نائن الیون کے واقعہ کے بعد عالمی حالات بالخصوص عالم اسلام کے حالات کے حوالے سے ایک مسلمان کے ذہن میں یہ سوال بجا طور پر پیدا ہو گیا ہے کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ چنانچہ اس ضمن میں موجودہ عالمی اور ملکی حالات کا تجزیہ یا اس پر تبصرہ اگرچہ اپنی جگہ بہت اہم ہے. لیکن ہمارے اور آپ کے لیے سب سے زیادہ اہم امر یہ ہے کہ ہماری اخروی نجات کس شے میں ہے! ہمارے اردگرد حالات چاہے خراب سے خراب تر ہو جائیں، لیکن اگر ہم اللہ کے ہاں نجات پا جائیں تو ہم کامیاب ہیں. اس کے برعکس اگر اسلام کا بہترین نظام بھی قائم ہو جائے لیکن ہم بے عمل رہیں اور اللہ کے ہاں کامیاب نہ ہوں تو ہم لازماً ناکام کہلائیں گے.
چنانچہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ پہلے اپنے آپ کو بچایا جائے. اسی لیے قرآن مجید میں سورۃ المائدہ کی آیت 105میں فرمایا: جس سے کچھ غلط فہمی بھی بعض لوگوں کو ہو گئی تھی کہ: ’’اے ایمان والو! اپنی جان کا فکر تم پر لازم ہے. کسی اور کا گمراہ ہونا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اگر تم راہِ ہدایت پر ہوئے.‘‘چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں کہا کہ: ’’میں دیکھ رہا ہوں، لوگ اس آیت کے غلط معنی لے رہے ہیں کہ شاید ہمارے اوپر دعوت و تبلیغ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے. وہ اپنی جگہ ایک فرض ہے، لیکن امکانی حد تک آپ کی تبلیغ اور دعوت کے بعد بھی اگر کوئی سیدھے راستے پر نہیں آتا تو اس کا کوئی وبال آپ پر نہیں ہو گا.‘‘ اس اعتبار سے انسانوں سے اللہ تعالیٰ کے واحد مطالبے کا اگر ایک لفظ میں خلاصہ نکالا جائے، جیسے کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں، تو وہ لفظ ہے ’’عبادت.‘‘ سورۃ الذاریات کی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’میں نے جنات اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ میری عبادت کریں.‘‘
تمام انبیاء کرام کی دعوت جو قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے، وہ یہی تھی کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں. اس عبادت کے لفظ کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے. صدیوں کے زوال اور تنزل کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں یہ تصور قائم ہو گیا کہ عبادت سے مراد محض نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی ہے. یہ تصور نہ صرف محدود بلکہ مسخ شدہ بھی ہے.
عبادت کا لفظ عبد سے بنا ہے. عبد غلام کو کہتے ہیں. فارسی میں اس کے لیے لفظ بندہ ہے. بندہ یا غلام دراصل اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے. اس کے کوئی حقوق نہیں ہوتے. اسے ملازم پر قیاس نہ کریں. ملازمت تو مقررہ اور محدود اوقات کے لیے کافی ہوتی ہے، جس میں کام کی نوعیت کا بھی تعین کر دیا جاتا ہے جبکہ غلامی ہمہ وقت اور ہمہ جہت ہوتی ہے. جو حکم دیا جائے اسے پورا کرنا لازم ہوتا ہے. غلام کو آقا اگر رہنے کے لیے کوٹھڑی اور سونے کے لیے چارپائی دے دے تو وہ ان اشیاء کا مالک نہیں بن جاتا.
