پاکستان کا موجودہ قومی انتشار اور اس کا حل

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے قیام اور استحکام کا واحد جواز اسلام ہے. پاکستان میں بسنے والوں کی زبانیں، قومیتیں اور ثقافتیں مختلف ہیں لہٰذا ان کے درمیان واحد مشترک رشتہ صرف اور صرف اسلام کا ہے. بدقسمتی سے ہم نے یہاں اس کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں کی لہٰذا ہمارے درمیان زبان اور نسل کی بنیاد پر عصبیتوں نے نفرت پیدا کی اور 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو گیا. سورۃ السجدہ کی آیت 21 میں ارشاد ربانی ہے: کہ ’’ہم انہیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے شاید کہ وہ باز آ جائیں.‘‘ 1971ء میں چھوٹا عذاب آیا. بدترین شکست کے کلنک کا ٹیکہ ہمارے ماتھے پر لگا لیکن ہم ہوش میں نہیں آئے، ہمارے طور و اطوار نہیں بدلے، ہمارے روز و شب کے انداز نہیں بدلے اور ہماری سوچ نہیں بدلی، اب شاید بڑا عذاب ہمارے سر پر آ گیا ہے. آج بھی صوبائی اور لسانی عصبیتیں زہر گھول رہی ہیں اور پاکستان کی سیاست شدید خطرات سے دو چار ہے. سورۂ انعام کی آیت 65 کے مطابق عذاب کی تین صورتیں ہوتی ہیں. اس آیت میں فرمایا گیا ’’اے نبیؐ !ان سے کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے اتار دے (یعنی آسمان سے) یا تمہارے قدموں کے نیچے سے (یعنی زمین سے جیسے سونامی) یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑا دے اور ایک کی طاقت کا مزہ دوسرے کو چکھا دے‘‘ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان پر تباہی کے بادل ہر چہار طرف سے آ رہے ہیں. بلوچستان کی صورتحال سب کے سامنے ہے. بلوچستان میں سرداری نظام ہے. عوام بنیادی سہولتیں اور تعلیم سے محروم ہیں اور انہیں اپنے حقوق کا شعور ہی نہیں. وہ پوری طرح سے سرداروں کے تابع ہیں. سرداروں میں شدید احساس محرومی ہے. یہ احساس محرومی بار بار اٹھتا رہا ہے. گریٹر بلوچستان کی تحریک بڑے زور شور کے ساتھ سابق سوویت یونین کے تعاون سے وہاں چلتی رہی. سوویت یونین کے ختم ہونے سے یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ تحریک اب ختم ہو گئی لیکن معاملہ وہی تھا کہ ’’آگ دبی ہوئی سمجھ آگ بجھی ہوئی نہ جان‘‘ ان میں احساس محرومی کی وجہ صوبائی خود مختاری کا معاملہ ہے. ہمارے ہاں صوبوں کی تقسیم غیر فطری، غیر منطقی اور غیر معقول ہے. ایک صوبہ تعداد آبادی کے اعتبار سے بقیہ تینوں صوبوں سے بڑا ہے. وہ تعلیم اور ملازمتوں کے اعتبار سے انگریز دور سے ترقی یافتہ تھا.

