امت مسلمہ اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ہر صاحب نگاہ آگاہ ہے کہ عزت اور وقاراور سر بلندی گویا کہ ہم سے چھین لی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ معاف فرمائے واقعہ یہ ہے کہ جیسے مغضوب علیہم قوموں کا نقشہ قرآن مجید میں کھینچا گیا ہے، مختلف اعتبارات سے وہی نقشہ آج ہمیں اپنے اوپر منطبق ہوتا نظر آ رہا ہے. ہمارے ہاں افتراق ہے، باہمی خانہ جنگیاں ہیں، اختلافات ہیں. وحدت امت جو اس وقت بہت مطلوب ہے اس کا شیرازہ بکھر چکا ہے. سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ اس کے لیے ہم کس سے رجوع کریں؟ اس کا جواب اگر ایک لفظ میں جاننا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ خلوص اور اخلاص کا رشتہ اور وفاداری کا تعلق ازسر نو اللہ سے، اس کی کتاب سے، اس کے رسول  سے استوار کیا جائے اور صحیح بنیادوں پر قائم کیا جائے. ایک حدیث کی رو سے نبی اکرم نے فرمایا:دین تو بس خیر خواہی اور خلوص اور اخلاص اور وفاداری کا نام ہے. پوچھا گیا کہ حضور کس کی وفاداری، کس سے خلوص و اخلاص؟ حضور نے ارشاد فرمایا: اللہ سے، اس کی کتاب سے، اس کے رسول اور مسلمانوں سے اور مسلمانوں کے رہنمائوں اور قائدین سے اور عامۃ المسلمین سے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص و اخلاص کا جہاں تک تعلق ہے. وہ ایک لفظ میں ادا کیا جا سکتا ہے. التزام توحید اور شرک کی ہر نوعیت سے اجتناب اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ہے.

اگرچہ یہ کام آسان نہیں. بقول علامہ اقبال ؎ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ’’ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں‘‘ جہاں تک قرآن مجید اور نبی اکرم  کے ساتھ خلوص و اخلاص کا معاملہ ہے تو یہ درحقیقت دو چیزیں نہیں ہیں جیسے کہ فرمایا ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب ان سے فرمائش کی گئی کہ ہمیں حضور کی سیرت بتایئے تو آپ نے سوال کیا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے اور جواب اثبات میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ حضور کی سیرت قرآن ہی تو ہے. اب ہمیں سوچنا چاہئے کہ نبی اکرم کے ساتھ خلوص و اخلاص کے تقاضے کیا ہیں. آنحضورکے ساتھ ہماری وہ نسبت کیسے قائم ہو سکتی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا ہے ؎ ’’بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست . اگر بہ اونہ رسیدی تمام بولہبیست‘‘ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم سے ہمارے تعلقات کی بنیادیں چار ہیں. سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۷ کا پس منظر بڑا عجیب ہے. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے اور اپنی قوم کے لیے بارگاہ خداوندی میں رحمت کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا: میری ایک رحمت عام ہے جو تمام مخلوقات کے لیے کھلی ہوئی ہے اور جو میری رحمت خصوصی ہے تو اسے میں نے مخصوص کر دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو میرے نبی امیؐ سے اپنا صحیح تعلق قائم کریں گے. وہ تعلق کیا ہے؟ اس کو مذکورہ بالا آیت کے آخری حصے میں بیان کر دیا گیا ہے. (ترجمہ) جو لوگ ان پر ایمان لائیں گے، ان کی تعظیم کریں گے، ان کی نصرت و حمایت کریں گے اور جو نور ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کریں گے وہ ہوں گے اصل معنی میں کامیاب اور میری رحمت خصوصی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی، اس آیہ مبارکہ کی روشنی میں غورکیا جائے تو حضور کے ساتھ ہمارے تعلق کی چار بنیادیں واضح طو رپر سامنے آتی ہیں.سب سے پہلی بنیاد ہے تصدیق و ایمان. یہ تصدیق کرنا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں . آپ نے جو کچھ فرمایا اپنی طرف سے نہیں فرمایا. (ترجمہ) اور ہمارا نبی اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا. یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر کی جاتی ہے. (سورۃ النجمآیات ۳،۴) اب اس ضمن میں یہ جاننا چاہئے کہ اس ایمان اور تصدیق کے دو درجے ہیں. ایک زبانی اقرار جس سے انسان اسلام کے دائرے میں آ جاتا ہے. وہ قانونی ضرورت پوری ہو جاتی ہے جو امت محمد میں شامل ہونے کے لیے لازمی اور ضروری ہے لیکن اصلی ایمان دل سے تصدیق کا ہے جب کہ آنحضور کی رسالت و نبوت پر دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہو جائے تو یہ ہے ایمان مطلوب.

