لفظ ’’مذہب‘‘ اور لفظ ’’دین‘‘ میں مفہوم کے اعتبار سے بڑا فرق ہے، اگرچہ ہمارے ہاں عام طور پر اسلام کو مذہب کہا جاتا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے قرآن مجید اور حدیث کے ذخیرہ میں اسلام کے لیے مذہب کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا، بلکہ اس کے لیے ہمیشہ ’’دین‘‘ ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے. سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا ’’اللہ کی بارگاہ میں مقبول دین تو صرف اسلام ہے.‘‘ دین اور مذہب میں بنیادی فرق کو سمجھ لیجئے! مذہب ایک جزوی حقیقت ہے. یہ صرف چند عقائد اور کچھ مراسم عبودیت کے مجموعے کا نام ہے جبکہ دین سے مراد ہے ایک مکمل نظام زندگی جو تمام پہلوئوں پر حاوی ہو. گویا مذہب کے مقابلے میں دین ایک بڑی اور جامع حقیقت ہے. اس پس منظر میں اگرچہ یہ کہنا تو شاید درست نہ ہو گا کہ اسلام مذہب نہیں ہے، اس لیے کہ مذہب کے جملہ (Elements) بھی اسلام میں شامل ہیں، اس میں عقائد کا عنصر بھی ہے،ایمانیات ہیں، پھر اس کے مراسم عبودیت ہیں، نماز، روزہ ہے، حج اور زکوٰۃ ہے، چنانچہ صحیح یہ ہو گا کہ یوں کہا جائے کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں، ایک دین ہے. اس میں جہاں مذہب کا پورا خاکہ موجود ہے وہاں ایک مکمل نظام زندگی بھی ہے. لہٰذا اسلام اصلاً دین ہے.

اب اس حوالے سے ایک اہم حقیقت پر بھی غور کیجئے کہ کسی ایک خطہ زمین میں مذاہب تو بیک وقت بہت سے ہو سکتے ہیں لیکن دین ایک وقت میں صرف ایک ہی ہو سکتا ہے. یہ کیسے ممکن ہے کہ سرمایہ دار نظام اور اشتراکی نظام کسی خطہ زمین پر یا کسی ایک ملک میں بیک وقت قائم ہوں! حاکمیت تو کسی ایک ہی کی ہو گی. یہ نہیں ہو سکتا کہ ملوکیت اور جمہوریت دونوں بیک وقت کسی ملک میں نافذ ہو جائیں. اللہ کا نظام ہو گا یا غیر اللہ کا ہو گا. نظام دو نہیں ہو سکتے. جبکہ خطہ زمین میں مذاہب بیک وقت بہت سے ممکن ہیں. ہاں نظاموں کے ضمن میں ایک امکانی صور ت پیدا ہو سکتی ہے. کہ ایک نظام غالب و بر تر ہو اور وہی حقیقت میں ’’نظام‘‘ کہلائے گا اور دوسرا نظام سمٹ کر اور سکڑ کر ایک مذہب کی شکل اختیار کر لے اور اس کے تابع زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جائے. جیسے علامہ اقبال ؒنے فرمایا:

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی!

دین جب مغلوب ہوتا ہے تو ایک مذہب کی شکل اختیار کر لیتا ہے. اس صورت میں وہ دین نہیں رہتا بلکہ مذہب بن جاتا ہیـ. بالکل اسی طرح جیسے کہ اسلام کے دورِ عروج میں غالب نظام تو اسلام کا تھا، لیکن اس دین کے تابع یہودیت، مجوسیت اور نصرانیت مذاہب کی حیثیت سے برقرار تھے. انہیں یہ رعایت دی گئی تھی اور صاف الفاظ میں سنا دیا گیا تھا کہ اگر وہ اسلامی حدود کے اندر رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا ہو گا اور چھوٹے بن کر رہنا ہو گا. ’’یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے اور چھوٹے بن کر رہیں.‘‘ (التوبہ ۲۵) ملکی قانون اللہ کا ہو گا، غالب نظام اللہ کا ہو گا، اس کے تحت اپنے پرسنل لاء میں او راپنی ذاتی زندگی میں محدود سطح پر وہ اگر اپنے مذاہب اور اپنے عقائد و رسوم کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہیں تو اس کی انہیں اجازت ہو گی. اسلام کے دورِ زوال و انحطاط میں یہ صورت برعکس ہو گئی. یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس برصغیر میں دین انگریز کا تھا. دین انگریز کے تحت اسلام نے سمٹ کر ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی تھی کہ نمازیں جیسے چاہو پڑھو، انگریز کو کوئی اعتراض نہ تھا، اذانیں بخوشی دیتے رہو، وراثت اور شادی بیاہ کے معاملات بھی اپنے اصول کے مطابق طے کر لو، لیکن ملکی قانون انگریز کی مرضی سے طے ہو گا. یہ معاملہ تاج برطانیہ کی بادشاہت کے تحت ہو گا، اس میں تم مداخلت نہیں کرسکتے! یہ تھا وہ تصور جس کے بارے میں علامہ اقبال نے بڑی خوبصور ت 
پھبتی چست کی تھی. ؏

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

یعنی اسلام آزاد کہاں ہے؟ وہ سمٹ سکڑ کر اور اپنی اصل حقیقت سے بہت نیچے اتر کر ایک مذہب کی شکل میں باقی ہے.
دین ہے ہی وہ کہ جو غالب ہو. اگر مغلوب ہے تو دین نہیں رہے گا، بلکہ ایک مذہب کی صورت میں سمٹ جائے گا، اور سکڑ جائے گا. اس کی اصل حیثیت مجروح ہو جائے گی. اس پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نظام بھی اگر صرف نظری اعتبار سے پیش کیا جا رہا ہے، صرف کتابی شکل میں نسل انسانی کو دیا گیا ہو تو وہ ایک خیالی جنت کی شکل اختیار کر سکتا ہے، لیکن حجت نہیں بن سکتا. نوعِ انسانی پر حجت وہ صرف اس وقت بن سکتا ہے جب اسے قائم کر کے، نافذ کر کے اور چلا کر دکھایا جائے.