دین نام ہے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرنے اور اس کے پیارے رسول : کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کا. اگر اس اصول کو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر دل و جان سے قبول کر لیں تو ہمارے معاشرے میں تفرقے کا نام و نشان مٹ جائے گا. البتہ اختلاف کی گنجائش بہرحال موجود رہے گی. اس اختلاف کو نبی اکرم : نے اپنی امت کے لئے رحمت قرار دیا ہے. یہ اختلاف اہل سنت کے مختلف مسالک اور مذاہب کے درمیان بھی ہے جو نسبتاً کم ہے اور اہل تشیع کے ساتھ اہل سنت کا اختلاف نسبتاً گہرا ہے. جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے یہ دونوں مذاہب کے مابین مشترک ہے اگرچہ اہل سنت حضرات میں یہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ شیعہ حضرات قرآن کو بھی صحیح نہیں مانتے. مولانا منظور نعمانی نے اس موضوع پر بڑی مفصل کتاب بھی لکھی ہے. لیکن اہل تشیع حضرات کا عمومی اور مستند مؤقف یہ ہے کہ نہیں ہم اسی قرآن کریم کو برحق مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہمیں ان کا وہی مؤقف درست تسلیم کرنا چاہئے جو ان کی زبان سے ادا ہو رہا ہے. چنانچہ ’’کتاب‘‘ ہمارے اور ان کے مابین مشترک ہے. البتہ جہاں تک حدیث کا معاملہ ہے‘ ان کے اپنے مجموعے ہیں. یہاں دونوں مسالک کے درمیان فرق آتا ہے اور اختلاف گہرا ہو جاتا ہے. لیکن یہ بھی تفرقہ نہیں ہے. تفرقہ تو تب ہوگا ‘جب سنت کا انکار کیا جائے. رسول : کی مہر نبوت کو توڑا جائے. یہاں اختلاف نسبتاً گہرا ہے ‘کیونکہ جب کسی مسئلے پر گفتگو ہو گی اور استدلال کا معاملہ ہو گا.

تو دونوں جانب سے حدیثیں پیش کی جائیں گی‘ جو حدیثیں شیعہ پیش کریں گے .وہ اہل سنت کے نزدیک معتبر نہیں ہوں گی اور جو حدیثیں اہل سنت کے نزدیک معتبر اور معتمد علیہ ہیں وہ اہل تشیع کے نزدیک قابل اعتبار نہیں. چنانچہ اسی اختلاف کی آڑ میں ملک دشمن طاقتوں نے اپنا کھیل کھیلا ہے اور ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کرنے کے لئے شیعہ سنی اختلاف کو ایک اہم کمین گاہ اور ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے اور میں صاف صاف عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ معاملہ داخلی نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے باہر ہیں. (Samuel P. Huntington) جو اس وقت امریکہ کا ایک بہت بڑا سیاسی مبصر اور مشیر ہے‘ اس کے ایک بہت بڑے مقالے Clash of Civilizatoins کا اس وقت دنیا میں بڑا چرچا ہے. اس کے نزدیک اب دنیا میں قوموں اور ملکوں کا ٹکرائو نہیں ہوگا بلکہ تہذیبوں کا ٹکرائو ہوگا. اس نے لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں آٹھ تہذیبیں موجود ہیں‘ ایک ہماری مغربی تہذیب اور سات دوسری. لیکن ان سات میں سے پانچ کو تو ہم آسانی سے اپنے اندر سمو سکتے ہیں اور انہیں ہضم کر سکتے ہیں‘ لیکن دو تہذیبیں ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے لوہے کے چنے ثابت ہوں گی ‘جنہیں چبانا آسان نہیں. ایک مسلم تہذیب اور دوسری کنفیوشین تہذیب جس کی نمائندگی اس وقت چین کر رہا ہے. لہٰذا اس نے دو مشورے دیئے ہیں‘ ایک یہ کہ چین اور اسلامی ملکوں کو قریب نہ آنے دیا جائے. دوسرا مشورہ اس نے یہ دیا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ہوا دی جائے. ایک اعتبار سے ان لوگوں کی جرأت اور دیانت کا مظہر بھی ہے کہ بات صاف اور کھل کر کر رہے ہیں‘ اپنے تاش کے سارے پتے سامنے رکھ دیئے ہیں کہ تمہارے اندر اگر ہمت ہے تو راستہ روک لو! چنانچہ یہ اس کا مقالہ ہے جو شائع ہوا ہے. اور اب سوچیے کہ اس کو بنیاد بنا کر کیا کچھ ہو رہا ہوگا. اس حوالے سے ہمارے ہاں دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعہ شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینے کا معاملہ اس مسئلے کا بہت بڑا پہلو ہے. بہرحال کوئی شے موجود ہوتی ہے تو اسی کو دشمن آڑ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے‘ اگر کوئی شے موجود ہی نہ ہو تو اسے آڑ یا ڈھال کیسے بنایا جا سکتا ہے ؎

