پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان، قطع نظر اس سے کہ وہ عوام میں سے ہو یا خواص میں سے، بالکل ان پڑھ اور جاہل ہو یا عالم وفاضل، علامہ اقبال کے ساتھ سہ گانہ رشتوں میں منسلک ہے. پہلا یہ کہ یہ مملکتِ خداداد سرزمین پاکستان جس میں ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے رہ رہے ہیں، اس کا وجود وقیام علامہ ہی کے تخیل وتصور کامرہونِ منت ہے. دوسرے یہ کہ وہ عالمی ملت اسلامی اور اُمت مسلمہ جس سے ہم سب منسلک ہیں، اس کی عظمت وسطوت پارینہ کا سب سے بڑا مرثیہ خواں اور اس کے احیاء ونشاۃ ثانیہ کا سب سے بڑا ترجمان اور حدی خواں بھی اقبال ہی ہے. تیسرے یہ کہ وہ دین حق جس کے ہم سب نام لیوا ہیں اور جس کے بارے میں حالی مرحوم نے کہا تھا ؎
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
اس دور میں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اس دین کے اسرار ورموز کا سب سے بڑا رازدان بھی اقبال ہی ہے اور اس کی روح باطنی اور جسد ظاہری دونوں کے تجدید واحیاء کے عظیم ترین نقیب کی حیثیت بھی اقبال ہی کو حاصل ہے. یہ سہ گانہ تعلق تو علامہ مرحوم کے ساتھ ہر پاکستانی مسلمان کو حاصل ہے. مجھے ذاتی طور پر ایک چوتھی خصوصی نسبت روح اقبال سے حاصل ہے. مجھ پر یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوچکی ہے کہ احیائے اسلام کی شرطِ لازم تجدید ایمان ہے اور ایمان کا اصل منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے. گویا ملت اسلامی کی نشاۃِ ثانیہ اور تشکیل جدید کی کوشش ہو یا احیائے اسلام اور غلبۂ دین حق کی جدوجہد، دونوں کا اصل منبع ومدار اسی پر وابستہ ہے کہ قرآن حکیم کے ساتھ مسلمانوں کا صحیح تعلق دوبارہ استوار ہو جائے اور اس حقیقی نسبت کی تجدید کی جائے جو ایک مسلمان اور قرآن کے مابین ہونی چاہئے. میرے خیال میں ملتِ اسلامیہ اور دینِ حق دونوں کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کے قرآن حکیم کے ساتھ وابستہ ہونے کا احساس دورِ حاضر میں علامہ اقبال سے زیادہ کسی کو نہ تھا. اگرچہ علامہ اقبال بنیادی طور پر سیاستدان نہ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اور ان کے مسائل کا جو حل پیش کیا وہ ان کی بیدار مغزی، معاملہ فہمی اور سیاسی تدبر کا شاہکار ہے. 1930ء سے قبل ہندوستان کی تقسیم کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا. یہ صرف علامہ مرحوم کی نگاہِ دور رس ودُور بین تھی جس نے حالات کے رخ اور زمانے کی رفتار کو پہچان کر مسلمانانِ ہند کے جملہ مسائل کا یہ حل بتایا کہ ہندوستان کے کم از کم شمال مغربی گوشے میں واقع مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد اور خودمختار مملکت قائم کی جائے. پاکستان کے ساتھ علامہ کا تعلق صرف ’’مصور‘‘ کا ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے. ان کی نگاہِ دُور رس نے مسلمانانِ ہند کے قومی مقدمے کی پیروی اور ان کی قیادت عظمیٰ کے لئے صحیح ترین وکیل اور قائد کی حیثیت سے محمد علی جناح کو ڈھونڈ نکالا. قائد اعظم کا انتخاب بلاشبہ علامہ اقبال کے خلوص واخلاص کا واضح ثبوت اور ان کے انکسار اور تواضع کی روشن دلیل ہے. علامہ اقبال نے صرف پاکستان کا تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس خاکے میں رنگ بھرنے کی عملی جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں بھی قائدانہ حیثیت سے شرکت کی. اس اعتبار سے علامہ کا ایک عظیم احسان ہر اس مسلمان کی گردن پر ہے جو پاکستان کی فضا میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لے رہا ہے. افسوس کہ ہم نے بحیثیت قوم پاکستان ہی کی قدر نہیں کی کجا کہ علامہ اقبال کے اس عظیم احسان کو یاد رکھتے. کاش کہ ہم کو علوم ہوتا کہ آزادی اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے اور یہ مملکتِ خداداد پاکستان کا معجزانہ قیام اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے. اسی صورت میں ہمیں علامہ کے ذاتی احسان کا بھی کوئی احساس ہو سکتا تھا مگر ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ہماری اسی ناقدری کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ ہم سے علیحدہ ہو گیا. اس دردناک حادثہ فاجعہ پر بھارت میں جس طرح خوشی منائی گئی اور اسے جس طرح ’’ہزار سالہ شکست کے انتقام‘‘ سے تعبیر کیا گیا اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہندوئوں کے بارے میں کسی حسن ظن میں مبتلا تھے اور ہیں. اگر مسز اندرا گاندھی اس نہرو خاندان کی بیٹی ہوتے ہوئے جس کی وسیع المشربی ضرب المثل ہے، یہ الفاظ اپنی زبان سے نکال سکتی ہے تو ’’قیاس کن زگلستان من بہار مرا‘‘ کے مصداق سوچنے کی بات ہے کہ فرقہ پرست اور متعصب مزاج ہندو اکثریت کو ایک بار ہندوستان میں فیصلہ کن اقتدار حاصل ہو جاتا تو اس کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوتا!علامہ اقبال عالمی ملتِ اسلامیہ کے ترجمان وحدی خواں کی حیثیت سے بھی سامنے آتے ہیں. چنانچہ ؎
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
کا وجد آفریں ترانہ انہی کی زبان پر جاری ہوا. علامہ کی ملی شاعری میں مرثیہ خوانی کا رنگ بھی موجود ہے اور حدی خوانی کا نوحہ بھی. انہوں نے بیک وقت شبلی اور حالی دونوں کی جانشینی کا فرض ادا کیا اور ملتِ اسلامیہ کے شاندار اور تاب ناک ماضی کی یاد سے بھی دلوں کو گداز کیا اور اُمت مرحومہ کی موجودہ زبوں حالی کا نقشہ بھی نہایت موثر اور دل دوز انداز میں کھینچا. علامہ کی ملی شاعری کا مثبت اور تعمیری پہلو انہیں ملت کے دوسرے مرثیہ خوانوں سے ممتاز کرتا ہے. چنانچہ اقبال کے ہاں صرف درد انگیز نالے ہی نہیں ہیں، انتہائی ولولہ انگیز پیغامِ عمل بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک شاندار مستقبل کی خوشخبری بھی موجود ہے جس نے ’’یاس‘‘ اور ’’قنوطیت‘‘ کی ظلمت کا پردہ چاک کر کے دلوں میں اُمید کے چراغ روشن کر دیئے. علامہ کے اشعار میں یہ اُمید افزا پیغام رچا بسا ہوا ہے. وہ فرماتے ہیں ؎
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
اور ؎
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
علامہ کی ملی شاعری جغرافیے کی حدود سے بالکل آزاد ہے اور ان کے اشعار کو پڑھتے ہوئے کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ ان کا قائل کبھی ایک محدود خطہ اراضی میں بسنے والے مسلمانوں کے خصوصی مسائل کے بارے میں بھی غور وفکر کرتا ہو گا. ذرا اندازہ تو کیجئے کہ ایک ہندی مسلمان ارضِ لاہور میں بیٹھا کہہ رہا تھا کہ ؎