آج ہم پر غلامی اور بندگی کا یہ مفہوم واضح نہیں ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ عبادات ہیں لیکن وہ کون سی عبادت ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا. ہم نماز چوبیس گھنٹے تو نہیں پڑھتے رہتے، روزے بارہ مہینے تو نہیں رکھتے، حج ہر سال تو نہیں کرتے! ہمہ تن اور ہمہ وقت عبادت دراصل دو چیزوں سے عبارت ہے. پہلی چیز کلی اطاعت ہے. فارسی میں اس کا ترجمہ بندگی ہے. لیکن ایک بندگی مجبوری کی حالت میں ہوتی ہے. مصر میں بنی اسرائیل کی حالت کو بیان کرنے کے لیے قرآن مجید میں دو جگہ ’’عبادت‘‘ کا لفظ آیا ہے.جب حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارون ؑ فرعون کے دربار میں تشریف لائے تو اس نے بڑے مضحکہ خیز انداز میں کہا کہ’’ان کی قوم تو ہماری عابد (عبادت گزار) ہے.‘‘ یہاں لفظ عبادت بمعنی اطاعت ہی استعمال ہوا ہے. لیکن یہ جبری اور زبردستی کی اطاعت تھی. اللہ کی اطاعت، عبادت تب بنے گی جب یہ دلی آمادگی سے اور محبت کے جذبے سے کی جائے. جب ہم انگریز کے غلام تھے تو اگرچہ اس کی اطاعت کرنے پر مجبور تھے لیکن اس سے محبت ہرگز نہیں کرتے تھے. لہٰذا اللہ کی عبادت میں اطاعت اور محبت دونوں چیزیں شامل ہوں گی. حافظ ابن قیمؒ نے عبادت کی جو تعریف کی ہے، اس کے مطابق عبادت دو چیزوں کو جمع کرنے سے بنتی ہے: اللہ سے انتہا درجے کی محبت اور انتہا درجے میں اللہ کے سامنے بچھ جانا.
یہ ہے اللہ کا ہم سے تقاضا! گویا ایک لفظ عبادت کے اندر سبھی کچھ پنہاں ہے! اب یہ جان لیجئے کہ عبادات یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا اس کلی بندگی یا عبادت سے کیا تعلق ہے. اس عظیم عبادت کے لیے دراصل ہمیں کوئی مدد چاہئے. کسی مدد کے بغیر ہم اس عبادت کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے.مثلاً ہم نے ایک دفعہ تو طے کر لیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کی بندگی کروں گا، لیکن پھر ہم بھول گئے اور نفس کی بندگی شروع کر دی، کسی فرعون کی اطاعت کرنے لگے. چنانچہ اپنے آپ کو یاد دلاتے رہنے کے لیے نماز ہے. ہر رکعت میں ایاک نعبد وایاک نستعین کے ذریعے تجدید عہد ہو رہی ہے. پھر عبادت رب کے خلاف سب سے بڑے دشمن یعنی نفس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے روزہ دیا. مال کی محبت کم کرنے کے لیے زکوٰۃ و صدقات فرض کئے اور ان ساری برکتوں کو حج میں جمع کر دیا. یہی وجہ ہے کہ فرمایا گیا، جس کا حج اللہ کے ہاں قبول ہو گیا اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے ہو جاتا ہے، جیسے آج ہی اس کی ولادت ہوئی ہے. ایسا اس لیے ہے کہ حج میں ذکر بھی ہے، احرام کی حالت میں نفس کے اوپر پابندیاں بھی ہیں، اس میں بہت سا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور جسم پر مشقت بھی آتی ہے. چنانچہ یہ عبادات اصل میں اس بڑی عبادت کے لیے ہمیں تیار کرتی ہیں. یعنی اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرتی اور شعور بندگی کو قائم دائم رکھتی ہیں.