کچھ تو ہوتے بھی ہیں الفت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

چنانچہ کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے‘ تبھی بات بنتی ہے. اگر ملک میں شیعہ سنی مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے تو دشمن کی کم از کم ایک کمین گاہ تو ختم ہو سکتی ہے. یہ بات شاید آپ جانتے ہوں کہ جب سلطان محمد فاتح کی فوجیں قسطنطنیہ کا محاصرہ کئے کھڑی تھیں تو گرجا میں پادری آپس میں لڑ رہے تھے اور ان کے مابین ان مسائل پر بحث ہو رہی تھی کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے آ سکتے ہیں اور حضرت عیسیٰ ؑ نے جو روٹی کھائی تھی وہ خمیری تھی یا فطیری؟ اور یہ کہ حضرت مریمؑ حضرت عیسیٰ ؑکی ولادت کے بعد بھی کنواری رہیں یا نہیں؟ یہ تین ’’عظیم الشان‘‘ مسائل تھے جو اندر زیر بحث تھے اور باہر سلطان محمد فاتح کی فوجیں کھڑی تھیں. اور یہی حشر ہمارا ہوا تھا‘ جب انگریز ہندوستان میں قدم بقدم آگے بڑھ رہا تھا تو ہمارے ہاں یہ بحثیں چل رہی تھیں کہ اللہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بول سکتا تو ہر شے پر قادر تو نہ ہوا اور اگر بول سکتا ہے تو یہ اس کی شان کے منافی ہے. پھر یہ کہ اللہ خود بھی کوئی دوسر ا محمد: پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اس وقت مسلمانوں کے چوٹی کے علماء ’’امکانِ کذب‘‘ اور ’’امتناع نظیر‘‘ کی ان بحثوں میں الجھے ہوئے تھے اور انگریز بڑھتا چلا آ رہا تھا. وہی حال آج ہمارا ہو رہا ہے کہ ہم اپنی انانیت اور فرقوں کو لئے بیٹھے ہیں‘ ملکی سلامتی خطرے میں پڑتی ہے تو پڑتی رہے. اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے استحکام کی واحد بنیاد ہی نہیں بلکہ اس کی بقاء کی وجہِ جواز بھی اسلام ہے. اگر یہاں اسلام نہیں آتا تو تو اس کے باقی رہنے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا. اور یہاں یہ سب کچھ افراتفری‘ لوٹ کھسوٹ‘ بدامنی اور عدم استحکام اسی لئے ہے کہ ہم نے اس کی اس واحد وجہِ جواز کو ہی مشکوک بنا دیا ہے. نتیجتاً یہ عذاب ِ الٰہی کے کوڑے ہیں جو ہماری پیٹھ پر پڑتے رہتے ہیں. اس ساری پیچیدگی کا واحد حل یہی ہے کہ یہاں اسلام آئے. یہاں اسلام اب تک کیوں نہیں آیا‘ اس کے دو بڑے بڑے اسباب ہیں. ان میں سے ایک سبب جو میں بارہا بیان بھی کر چکا ہوں وہ دینی جماعتوں 
کی یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ انتخابی سیاست کے اکھاڑے میں اتر کر پاور پالیٹکس کے کھیل میں شریک ہوگئیں. انہیں اقتدار کی غلام گردشوں کے اندر چلنے پھرنے اور وی آئی پی ٹریٹمنٹ کے چسکے پڑ گئے اور یہی شے تھی جو بیڑہ غرق کرنے والی تھی. اس وقت میں اس کی مزید کوئی تفصیل بیان نہیں کروں گا. یہ میرا وہ مؤقف ہے جو میں بارہا تفصیل سے بیان کر چکا ہوں. اس کے علاوہ اس کا دوسرا سبب شیعہ سنی اختلاف ہے جو واقعتابہت بڑا اختلاف ہے. اس اختلاف کی نوعیت حنفی‘ مالکی‘ شافعی والے اختلاف کی سی نہیں ہے کیونکہ شیعہ اور سنی کے نزدیک سنت رسول: کے ماخذ جدا جدا ہیں جب کہ دین کی عملی شکل تو سنت ہی سے سامنے آتی ہے ؎
بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست!