اس کا ایک خاص سبب تھا پورے ہندوستان میں مسلمانوں سے انگریزوں نے حکومت چھینی تھی لیکن پنجاب میں آ کر انگریزوں نے مسلمانوں کو سکھا شاہی سے نجات دی. زمین و آسمان کا فرق ہو گیا. انگریز پنجاب میں مسلمانوں کا محسن بن کر آیا. سندھ میں اس نے مسلمانوں یعنی تالپوروں سے حکومت لی. لہٰذا سندھ میں انگریزوں کے لیے اچھے جذبات کبھی پیدا نہیں ہو سکے. اس فرق کو ذہن میں رکھیں. انگریز نے پنجاب کو عسکری و تعلیمی اعتبار سے ترقی دی. پاکستان بننے کے بعد زیادہ تعلیم کی وجہ سے پنجاب میں زیادہ ترقی ہوئی. اس میں کسی بدنیتی کا دخل نہیں لیکن اس کی وجہ سے بقیہ صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا. ہم نے اپنی تاریخ میں صوبوں کو اتنا مقدس مقام دیا ہوا ہے کہ گویا صوبے آسمان سے نازل ہوئے ہیں. کمشنریاں نئی بن گئیں، ضلع نئے بن گئے، تحصیلیں اب ضلع بن گئیں لیکن صوبوں کو ہاتھ نہیں لگانا. یہ کوئی آسمان سے لکھا ہوا تو نہیں آیا کہ آپ کو ان صوبوں کو لازماً برقرار رکھنا ہے. ہم صوبوں کو تقسیم کر رہے ہیں اور نہ ہی انہیں اختیارات دے رہے ہیں. سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں. اگر ہم چھوٹے صوبے بناتے اور انہیں خود مختاری دیتے تو کسی صوبہ میں احساس محرومی پیدا نہ ہوتا. اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ بلوچستان میں احساس محرومی کا لاوا پوری طرح پک 
کر پھٹ رہا ہے. اس کی دو شکلیں سامنے آ رہی ہیں. ایک عسکری محاذ ہے اور دوسرا سیاسی محاذ، عسکری محاذ پر بلوچ لبریشن آ رمی ہے اور سیاسی محاذ پر ہیں سردار. بلوچ لبریشن آرمی اہم تنصیبات پر حملے کر رہی ہے اور اس کی پشت پر بین الاقوامی قوتیں ہیں. روزنامہ جنگ کے کالم نگار حامد میر نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ایک بلوچ نوجوان کو روزگار کے بہانے دبئی لے جایا گیا. دبئی سے جعلی افغانستان پاسپورٹ پر بنکاک پہنچایا گیا وہاں بہت سے نوجوان اور بھی تھے ان نوجوانوں کی وہاں ذہن سازی کی گئی اور انہیں سید ابوالمعالی کی کتاب (The twin era of pakistan) سبقاً سبقاً پڑھائی جا رہی ہے. اس کتاب کا میں کئی سال سے تذکرہ کرتا رہا ہوں. یہ کتاب 1996ء میں شائع ہوئی اور اس میں لکھا گیا کہ 2006ء میں پاکستان کے 8ٹکڑے ہو جائیں گے. ان میں خوشحال ترین علاقہ آزاد بلوچستان کا ہو گا. اس کے آثار اب صاف نظر آ رہے ہیں. وہاں میگا پروجیکٹس لگائے جا رہے ہیں. سرمایہ وہاں جا رہا ہے. گویا بلوچستان کو علیحدہ کرنا ایک بین الاقوامی سازش ہے. البتہ بیرونی سازش ہمیشہ کسی نہ کسی اندرونی مسئلہ پر انحصار کرتی ہے کہیں کوئی دکھتی رگ پکڑتی ہے. بین الاقوامی سازش کا مقصد اس علاقہ کے بے بہا معدنی وسائل پر قبضہ کرنا اور اس علاقے کو ہانگ کانگ کا متبادل بنانا بھی ہو سکتا ہے اب بلوچستان کی صورتحال ایک Dilemma بن چکی ہے. اگر طاقت استعمال نہ کی جائے تو گویا کہ پسپائی ہے اور وہ سازش آرام سے Red carpet پر چلتی ہوئی کامیاب ہو جائے گی. اگر طاقت استعمال کی جائے تو رد عمل ہو گا. مذاکرات جتنے ہو رہے ہیں سب میں ناکامی ہو رہی ہے. عطاء اللہ مینگل صاحب نے کہہ دیا بگٹی صاحب سے بات کرو. بگٹی صاحب نے کہہ دیا ہم بندوق کی نوک پر بات کرنے کو تیار نہیں. گویا کہ حکومت پاکستان بندوق استعمال نہ کرے لیکن مخالفین تو کر رہے ہیں، یہ ہے Delemma یعنی عقدہ لاینحل. طاقت استعمال کریں گے. تب رد عمل ہو گا، طاقت استعمال نہ کریں تو پسپائی ہو گی. اب اس سے ذرا اوپر چلئے. بلوچستان سے تقریباً ملحق وزیرستان ہے. وزیرستان میں کتنا عرصہ ہو گیا کہ مٹھی بھر غیر ملکیوں پر فوج کشی ہو رہی ہے. مسئلہ تو حل نہیں ہو رہا ہے. آپ ان لوگوں کو قتل کر رہے ہیں جو آپ کے اور امریکہ کے محسن تھے. وہ روسیوں سے جہاد کے نام پر لڑنے کے لیے آئے تھے. یہ کون لوگ ہیں؟ اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیوں آئے تھے؟ یہ اسلام کے نام پر آئے تھے اور جہاد کے لیے آئے تھے. آج آپ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں مار رہے ہیں تو کیا فطرت انسانی اسے قبول کرتی ہے؟ یاد رکھیے جو جتنا تمدن سے دور ہوتا ہے وہ اتنا ہی فطرت کے قریب ہوتا ہے بقول اقبال:

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی

اب ذرا اور اوپر چلئے. شمالی علاقہ جات میں سے گلگت میں تو شیعہ سنی فساد ہوتا تھا اس بار خپلو اور اسکردو میں بھی ہوا ہے. یہ علاقے تو بالکل ہندوستان کی سرحد کے ساتھ لگے ہوئے ہیں. ان علاقوں میں فسادات نے وہ صورت اختیار کی کہ کرفیو لگانا پڑا یہ وہ عذاب ہے جس کے بارے میں قرآن میں کہا گیا کہ اللہ تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور تم میں سے بعض کو بعض کی طاقت کا مزہ چکھا دے. اب ذرا نیچے اتریئے. کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ بگلیہار ڈیم پر مذاکرات کا ناکام ہو چکے ہیں. اب بھارت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہو گی کہ ان کا مطالبہ ’’ٹائم بار‘‘ ہو چکا ہے. اتنے عرصے سے ہم ڈیم بنا رہے ہیں یہ کیوں نہیں بولے. ہمارا تنا پیسہ وہاں خرچ ہو چکا. وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوں گے اور کیا دنیا کی کوئی طاقت انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتی ہے؟ نتیجہ کیا ہوگا؟ پنجاب کے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے چناب ہے. اگر بھارت نے اس کا پانی روک لیا تو پنجاب کا بیشتر علاقہ صحرا بن جائے گا. ہماری حکومت نے کشمیر پر جو بھی امیدیں ہمیں دلائی تھیں وہ سب خاک میں مل چکی ہیں. بھارت نے کہہ دیا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے ہمارے سیکولرازم کی نشانی ہے ہم اس میں کوئی تبدیلی گوارا نہیں کرتے؟ گویا کہ یہ ساری جو خیرسگالی کی فضا بنی تھی، یکطرفہ طو رپر بھارت اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے کہ آنا جانا ہو، تجارت ہو، فنکاروں کی آمدورفت ہو، محبت کے ترانے ہوں، 
ثابت کیا جائے کہ ہم تو ایک ہی تھے تقسیم خواہ مخواہ ہو گئی. من موہن سنگھ نے کئی بار کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیوار برلن ختم کرنا میرا مقصد ہے. گویا بھارت پاکستان کی سرحدیں ختم کر کے اور پھر ہمیں کھینچ کر اپنے ملک کے اندر شامل کر کے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ پروگرام کے تحت عمل کر رہا ہے. مختصر یہ کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی امید جو ذرا پیدا ہو گئی تھی اب اس کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ بھارت کسی درجے میں کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں. ہمارے ہاں کچھ لوگ جمہوریت کو ان تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں.

میری رائے میں پاکستان کی بقا صرف اور صرف اسلامی انقلاب میں ہے. البتہ جب تک کوئی انقلاب نہیں آتا، جمہوریت ہونی چاہئے، ورنہ چھوٹے صوبوں کے اندر احساس محرومی بڑھے گا. اگر انہیں بات کرنے کا موقع ہو، جمہوری حقوق حاصل ہوں، مطالبوں کے لیے جلسے کریں، جلوس نکالیں تو غبار اندر سے نکل جاتا ہے، بھڑاس نکل جاتی ہے، ورنہ لاوا اندر ہی اندر پک کر پھٹ پڑتا ہے. البتہ ہمارے لیے پناہ کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم اسلام کی طرف پیش قدمی کریں. کسی بلندتر مقصد کے لیے انسان چھوٹے مفادات کی قربانی دے دیتا ہے جب کوئی مقصد سامنے نہ ہو تو پھر مفادات اور مصلحتیں ہی رہ جائیں گی اور ان میں ٹکرائو تو ہونا ہی ہے. ہماری محرومی ہے کہ ہم اسلام کی طرف سوچنے کو تیار ہی نہیں. خدارا سوچئے! وہ مقصد کہاں ہے جس کے لیے پاکستان بنایا تھا؟ نوجوان نسل سوال کرتی ہے کہ پاکستان کیوں بنایا تھا؟ جو ماحول بھارت میں ہے وہی یہاں ہے بینکنگ کا وہی نظام وہاں بھی ہے جو یہاں ہے، وہی ملٹی نیشنل تنظیمیں وہاں بھی ہیں یہاں بھی ہیں، مسجدیں وہاں بھی ہیں یہاں بھی ہیں، پھر آخر کیوں اتنی جانیں دے کر اور عصمتیں لٹا کر پاکستان بنوایا. میرے نزدیک ہمارے مسائل کا حل صرف توبہ میں ہے. انفرادی توبہ یہ ہے کہ اپنے کردار سے خلاف شریعت کاموں کو نکال دیا جائے. دوسری ہے اجتماعی توبہ. میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آجائے گی اور قوم یونس ؑ کی طرح اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول فرما لے گا. قوم یونس ؑ پر عذاب کے آثار شروع ہو گئے تھے لیکن انہوں نے توبہ کی اور اللہ نے ان پر سے عذاب ٹال دیا.