اس کے بغیر جو دوسرے حقوق ہیں نبی اکرم کے وہ ہم ادا نہیں کر سکتے. پھر زبانی کلامی تعلق رہے گا جیسے کہ اللہ معاف فرمائے ہماری ایک عظیم اکثریت کا ہے. دوسرا تعلق ہے تعظیم و محبت. یہ لازمی تقاضا ہے یقین قلبی کا. اگر یہ یقین ہو کہ آپ  اللہ کے رسول ہیں تو آپ کی عظمت کا نقش قلب پر قائم ہوجائے گا. آپ کی محبت دل میں جاگزیں ہوگی. جیسے کہ نبی اکرم نے فرمایا: (ترجمہ) تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے محبوب تر نہ ہو جائوں اس کے اپنے بیٹے سے، اس کے اپنے باپ سے اور تمام انسانوں سے. یعنی اگر ایک مومن کے دل میں آنحضور کی محبت اپنے تمام اعزہ و اقرباء اور تمام انسانوں سے بڑھ کر جاگزیں ہوئی ہے تو وہ حقیقتاً مومن ہے. اس حدیث میں بیٹے اور باپ کے ذکر سے تمام عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلوں اور قوموں کا احاطہ کر لیا ہے. ان الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے. ایسا نہیں کہ بات واضح نہ ہو بلکہ صاف صاف اور دو ٹوک انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ حقیقی ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ حضور ایک بندۂ مومن کو دنیا کی تمام چیزوں سے محبوب تر ہو جائیں ؎ ’’ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر. نفس گم گردہ می آید جنید و بایزید ایں جا‘‘ تعظیم ظاہری بھی مطلوب ہے اور قلبی بھی. اس طرح محبت کا زبانی اظہار بھی ہو اور دل میں بھی جاگزیں ہو اور اس کا سب سے بڑا مظہر ہے حضور پر درود بھیجنا جس کے بارے میں یہ بھی فرمایا گیا کہ اگرکوئی شخص اپنی دعا کل کی کل صرف حضور پر درود بھیجنے پر مشتمل کر دے تو اس کا مقام اورمرتبہ کہیں زیادہ ہو گا اس سے کہ وہ خود اپنے لیے کوئی سوالات کرتا رہے. تیسرا تعلق حضور کے ساتھ ہمارا حضور کی نصرت و حمایت ہے جو لازمی نتیجہ ہے ان پہلی دو بنیادوں کا. وہ ہے آنحضور کی اطاعت و اتباع. ظاہر بات ہے کہ جب آپ کو اللہ کا رسول مانا تو اب آپکے حکم سے سرتابی چہ معنی دارد. آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر ہونا چاہئے. البتہ انسان تحقیق کا حق رکھتا ہے کہ واقعتا محمد رسول نے یہ حکم دیا ہے یا نہیں. لیکن جب طے ہو جائے کہ یہ آپ کا فرمان ہے تو اب چون و چرا کا کوئی سوال نہیں. اب تو اطاعت کرنی ہو گی اور اطاعت بھی کیسی؟ وہ اطاعت جس کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا. (ترجمہ) پس نہیں تیرے رب کی قسم! یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے نزاعات میں آپ ہی کو حکم نہ مانیں اور جو کچھ آپ فیصلہ فرما دیں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ آپ کے فیصلے کے آگے پوری دلی آمادگی اور خوشی کے ساتھ سر تسلیم خم نہ کر دیں. (سورۃ النسائ: ۶۵) یہی بات آنحضور نے فرمائی: (ترجمہ) تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں. جب اطاعت کے ساتھ محبت کی شیرینی شامل ہو جائے تو اس طرز عمل کا نام ہے اتباع. اس کا دائرہ بہت وسیع ہے. ظاہر ہے کہ اطاعت تو ان احکام کی ہو گی جو حضور نے دیئے ہوں لیکن اتباع ان تمام اعمال و افعال کا ہو گا جس کا صدور و ظہور ہوا نبی اکرم سے. چاہے اس کو کرنے کا حکم آپ نے بالفعل نہ دیا ہو. اس اتباع کا قرآن مجید میں جو مقام ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں. سورۃ الآل عمران آیت ۳۱ میں فرمایا: (ترجمہ) اے نبی ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں کو ڈھانپ لے گا.