یہ بھی جان لیجئے کہ یہ عبادت اور اطاعت در حقیقت ہمہ تن، ہمہ وقت، ہمہ وجوہ درکار ہے. جزوی (Partial) فرمانبرداری کو اطاعت نہیں کہا جا سکتا. اللہ کی عبادت تب ہی ہو گی جب اللہ کے تمام احکام مانے جائیں گے. اگر اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام مانے جائیں اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے تو تجزیہ کرنے پر معلوم ہو گا کہ جن احکام کی تعمیل کی گئی وہ ہمارے نفس کو پسند تھے جبکہ نفس پر بوجھ بننے والے احکام نظر انداز کر دیئے گئے. لہٰذا دونوں حالتوں میں ہی درحقیقت نفس کی اطاعت کی گئی، اللہ کی نہیں.سورۃ البقرہ میں تمام انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ترجمہ:’’عبادت کرو اپنے اس رب کی جس نے تمہیں بھی پیدا کیا اور تم سے پہلوں کو بھی پیدا کیا تاکہ تم بچ جائو.‘‘یہاں ’’تم سے پہلوں کو بھی پیدا کیا ’’ذکر اس لیے کیا گیا کہ دنیا میں سب سے بڑی گمراہی یہی رہی کہ فلاں چیز ہمارے آبائو ادجداد سے چلی آ رہی ہے. تو کیا آبائو اجداد گمراہ نہیں ہو سکتے تھے! یہ کوئی دلیل نہیں ہے. حتمی چیز صرف اللہ کی عبادت اور اس کے رسول کی سنت ہے. اسی کو اختیار کر کے دنیا میں اللہ کی نافرمانی سے جبکہ آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچا جا سکتا ہے. اس بات کو مثبت طو رپر سورۃ البقرۃ کی آیت 208 میں کہا گیا ترجمہ:’’اے ایمان کے دعویدارو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو.‘‘
یہاں 33فیصد سے کامیابی نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ کی سو فیصد اطاعت درکار ہے. ایسانہ کرنے کی صورت میں منفی انداز اختیار کرتے ہوئے سورۃ البقرۃ کی آیت 85 میں شدید ترین وعید آئی ہے:
’’کیا تم ہماری اس کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کو نہیں مانتے!‘‘
مثلاً نماز پڑھتے ہو، لیکن سود سے باز نہیں رہتے جس کے بارے میں اللہ نے کہا ہے کہ اس میں ملوث فرد کے خلاف میری اور میرے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے. یہ تضاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے. آگے فرمایا:
’’تو نہیں ہے سزا ان کی جو یہ حرکت کریں تم میں سے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار کر دیئے جائیں (جو کہ آج ہم ہیں) اور قیامت کے دن وہ شدید ترین عذاب میں جھونکے جائیں گے.‘‘ لہٰذا زبان سے اسلام کا دعویٰ کرنے والے لیکن عملی طور پر اللہ کے احکام میں سے کچھ کو ماننے والے اور کچھ کو پائوں تلے روند دینے والے شدید ترین عذاب کے مستحق ہوں گے. آیت کے آخر میں فرمایا گیا:’’اور اللہ غافل نہیں ہے تمہارے اعمال سے.‘‘یعنی وہ تمہارے ظاہری حلیوں سے دھوکہ نہیں کھائے گا. یہ بات واضح ہونے کے بعد اب موجودہ حالات پر آیئے. اس وقت ایک تو وہ مسلمان ہیں جنہیں شریعت کی فکر نہیں ہے، یا اگر ہے تو محض نماز، روزے کی ادائیگی تک. ان کی معاش اور معاشرت میں اسلام کہیں دکھائی نہیں دیتا. لیکن اس بحث سے قطع نظر فرض کیجئے کہ ایک شخص شریعت پر امکانی حد تک سو فیصد بھی عمل کر رہا ہے.چنانچہ وہ سود میں بھی براہ راست ملوث نہیں ہے. شراب کا کبھی قطرہ تک نہیں چکھا. رشوت کبھی نہیں لی… لیکن اس کے باوجود اس کی اطاعت نامکمل اور عبادت ناقص ہے. کیوں؟ دراصل جس نظام کا میں اور آپ حصہ ہیں وہ باطل کا نظام ہے. ہمارا سیاسی نظام سیکولر ہے. اللہ کے احکام اور اس کی شریعت نافذ نہیں ہے. معاشی نظام سارے کا سارا سود، جوئے اور لاٹری پر مبنی ہے. ملک میں فحاشی پھیل گئی ہے. ہم سب اس ماحول کا حصہ ہیں. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کہ ایک زمانہ آئے گا جب کوئی شخص سود نہیں کھائے گا لیکن پھر بھی اس کا غبار اور دھواں اس کے اندر جائے گا.‘‘