اب ہم اس مسئلے کے تیسرے پہلو کی طرف آتے ہیں. ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ جو درحقیقت ’’جیو ورلڈ آرڈر‘‘ ہے اس میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ٹکڑے کر دیئے جائیں گے اور ظاہر ہے کہ ’’نزلہ بر عضو ضعیف‘‘ کے مصداق پہلے پاکستان کی باری ہے. ہم نے خود اس کے لئے میدان تیار کر رکھے ہیں کہ آئو کھیلو اور کودو! بلکہ میں تو اس سے بھی آگے عرض کرتا ہوں کہ یہودیوں کے سامنے امریکہ کے بھی حصے بخرے کرنے کا پروگرام ہے اور وہ اس کے ٹکڑے کر کے رہیں گے. وہ اس کو اس وقت تک اسعتمال کرتے رہیں گے جب تک وہ ان کے مفاد میں استعمال ہوتا رہے اور کسی وقت بھی اگر امریکہ نے ان کی سکیم کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی تو جس طرح انہوں نے چشم زدن میں 
USSR کو دنیا میں نسیاً منسیا کر دیا‘ اسی طرح وہ USA کے بھی ٹکڑے کر دیں گے‘ اس لئے کہ پوری معیشت کے لیور پر ان کا ہاتھ ہے. لہٰذا ان کی طرف سے ایک حرکت ہوگی‘ شیئر مارکیٹ کے اندر ایک زلزلہ آئے گا اور امریکہ کی دھجیاں بکھر جائیں گی. امریکہ سے زیادہ کمزور(Fragile) معیشت تو دنیا کے کسی دوسرے ملک کی نہیں ہے. دنیا میں سب سے زیادہ مقروض حکومت امریکہ کی ہے اور اس کے قرض خواہ یہودی بینکار ہیں. اور وہاں کے بینک حکومت کے زیر اثر نہیں ہیں بلکہ آزاد اور حکومت سے بالاتر ہیں‘ لہٰذا یہودی جب چاہیں امریکہ کو توڑ سکتے ہیں. میں تو اس ’’جیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے بارے میں اپنی کتاب ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں. اس نیوورلڈ آرڈر یا جیو ورلڈآرڈر کے آگے اب جو ’’آخری چٹان‘‘ باقی رہ گئی ہے وہ پاکستان‘ ایران‘ افغانستان اور چینی و روسی ترکستان پر مشتمل مسلمان ممالک کا یہ بلاک ہے. یہ وہ آخری چٹان ہے جو یہود کے اس نیو ورلڈ آرڈر کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے. اس کے بعد تو مسلمان ممالک میں سے بنگلہ دیش اور انڈونیشیا وغیرہ باقی رہ جاتے ہیں. جو مشرقِ بعید سے متعلق ہیں‘ درمیان میں بھارت کا بہت بڑا رقبہ آجاتا ہے جہاں اگرچہ مسلمان بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن وہ وہاں پر مقہور اور مجبور ہیں اور ان کی وہاں پر سیاسی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہے. لہٰذا اس اعتبار سے اہم ترین حیثیت اسی بلاک کی ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ اس بلاک میں شیعہ سنی تنازعہ سب مسائل سے زیادہ سخت اورگھمبیر ہے. اور پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی ہے اگر اس مسئلہ کا کوئی حل نکل آتا ہے تو اس راستے کی ہماری یہ رکاوٹ دور ہو جاتی ہے.

اس طرح نفاذِ اسلام کے بعد یہاں اتحاد کی فضا قائم ہو گی اور اگر یہ اتحاد اور مفاہمت ہو جائے تو یہی خطہ وہ چٹان ہے جس سے ٹکرا کر نیو ورلڈ آرڈر پسپا ہو سکتا ہے. اگر شیعہ سنی مفاہمت ہو جائے تو (i)ہم یہاں پر دہشت گردی کا ایک بازو توڑ سکتے ہیں.(ii) پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور اس کے لئے جدوجہد آسان ہوتی ہے. (iii)اس خطے کے مسلم بلاک کے اندر اتحاد اور یگانگت عمل میں آ سکتی ہے. یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے. میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور یہ بات میرے علم میں گزشتہ دورئہ ایران میں آئی کہ اسی فارمولے کو قائد انقلاب ایران جناب آیت اللہ روح اللہ خمینی مرحوم نے ایران میں نافذ کیا اور میری اس تجویز کو موجودہ ایرانی قیادت اور اس وقت کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت آیت اللہ خامنہ ای کی مکمل تائید بھی حاصل ہے. کاش کہ پاکستان میں اہل تشیع اس حل کو قبول کر لیں! وہ حل یہ ہے کہ جہاں تک عقائد‘ عبادات‘ مساجد‘ فیملی لاز اور وراثت کے قوانین وغیرہ کا تعلق ہے ان میں ہر ایک کو مکمل آزادی ہو کہ وہ اپنی فقہ کے مطابق عمل کرے. لیکن ملکی قوانین (Law of the Land) کے معاملے میں صرف اس فقہ کو نافذ کرنے کا اعلان کیا جائے جس کے ماننے والے اکثریت میں ہیں. عبادات کا معاملہ ہر ایک پر چھوڑ دیجئے کہ وہ جس طرح چاہے کرے‘ یہ ایک طرح کا انفرادی معاملہ ہے. لیکن جہاں تک ملکی قانون کا معاملہ ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ایک ملک میں دو نہیں ہو سکتے‘ حدود و تعزیرات سب کے لئے الگ الگ نہیں ہو سکتیں. اس کے لئے ہمیں ایران سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے. وہاں یہ کیا گیا ہے کہ ایران کے دستور میں یہ طے کر دیا گیا کہ ان معاملات میں اکثریت کی فقہ یعنی فقہ جعفری کے مطابق معاملہ ہوگا.

اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی حل ہے بھی نہیں. یا تو یہ کہہ دیجئے کہ ہمیں اسلام کی طرف جانا ہی نہیں‘ دین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دو‘ ہمیں تو اپنی فقہ زیادہ پسند ہے… لیکن اگر دین کو اولیت حاصل ہے اور آپ لا تتفرقوا فیہ کے قرآنی حکم پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں کہ دین ایک ہو تو پھر اپنی فقہوں اور اپنے مذاہب و مسالک کو ثانوی درجہ دیجئے. یہی کچھ انہوں نے کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا یہی حل ہے جو پاکستان میں بھی قابل عمل ہے چنانچہ پاکستان کے دستور میں یہ طے ہو جائے کہ یہاں فقہ حنفی کو ملکی قانون کی حیثیت حاصل ہوگی کیونکہ یہاں غالب اکثریت احناف کی ہے‘ تاہم اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو فقہ حنفی آج سے کئی سو سال پہلے مرتب کی گئی تھی وہ جوں کی توں نافذ کر دی جائے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب جو اجتہاد ہوگا اور جو قانون سازی ہوگی ‘وہ فقہ حنفی کے اصول فقہ کے مطابق ہوگی. یعنی استنباط اور استدلال کے اصول وہی ہوں گے جو فقہ حنفی کے ہیں. ایک نئی مقننہ (Legislative) ہوگی جسے ہر میدان میں اجتہاد کرنا ہوگا. طے یہ کرنا ہوگا کہ قانون سازی میں کتاب و سنت کی حدود سے تجاوز نہیں ہوگا. اگر تجاوز ہوتا ہے تو ہر عالم دین کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ عدالت ِ عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور وہاں جا کر یہ ثابت کرے کہ یہ قانون کتاب و سنت کے خلاف ہے … یا پھر ایسا ہو کہ یہاں پر کتاب و سنت کی سنی تعبیرات کو دستور میں ثبت کیا جائے اور فقہ جعفریہ کو عبادات میں بشمول زکوٰۃ مکمل آزادی دے دی جائے. اگر وہ خود مان جائیں کہ ہم زکوٰۃ کا کوئی ایسا اجتماعی نظام بناتے ہیں کہ حکومت وہی وصول کرے تو کیا کہنے‘ چشم ما روشن دل ما شاد!‘ لیکن اگر وہ اس پر مصر رہیں کہ زکوٰۃ کا معاملہ ان کا پرسنل رہے گا تو بھی ٹھیک ہے‘ اس لئے کہ زکوٰۃ میں عبادت کا عنصر زیادہ غالب ہے اور پرسنل لاء میں عبادات لازمی طور پر آتی ہے. نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ ان سب میں انہیں مکمل آزادی ہونی چاہئے. پھر نکاح طلاق اور وراثت کے قوانین کے علاوہ پرسنل لاء میں جتنی چیزیں بھی آتی ہیں ان میں انہیں مکمل آزادی ہو. اب آخر میں اپنے اثنا عشری شیعہ بھائیوں کی خدمت میں دست بستہ عرض کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میری گزارش صدا بصحرا ثابت نہیں ہوگی کیونکہ مجھے امید کی کرن نظر آ رہی ہے. خدا کے لئے ہر شیعہ بھائی خود بھی سوچے اور اپنی قیادت کی بھی توجہ دلائے کہ وہ پاکستان میں کھلے دل کے ساتھ وہی حیثیت قبول کر لیں جو ایران میں سنیوں کو دی گئی ہے ‘اس طرح ان شاء اللہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد کی وہ فضا قائم ہو جائے گی جس سے خیر کے سارے راستے کھلتے جائیں گے.