اس آیت کریمہ سے اتباع رسول کی یہ اہمیت سامنے آتی ہے کہ اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے تو جناب محمد رسول اللہ کا اتباع لازم ولا بد ہے. اسی اتباع کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ اللہ ہم سے محبت فرمائے گا اور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اس کی مغفرت کے مستحق قرار پائیں گے. اس سے زیادہ ایک بندۂ مومن کی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ کا محبوب اور اس کی مغفرت کا سزاوار بن جائے. چوتھا اور آخری یوں کہئے کہ یہ عروج ہے حضور کے ساتھ ہمارے تعلق کا. وہ ہے تائید ونصرت. حضور ایک مشن لے کر تشریف لائے تھے. حضور کا مقصد بعثت عالمی سطح پر ہنوز شرمندۂ تعبیر ہے ؎ ’’وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے. نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے دوران خلافت راشدہ اس عمل کو جہاں تک پہنچایا تھا ہم اپنی بے عملیوں کے طفیل وہ اثرات بھی ختم کر چکے ہیں. اب تو از سر نو پیغام محمدی کی نشر واشاعت کرنی ہے. پیغام محمدی کو پہنچانا ہے تمام اقوام و عالم تک اور ازسر نو اللہ کے دین کو فی الواقع قائم و نافذ کرنا ہے پوری کرۂ ارضی پر اور اس کے لیے پہلے اللہ جہاں بھی توفیق دے، جس خطہ ارضی کی قسمت جاگے اس ملک کی خوش بختی اور خوش نصیبی پر تو واقعتاً رشک کرنا چاہئے. یہ ہے وہ فریضہ منصبی جو امت کے حوالے کیا گیا ہے. آنحضور کا مشن زندہ و تابندہ ہے. حضور گویا کہ اب بھی پکار رہے ہیں. (ترجمہ) کون ہے اللہ کی راہ میں میرا مددگار. یعنی کون ہے جو میرے پیغام کی نشرواشاعت کا کام کرے. میرے دین کو علمبردار بن کر کھڑا ہو اور پورے کرہ ارضی پر اس کا جھنڈا سر بلند کرنے کے لیے تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ ہو جائے. اسی ضمن میں آخری بات آتی ہے اس آیہ مبارکہ میں کہ اس عمل کا ذریعہ کیا ہے. محمد رسول اللہ نے جو انقلاب برپا کیا اس کا آلہ ٔانقلاب قرآن حکیم تھا: ؎ ’’اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا. اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لایا‘‘ (ترجمہ) وہی اللہ ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے. ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے. پس معلوم ہوا کہ آپ کی دعوت کا مرکز و محور قرآن حکیم تھا. آپ نے لوگوں کی ذہنیتیں بدلیں تو قرآن حکیم سے. لوگوں کی سوچ میں انقلاب برپا کیا تو اسی قرآن حکیم سے. ذہن کی تطہیر فرمائی تو اس قرآن کی آیات بینات سے. تزکیہ نفس فرمایا تو اسی قرآن کی آیات بینات اس کا ذریعہ بنیں. خارج و باطن سے منور ہوئے تواسی قرآن حکیم کے نور سے. وہ کتاب موجود ہے اور اسی کے اتباع کا ان الفاظ میں ذکر ہوا. (ترجمہ) اور اس نور کا اتباع کیا جو ان (نبی ) کے ساتھ اتارا گیا.

وہ نور جو آپ کے ساتھ نازل کیا گیا. وہ نور حضور حوالے کر کے گئے. وہ امت کے پاس ہے. اس کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرنا ہے. یہ آنحضور کے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی آخری اور اہم ترین بنیاد ہے. یہ وراثت محمدی ہے. اس کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اور اسی کو حبل اللہ قرار دیا گیا ہے. یہی کتاب اللہ امت کے اندر از سر نو اتحاد یکجہتی پیدا کرے گی. اس سے وحدت فکر پیدا ہو گی. اس سے وحدت عمل پیدا ہو گا. اس سے ہماری جدوجہد، یکجہتی کے ساتھ اپنے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھے گی. اس کتاب کے حقوق کو پہچاننا ہمارے حقیقی و قلبی ایمان کے لیے ضروری ولابدی ہے. یہی اصل لمحہ فکریہ ہے. اس کو ازسرنو سمجھیں اور محمد رسول اللہ کی لائی ہوئی کتاب مبارک کے ساتھ اپنی نسبت کو پوری درستگی کے ساتھ بہ تمام و کمال از سر نو استوار کریں. اس کتاب کو مانیں جیسا کہ ماننے کا حق ہے. اسے پڑھیں جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے، اس کو سمجھیں جیسا کہ اس کے سمجھنے کا حق ہے. اس پر عمل کریں جیسا کہ اس پر عمل کرنے کا حق ہے اور پھر اس کے مبلغ، داعی اور معلم بن جائیں جیسے کہ اس کی تبلیغ، دعوت، تعلیم اور تبیین کا حق ہے. اللہ تعالیٰ ہمیں ان جملہ امور پر عمل کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم نبی اکرم کے مشن کی عالمی سطح پر تکمیل کے لیے صحیح سمت میں پیش قدمی کر سکیں.