دیکھئے یہاں کس قدر حکیمانہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یعنی اگر ہوا آلودہ ہو جائے تو کیا آپ سانس نہیں لیں گے! تنفس کے ذریعے غبار لا محالہ پھیپھڑوں میں جائے گا جو پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہے. اسی طرح آج گندم کے ہر دانے کے اندر سود ہے کیونکہ اس کا بیج سودی قرضے سے خریدا گیا، اس کے لیے کھاد، کیڑے مار ادویات، ٹریکٹر اور ٹیوب ویل کی تنصیب سودی قرضے سے ہوئی. یہ ہے وہ الجھائو کہ آج اپنے ذاتی افعال میں شریعت پر سو فیصد کار بند شخص بھی اجتماعی زندگی میں باطل نظام کی اطاعت کر رہا ہے. اس حوالے سے سورۃ المائدہ کے ساتویں رکوع میں تین مقاما ت پر ایک لفظ کے فرق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا واضح فیصلہ موجود ہے. آیت 44 میں ارشاد ہوا: ’’اور جو کوئی فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق جو کہ اللہ نے اتارا، سوو ہی لوگ ظالم ہیں.‘‘
آیت 47کے مطابق: ’’اور جو کوئی فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق جو کہ اللہ نے اتارا، سو وہی لوگ فاسق ہیں.‘‘
اس کا حل کیا ہے؟ ایک شخص اکیلا نظام تو بدل نہیں سکتا. کہیں اور بھی اسلام قائم نہیں ہے کہ وہاں ہجرت کر سکے. اس کے لیے ایک لفظ ہے کفارہ. جیسے بعض گناہوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے. جس گناہ میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا کفارہ کیا ہے؟ سب سے پہلے تو اس نظام کو ذہناً تسلیم مت کیجئے بلکہ اس سے شدید نفرت رکھیے. حدیث میں اس شدید نفرت کا نام جہاد بالقلب ہے. پھر اس نظام کو (Serve) نہ کیجئے. جیسے اس کی عدلیہ میں جج غیر اسلامی قانون کے مطابق فیصلے دے رہے ہیں.سول سروس اور فوج اسی نظام کو Serve کر رہی ہے. اس کے بعد اس باطل نظام کے تحت اپنا نام پیدا کرنے اور دولت و جائیداد کے حصول تگ و دو نہ کیجئے. یہ تین تو منفی امور ہیں. مثبت طور پر یہ کیجئے کہ اپنی زندگی کو احتجاج کے اندازمیں گزاریں. اپنی ضروریات زندگی کو کم سے کم کرتے ہوئے اپنے وقت اور توانائی کو مزید پیسہ کمانے کے بجائے اس نظام کو تلپٹ کر کے اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد میں لگایئے. یہ کفارہ ہو جائے گا. اگر ایسا نہیں ہے تو ہم اس نظام یعنی اللہ کے باغیوں کے ساتھی ہیں. سورۃ المائدۃ کی آیت 68میں واضح طور پر فرما دیا گیا کہ:
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجئے کہ اے کتاب والو، تم کسی راہ پر نہیں جب تک قائم نہ کرو تورات اور انجیل کو اور جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے اترا.‘‘
