سورۃ الفرقان کی آیت 7میں ارشاد ربانی ہے: ’’سوائے ان کے جنہوں نے توبہ کی اور جو ایمان لائے اور جنہوں نے بالفعل اچھے عمل کئے تو اللہ ان کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا.‘‘دنیا میں کسی قوم کے اللہ کے عذاب سے بچنے کی واحد صورت ’’اجتماعی توبہ‘‘ ہے اور اگرچہ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں کسی معاشرے کے صدفی صد لوگ تو کسی بھی دور میں درست نہیں ہوئے. (یہاں تک کہ نبی اکرم کے زمانے میں بھی آخر دم تک کچھ نہ کچھ تعداد میں منافق ضرور موجود رہے) تاہم اگر کسی قوم کے افراد اتنی معتدبہ تعداد میں سچی توبہ کر لیں کہ پھر اپنی دعوت و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے قوم کے اجتماعی دھارے کا رخ تبدیل کر دیں، یعنی بالفاظ دیگر ایک اجتماعی انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں، تو اس قوم کی جانب سے ’’اجتماعی توبہ‘‘ کا حق ادا ہو جائے گا. یہ گویا از سرنو ایمان لانے کا کام ہے، جس کا لازمی نتیجہ عمل کی اصلاح ہے، لہٰذا قوم کی اجتماعی توبہ کے لیے اصل اور بنیادی ضرورت یہ ہے کہ …اوّلاً افراد و اشخاص کی ایک معتدبہ تعداد اللہ کے حضور میں سچی اور خالص توبہ کرے.

دوئم اپنے عقائد کی تصحیح کرے اور توحید خالص کا دامن از سر نو مضبوطی کے ساتھ تھامے. سوئم: فسق و فجور کو ترک کرے اور اپنی معیشت اور معاشرت کو حرام اور منکر سے پاک کرے اور چہارم: غلبہ ٔ اسلام اور قیام نظام خلافت کی منظم جدوجہد کے لیے تن من دھن وقف کر دے.اس طرح جو منظم قوت وجود میں آئے، وہ ملکی سیاست اور اقتدار کی کشاکش سے بالکل علیحد ہ رہتے ہوئے اپنی جملہ مساعی اور تمام تر توانائیوں کو مزاحمتی تحریک کے لیے وقف کر دے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضمن میں فطری تدریج کے ساتھ ’’باللسان‘‘ یعنی زبان اور نشرواشاعت کے دیگر ذرائع سے تدریجاً آگے بڑھ کر ’’بالید‘‘ یعنی قوت کے ساتھ مزاحمت کی راہ اختیار کرے اور اس طرح ارض پاکستان پر اللہ کے دین کو غالب اور اسلام کے نظام عدل اجتماعی کو نافذ کرے، اگر ایسا ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ نہ صرف یہ کہ قیام پاکستان کے لیے جو قربانیاں مسلمانان ہند نے دی تھیں، وہ رائیگاں نہیں گئیں، بلکہ الف ثانی کی جملہ چار سو سالہ تجدیدی مساعی بھی بار آور ہو گئیں. اس لیے کہ اس صورت میں ارض پاکستان کو فوری طور پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا گہوارہ اور عالمی غلبہ اسلام کا نقطہ آغاز بننے کی سعادت حاصل ہو جائے گی.

اب ظاہر ہے کہ ہر مسلمان کی دلی خواہش بھی یہی ہو گی کہ ایسا ہو جائے اور اسی کی دعا بھی ہر قلب کی گہرائی سے بلند ہو گی اور ’’جب تک سانس تب تک آس!‘‘ کے مصداق ہمیں آخری دم تک کوشش بھی اسی کی کرنی چاہئے لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ اس کے کچھ ناگزیر لوازم و شرائط ہیں …اوّلاً: یہ کہ اگرچہ اجتماعی توبہ کا نقطہ ٔ آغاز لا محالہ انفرادی توبہ ہی ہوتی ہے، لیکن انفرادی توبہ کے ذریعے صرف اخروی عذاب سے نجات کی ضمانت مل سکتی ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ وہ واقعی ’’توبۃ النصوح‘‘ ہو. دوئم: یہ کہ آئندہ کے لیے عزم مصمم ہو کہ اس گناہ کا ارتکاب کبھی نہیں کروں گا. سوئم: یہ کہ بالفعل بھی اس گناہ کو واقعتا ترک کر دے اور جو کسی کا حق غصب کیا تھا، اس کی تلافی کرے یا بصورت دیگر اس سے معافی حاصل کرے (ورنہ قیامت کے دن

