ نتیجہ نکلے گا. ایوب خان ہٹے گا تو یحییٰ آجائے گا، یحییٰ خان جائے گا تو بھٹو صاحب آ جائیں گے، اسی طرح کے لوگ آتے رہیں گے. اکبر اٰلہ آبادی نے کہا تھا ؎

ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

یہ پوری تہذیب ہم پر ٹھونسنے کا جو معاملہ ہو رہا ہے یہ لائق ضبطی ہے. یہ دو اشعار مجھے بہت پسند ہیں ؎

میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں الجھ کر اکثر
تم نے اسلاف کی عزت کے کفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے!

اصل تہذیب تو ہماری تھی. مغرب کی کیا تہذیب ہے! وہاں تو تہذیب کا بیڑا غرق ہو چکا ہے. آج مغرب ٹیکنالوجی میں اپنی برتری کی بنیاد پر کھڑا ہے، تہذیب کی بنیاد پر نہیں. ان کی تہذیب تو سنڈاس بن چکی ہے. جس ملک کا صدر یہ کہتا ہو کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہو گی وہاں تہذیب کہاں رہی! اقبال کا کہنا غلط نہیں تھا کہ ع ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی‘‘. ان کی تہذیب مر چکی ہے، البتہ ان کا تمدن ابھی کچھ کھڑا ہے، سیاسی نظام میں کچھ جان ہے . یہ ساری طاقت بھی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ہے، جس کی اقبال نے پیشین گوئی کی تھی کہ ؎

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

یہ وہ درندے ہیں جن کی درندگی پہلے افغانستان میں دیکھ لی گئی، اب عراق میں دیکھی جا رہی ہے. اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس معرکۂ روح و بدن میں ہم عملی طور پر کام کرتے ہوئے میدان میں نکلیں.