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
جہاں تک دینِ حق کے اسرار ورموز اور حقائق ومعارف ایمانی اور علم وحکمت قرآنی کی ترجمانی کا تعلق ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس نسبت سے علامہ اقبال رومی ٔ ثانی تھے! انہوں نے مولانا روم کو اپنا شیخ تسلیم کیا اور ’’پیرِ رومی‘‘ کے ساتھ بحیثیت ’’مریدِ ہندی‘‘ ان کے مکالمات ان کے کلام کی زینت ہیں بلکہ ایک مقام پر انہوں نے اپنی اس نسبت کا ذکر فخریہ انداز میں بھی کیا ہے ؎
برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است
علامہ اقبال دورِ حاضر کے ’’ترجمان القرآن‘‘ قرار دیئے جانے کے مستحق ہیں. علامہ خود بھی اس کے مدعی تھے کہ ان کے اشعار پیغام قرآنی ہی کی ترجمانی پر مشتمل ہیں اور اس پر انہیں اس درجہ وثوق اور اعتبار ہے کہ انہوں نے ’’مثنوی اسرار ورموز‘‘ کے آخر میں ’’عرضِ حال مصنف بحضور رحمۃ اللعالمین‘‘ کے ذیل میں یہاں تک لکھ دیا کہ اگرچہ میرے دل کی مثال اس آئینے کی سی ہے جس میں کوئی جوہر ہی نہ ہو اور اگر میرے پیغام میں قرآن کے سوا کسی اور شے کی ترجمانی ہے تو اے نبیؐ آپ میرے فکر کے ناموس کا پردہ خود چاک فرما دیں اور اس چمن کو مجھ جیسے خار سے پاک کر دیں یہاں تک کہ حشر کے دن مجھے ذلیل اور رسوا کر دیجئے اور اپنی قدم بوسی کی سعادت سے محروم فرما دیجئے. دین حق کی جو تشریح علامہ اقبال کے کلام میں نظر آتی ہے اس کے بغرضِ تفہیم تین اجزاء ہیں اور یہ تینوں اجزاء درحقیقت ایک ہی مرکزی نکتے ’’نکتۂ توحید‘‘ کی شرح کی حیثیت رکھتے ہیں. ؏
یہ سب کیا ہیں؟ فقط اِک نکتہ ایمان کی تفسیریں!
اولاً تمدنی اور معاشرتی سطح پر وحدت خالق ہی وہ اساسی تصور ہے جس سے وحدت انسانیت کا نظریہ جنم لیتا ہے جس میں مزید گہرائی وحدت آدم کے تصور سے پیدا ہوتی ہے اور نتیجتاً انسانی حریت واخوت ومساوات کے اصول مستنبط ہوتے ہیں، چنانچہ بحیثیت نظامِ زندگی کے علامہ کے کلام میں بڑی تاکید پائی جاتی ہے. وہ مردِ مومن کی شان میں فرماتے ہیں ؎
تمیز بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
اسی طرح سیاسی سطح پر توحید الٰہی کے تصور سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حاکمیت صرف خدا کے لئے ہے جب کہ عوام کی حاکمیت پر مبنی سیاسی نظام مجسم شرک اور کفر ہے. کتنے سادہ لیکن پُر شکوہ الفاظ میں علامہ نے فرمایا ؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آزری
ثانیاً حاکمیت کے بعد قومیت کا تصور سامنے آتا ہے، چنانچہ موجودہ زمانے میں وطنی قومیت کا جو تصور پوری دنیا میں رائج ہے، حیرت ہوتی ہے کہ علامہ نے اس کی برائی کا احساس کس شدت سے کیا اور اس شجر خبیثہ کی خباثت کا کس قدر صحیح اندازہ لگایا. علامہ فرماتے ہیں ؎
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بُت کو ملا دے
یہی معاملہ نظامِ معیشت کا بھی ہے. توحید کا اصول جس طرح حاکمیت اور قومیت کے تمام مروجہ وموجودہ تصورات کی کلی نفی کر دیتا ہے، اسی طرح اس میں ملکیت مطلقہ کے مقبولِ عام تصور کی بھی کامل نفی موجود ہے. ظاہر بات ہے کہ اگر ’’مُلک‘‘ اللہ کا ہے تو ’’مِلک‘‘ بھی اللہ ہی کی ہے اور اگر زمین وآسمان اور جو کچھ ان دونوں میں ہے اس سب کا مَلِک یعنی بادشاہ اللہ ہے تو یقینا ان کا ’’مالک‘‘ بھی وہی ہے.