 حساب کتاب کے وقت ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی یا مظلوم کی برائیاں ظالم کے حساب میں شمار ہوں گی).
انفرادی توبہ خواہ کتنی ہی سچی ہو اور انسان ذاتی اعتبار سے خواہ کتنا ہی متقی و صالح اور عابد وزاہد کیوں نہ بن جائے، اگر قوم کی مجموعی حالت تبدیل نہ ہو اور وہ بحیثیت مجموعی عذاب خداوندی کی مستحق بن جائے تو جس طرح چکی میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس 
جاتا ہے، اسی طرح جب کسی قوم پر دنیا میں اجتماعی عذاب آتا ہے تو اس کی لپیٹ میں بدکاروں اور بدمعاشوں کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگ بھی آ جاتے ہیں، جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت 25میں ارشاد خداوندی ہے: ’’اور ڈرو اس عذاب سے جو تم میں سے صرف بدکاروں اور گناہ گاروں پر نہیں آئے گا اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے.‘‘

نیک اور صالح افراد کے عذاب خداوندی سے بچا لیے جانے کی واحد استثنائی صورت کا ذکر بھی سورۃ التوبہ کی آیت 112میں آیا ہے: ’’توبہ کرنے والے، بندگی کا حق ادا کرنے والے، اللہ کی حمد کرنے والے، لذات دنیوی سے کنارہ کش رہنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے نیکی کا حکم دینے والے اور بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ بن کر کھڑے ہو جانے والے‘‘… اگر ان کی جملہ مساعی کے باوجود قوم بحیثیت مجموعی صحیح رخ پر نہ آئے اور اعراض اور استکبار پر مصر رہنے کے باعث عذاب الٰہی کی مستحق ہو جائے تو اللہ اپنے ایسے ’’نہی عن المنکر‘‘ کرنے والے بندوں کو دنیا کے رسوا کن عذاب سے بچا کر اپنے دامن رحمت میں لے لیتا ہے. اجتماعی توبہ کے لیے تجدید ایمان کی عمومی تحریک ’’رجوع الی القرآن‘‘ شروع کرنے کی ضرورت ہے. یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ نے امت مسلمہ کے جملہ امراض کا اصل سبب قرآن سے دوری قرار دیا اور اس کا علاج ’’رجوع الی القرآن‘‘ تجویز کیا، چنانچہ جواب شکوہ میں ارشاد فرمایا:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

اور نہایت پر شکوہ الفاظ میں ان فارسی اشعار میں بیان کیا:

خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج گردش دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمین افتندہ
در بغل داری کتاب زندہ!

یعنی ’’اے امت مسلمہ! درحقیقت تو خوار اور زبوں حال صرف اس لیے ہوئی کہ قرآن حکیم سے اپنا تعلق توڑ بیٹھی. گردش دوراں کے شکوے خواہ مخواہ کر رہی ہے. اے وہ قوم جو شبنم کی طرح زمین پر پڑی ہوئی ہے. اب بھی اس ’’کتاب زندہ‘‘ کی جانب رجوع کر لے جو تیری بغل میں موجود ہے، تو تیرے تمام امراض کا مداوا ہو جائے گا اور جملہ مسائل حل ہو جائیں گے، گویا جس طرح خلیل جبران نے کہا تھا: ’’عقل سے روشنی حاصل کر واور جذبے کے تحت حرکت کرو!‘‘ اسی طرح ہماری ’’اجتماعی توبہ‘‘ کا نسخہ یہ ہے کہ ’’قرآن سے ایمان حاصل کریں اور ایمان کے روغن سے جہدوعمل کی شمعیں روشن کریں!‘‘ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.