موضوع کے حوالے سے ہمیں سب سے پہلے یہ معین کرنا ہو گا کہ موجودہ عالمی حالات کیا ہیں؟ میرے نزدیک عالمی حالات کی تین سطحیں ہیں اور پہلی سطح جو سب سے نمایاں اور اکثر لوگوں کے علم میں ہے کہ امریکہ اس وقت کرہ ارضی کی واحد سپریم طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے.اس کی حربی قوت کا کوئی اندازہ ممکن نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا تکبر اور غرور اس درجہ بڑھ چکا ہے کہ اسے عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں کی نہ فکر ہے نہ لحاظ. اب اسے اپنے اتحادیوں کی رائے کا بھی کوئی لحاظ نہیں. عراق کے خلاف جنگ کے لیے امریکہ اور یورپ کے اندر وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے مگر امریکی حکومت نے ان مظاہروں کو پرکاہ کے برابر واقعت نہ دی. UNO ساتھ چلنے کے لیے تیار نہ ہوئی تو اس نے اس کو بھی دھکا دیا کہ سمجھتے رہو، ہم سب کچھ تنہا کرنے پر قادر ہیں. امریکہ اپنی حربی قوت کے اعتبار سے ایک مست ہاتھی کی مانند ہے جس کا مقابلہ کرنے کی حیثیت نہ یورپ میں ہے اور نہ جاپان میں. عالم اسلام کا تو ذکر ہی کیا. دوسری سطح پر ایک عالمی نظام ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ نظام بے خدا ہی نہیں، خلاف خدا بھی ہے یعنی سیکولرازم اور اس نظام کی تین بنیادیں ہیں. اس کی پہلی بنیاد ہے کہ کسی بھی معاشرے کے اجتماعی معاملات میں، ریاست اور حکومت کی سطح پر قانون سازی کے مرحلے میں کسی خدا، کسی آسمانی ہدایت، کسی وحی اور کسی شریعت کو کوئی دخل نہیں. گویا کہ پورے اجتماعی نظام سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو بے دخل کر دیا گیا. سیکولرزم کی دوسری بنیاد کا تعلق معاشی نظام سے ہے یعنی پوری دنیا کا معاشی نظام سود کی لعنت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام پر قائم ہو، سود کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن جوا ہے. دنیابھرمیں سٹاک ایکسچینج اور دولت کی الٹ پھیر کی بنیاد یہی جوا ہے اور جوئے کے بعد تیسرا ستون انشورنس ہے.

تیسری بنیاد کا تعلق بے حیائی، عریانی، فحاشی اور آزاد جنس پرستی پر مبنی سماجی نظام ہے جس میں جنس پرستی مرد اور عورت کے درمیان (Hetrosexual) ہو چاہے دو عورتوں (Lesbians) کے درمیان ہو اور چاہے مردوں (Gays) کے درمیان ہو اس کی کھلی اجازت ہے جس کے نتیجے میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہےـ.اس کے علاوہ مادر پدر آزاد سماجی نظام ہے جس میں طوائفانہ زندگی (Prostitution) کو بھی ایک قابل احترام پیشہ تصور کیا جاتا ہے. فحاشی و عریانی کے اس سیلاب کو یونائیٹڈنیشنز اسمبلی نے سوشل انجینئرنگ (سماجی تعمیر) کا نام دیا ہے اور اس کا ہدف بھی شمالی افریقہ اور خاص طور پر ایشیاء کے مسلمان ممالک ہیں. کیونکہ ان ممالک میں بحیثیت مجموعی خاندانی نظام بھی برقرار ہے. شرم و حیا کی کچھ نہ کچھ وقعت اور قیمت ہے، عفت اور عصمت کی کوئی قدر ہے. موجودہ عالمی حالات کی تیسری سطح پر ایک مذہبی کشاکش ہے. یہ کشاکش ذرا خفیہ ہے اور اس کشاکش میں سب سے مؤثر اور نمایاں کردار یہودیوں کا ہے جو اس وقت عالم انسانیت کی عظیم ترین سازشی قوت ہے. یہودیوں کا پروگرام ہے کہ پوری دنیا پر ان کا براہِ راست فوجی نہیں بلکہ اقتصادی قبضہ ہو جائے. مزید برآں ان کا پروگرام ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی ریاست گریٹر اسرائیل قائم کریں پھر مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کو شہید کر کے اس کی جگہ تیسرا ہیکل سیلمانی تعمیر کیا جائے اور اس میں حضرت دائود علیہ السلام کا تخت لا کر رکھا جائے. یہودیوں کے اس پلان میں عیسائی قوتیں ان کی تابع بن چکی ہیں اور موجودہ حالات میں عیسائیوں اور یہودیوں کا مشترکہ دشمن اسلام اور مسلمان ہیں اور سب سے بڑا ٹارگٹ پاکستان ہے اور اس اسلام اور پاکستان مخالف گٹھ جوڑ میں بھارت بھی شامل ہے.