اس دور میں علامہ کی شخصیت عظمت قرآن کے ایک عظیم نشان کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے کہ ایک عام آدمی کا مذہبی عقیدے کے طور پر قرآن مجید کو اللہ کی کتاب ماننا اور بات ہے اور ایک ایسے شخص کا قرآن پر وثوق واعتماد اور ایمان ویقین دوسری بات ہے جو فکرِ انسانی کی تمام وادیوں میں گھوم کر مشرق ومغرب کے تمام فلسفے کھنگال چکا ہو. اعجاز قرآن کے بے شمار پہلو ہیں جن کا احاطہ ہر کسی کے لئے ممکن نہیں. اس دور میں اعجازِ قرآن کا عظیم ترین مظہر یہ ہے کہ وہ کتاب جسے دنیا کے سامنے آج سے چودہ سو برس قبل حضور ﷺ نے پیش کیا تھا، آج بھی جب کہ مادی علوم انتہائی بلندی کو چھو رہے ہیں اور علم وہنر کی دنیا میں انقلاب آچکا ہے، نوعِ انسانی کی ہدایت اور رہنمائی کی جملہ ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے! اس کی گواہی علامہ کی زندگی سے ملتی ہے. انہوں نے انیسویں صدی میں شعور کی آنکھ کھولی اور وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر علم حاصل کیا لیکن بالآخر ان کے ذہن کو سکون ملا توصرف قرآن حکیم سے اور ان کی علمی پیاس کو آسودگی حاصل ہوئی تو صرف کتاب اللہ سے. علامہ فرماتے ہیں ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
علامہ جب قرآن کا ذکر کرتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ع ’’قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید‘‘ کے مصداق وہ فی الواقع جمال وجلال قرآنی کا مشاہدہ اپنے قلب کی گہرائیوں سے کر رہے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ شنید نہیں، دید ہی پر مبنی ہے بلکہ بسا اوقات ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا وجود فکری کلامِ پاک کی عظمت کے بارِ گراں سے ’’خاشعا متصدعا‘‘ ہوا جا رہا ہے. عظمتِ قرآنی کا یہ احساس وادراک ان کے ریشے ریشے میں سرایت کئے ہوئے تھا اور ان کا ہر شعر قرآن کی جلالت اور رفعت کے ترانے گا رہا ہے. مسلمانوں کے زوال واضمحلال کا اور اُمتِ مسلمہ کی ذلت وخواری کا سبب علامہ کے نزدیک قرآن سے دوری ہے. وہ فرماتے ہیں ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
علامہ کے نزدیک اسی ’’کتابِ زندہ‘‘ سے اُمت کا احیاء وابستہ ہے اور اسی پر اُمت کی نشاۃ ثانیہ کا دارومدار ہے. گویا مسلمانوں کی حیاتِ تازہ کا انحصار حقیقتاً مسلمان ہونے پر ہے اور ان کے مسلمان ہونے کا دارومدار قرآن حکیم پر ہے. علامہ کے نزدیک علم نام ہے علمِ قرآنی کا اور حکمت نام ہے حکمتِ قرآنی کا اور یہی علم وحکمت قرآن ہے جو کسی کے ذہن اور قلب میں رچ بس جائے تو اس کے باطن میں ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے جو بالآخر ایک عالمی انقلاب کو جنم دے سکتا ہے. علامہ کے نزدیک ذہن کے تطہیر اور فکر کی تعمیر کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ’’اسرارِ دیں‘‘ فاش کئے جائیں اور نوعِ انسانی کے سامنے ’’نکتہ ہائے شرع مبین‘‘ کی وضاحت کی جائے، خود تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور تجلیہ روح کا کارگر اور مؤثر ذریعہ بھی قرآن حکیم ہی ہے. پاکستان کے بقاء واستحکام، ملتِ اسلامی کی تجدید ونشاۃ ثانیہ اور دین حق کے احیاء واظہار جیسے اہم اور جلیل مقاصد کے ضمن میں علامہ اقبال کے فکر اور پیغام کی اشاعت کو بہت اہمیت حاصل ہے اور پاکستانی عوام میں بالعموم اور نوجوان نسل میں بالخصوص جو دُوری رفتہ رفتہ علامہ کی شخصیت اور افکار ونظریات سے پیدا ہوتی جا رہی ہے اسے دور کرنا وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور قومی وملی سالمیت کا تقاضا بھی.