اب عالمی حالات کے بعد ذرا پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں کہ ’’کیا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے او راس کا مستقبل مخدوش ہے؟ اور کیا ابھی پاکستان اور پاکستانی قوم کی نجات کا راستہ کھلا ہے؟ ان دونوں سوالوں کے بارے میں میرا جواب ’’ہاں‘‘ ہے اور میرا مؤقف ہے کہ پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی (Count Down) شروع ہو چکی ہے اور اس کے اسباب کو میں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں. پہلا اصل اور بنیادی اور داخلی اور دوسرا فوری اور خارجی. پہلا سبب یہ ہے کہ مؤسسین پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ’’ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ عہد حاضر میں اسلام کے اصول حریت و اخوت ومساوات کا ایک عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں تاکہ ایک لائٹ ہائوس وجود میں آسکے.‘‘ مگر ہم نے پاکستان کے قیام کے اصل مقصد کو بھلا دیا اس کا عقلی اعتبار سے یہ نتیجہ ہے کہ پاکستان اپنی وجہ جواز کھو چکا ہے اور اس وقت ہم بے بنیاد ہیں اور مذہبی اعتبار سے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے نظام کو نافذ نہ کر کے اس سے وعدہ خلافی کی ہے اور جب کوئی قوم اللہ سے وعدہ خلافی کرے تو اس میں اجتماعی طور پر نفاق اور منافقت کا مرض پیدا کر دیا جاتا ہے اور نفاق اللہ کو کفر سے زیادہ ناپسند ہے. دنیا بھر میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا پیشین گوئیاں ہو رہی ہیں سب سے پہلے ایک مسلمان مصنف سید ابوالمعالی کی کتاب (The Twin Eras of Pakistan) کا حوالہ دوں گا جو 1992ء میں شائع ہوئی تھی. مصنف نے اپنی اس کتاب میں مجموعی تأثر دیا ہے کہ 2006ء میں پاکستان آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا. دوسری پیشین گوئی امریکہ کی وزارت خارجہ کی پالیسی ونگ کے تھنک ٹینک کی ہے جس میں امریکہ کے سب سے اونچے پندرہ اداروں کے سربراہ شامل ہیں کہ 2020 میں پاکستان نام کا کوئی ملک نہیں رہے گا. تیسری پیشین گوئی رابرٹ کیلان کی ہے جس نے 2000ء میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا کہ پاکستان ہر اعتبار سے ناکام ریاست ہو چکا ہے اور اس میں جلد خانہ جنگی شروع ہوجائے گی. یہ پیشین گوئیاں وحی تو نہیں، ان کے غلط ہونے کا امکان ہے لیکن اس میں ان سازشوں کا انعکاس موجود ہے جو فضا کے اندر موجود ہیں. ؏ 

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

دوسرے خارجی اور فوی سبب کے پیچھے اصل قوت یہود اور اسرائیل کی ہے جو پاکستان کا خاتمہ چاہتے ہیں اور کم از کم یہ کہ اس کا ایٹمی اثاثہ ختم کر دیا جائے تاکہ پاکستان 
بھارت کا طفیلی ملک بن کر رہ جائے. صدر مشرف اور ان کے حواری سمجھ رہے ہیں کہ ہماری باری نہیں آئے گی. انہیں جان لینا چاہئے ہماری باری تو آ کر رہے گی. ایٹمی اثاثوں کی جو صورت بن چکی ہے وہ بہت مخدوش ہے. ہمارے خلاف بھرپور مقدمہ تیار ہو چکا ہے کہ دنیا میں ایٹمی پھیلائو کا مرکز پاکستان ہے اور ہم نے اپنے بڑے سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ٹیلی ویژن پر اعتراف کروا کر اس الزام کو تسلیم بھی کر لیا ہے اور ایک موقع پر صدر مشرف بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان پر حملہ ہو سکتا ہے.

ان مایوس کن حالات میں بچائو اور نجات کا راستہ کھلا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم حکومتی اور عوامی سطح پر توبہ کریں اور پلٹیں اللہ کی طرف اور پاکستان کے قیام کے مقصد یعنی اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم کریں. میں یہ نہیں کہتا کہ اسلام کو ایک دم یا ایک دن میں نافذ کرو اور یہ ایک دم ہونے والی بات بھی نہیں ہے. لیکن ایک عزم صادق کا آغازتو ہو. حکومت کی سطح پر توبہ کی صورت یہ ہے کہ طے کر دیا جائے: 

No legistation will be done repugnant to the Quran and Sunnah 

یعنی کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں کی جائے گی اور 
Existing قوانین بھی خلاف شریعت ہیں تو انہیں ختم کیا جائے جبکہ عوامی سطح پر توبہ یہ ہے کہ عوام انفرادی سطح پر حرام سے اجتناب اور حلال پر اکتفا اور فرائض دینی کی ادائیگی کا فیصلہ کریں. بے حیائی، بے شرمی، فحاشی و عریانی سے بچیں اور مغربی تہذیب کو مکمل طو رپر خیرباد کہہ دیں.