نظام باطل کے تحت زندہ رہنا بھی حرام ہے اگر ہم اس کو بدلنے اور اس کی جگہ نظام حق قائم کرنے کی جدوجہد نہ کر رہے ہوں. اس حرام حلال کے تصور کو سمجھئے. دیکھئے کوئی شخص سور کھا رہا ہے تو کہیں گے کہ یہ سور حرام ہے. دوسری طرف ایک شخص مرغی کا گوشت کھا رہا ہے، لیکن وہ مرغی اس نے کسی کی جیب کاٹ کر خریدی تھی. اب بتایئے وہ حلال کھا رہا ہے یا حرام؟ اس طرح ڈاکوئوں کے کسی ڈیرے پر کوئی شخص کھڑا پہرا دے رہا ہے. وہ حرام کھا رہا ہے یا حلال؟ اس اعتبار سے باطل نظام کے تحت سانس لینا بھی حرام ہے جب تک کہ آپ اس کے خلاف اور نظام حق کو قائم کرنے کے لیے کوشش نہ کریں. دراصل اسلام کے اجتماعی نظام کو عملاً قائم کر دینا اللہ نے ہم پر فرض نہیں کیا بلکہ اس کے لیے کوشش یا جدوجہد کو بنیادی دینی فریضہ قرار دیا ہے. اسی طرح اس فرض کی ادائیگی کے ضمن میں خود کو دھوکہ نہ دیں کہ ہم تبلیغ کر کے یا کوئی دارالاشاعت قائم کر کے غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد کا حق ادا کر رہے ہیں. یہ جدوجہد ایک منظم جماعت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ نظام کو بدلنے کا مطلب انقلاب لانا ہے اور انقلاب ان چھوٹے موٹے کاموں سے نہیں آ سکتا. خون دیئے بغیر انقلاب آ سکتا تو حضرت محمدﷺ کا انقلاب بغیر قطرہ خون کے ہوتا. اسی طرح جان لیجئے کہ یہ کوئی اضافی نیکی کا کام نہیں بلکہ لازمی بنیادی فریضہ ہے، یعنی جہاں نظام باطل ہے وہاں اس نظام کے خلاف جدوجہد بندہ مومن پر فرض ہے. اگر یہ باتیں آپ پر واضح ہو گئی ہوں تو اب یہ کام آپ کا ہے کہ آپ کوئی جماعت تلاش کریں. جماعت کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا. جن انبیائے کرام کو جماعت یعنی رفقائے کار نہیں ملے، وہ کوئی نظام قائم کیے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے. حضرت موسیٰ ؑ کے پاس چھ لاکھ کی نفری تھی، لیکن جب جنگ کا وقت آیا تو ان میں سے صرف دو آدمی نکلے. لہٰذا کسی جماعت کا ہونا لازم ہے.
لوگ کہتے ہیں کہ اتنی زیادہ جماعتیں ہیں، ہمیں کیا پتا کون سی ٹھیک جماعت ہے. اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جوتا خریدنے کی ضرورت ہو تو آپ یہ کہہ کر بیٹھ تو نہیں جاتے کہ بارہ دکانیں ہیں، پتا نہیں کہاں ٹھیک ملتا ہے. اس کے بجائے آپ بازار جاتے ہیں اور قیمتوں کا موازنہ کر کے جوتا خریدتے ہیں. اگر آپ نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ کے نظام کو قائم کرنا فرض عین ہے. اور یہ فرض جماعت کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا تو جماعت تلاش کرنا آپ کا فرض ہے. اگر کوئی جماعت نہیں ملتی تو خود کھڑے ہو کر جماعت بنانا آپ پر فرض ہو گا. جیسے نماز وضو کے بغیر نہیں، اقامت دین کا فرض جماعت کے بغیر نہیں. یہ جماعت بھی بیعت کے اصول پر قائم ہونی چاہئے. سب سے پہلے تو اس جماعت کا واضح اعلان یہ ہو کہ اس کا نصب العین نظام کی تبدیلی ہے.
اگرچہ اسلام کی دعوت، تبلیغ، دینی کتب کی اشاعت اور فی سبیل اللہ تقسیم، ناظرہ اور حفظ قرآن کے مدرسے بنانا، دارالعلوم قائم کرنا سب کام اچھے ہیں لیکن یہ بات صریحاً بیان کر دینی چاہئے کہ ہمارا اصل مدعا اور مقصد اس باطل نظام کو تلپٹ کرنا اور اس کی جگہ پر اسلامی نظام قائم کرنا ہے.اس جماعت کا ڈسپلن نہایت مضبوط ہونا چاہئے. اس مقصد کے لیے بہترین طریقہ بیعت سمع و طاعت کا ہے. جس کا ذکر حدیث میں بھی ہے. اس ضمن میں بخاری اور مسلم دونوں میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ایک تفصیلی روایت کا ذکر ملتا ہے.اس جماعت کے قائدین سے پوچھنا چاہئے کہ آپ اسلام کو کس طریقے سے نافذ کرنا چاہتے ہیں! باطل کے نظام کو ختم کرنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے گا؟ بعض لوگوں کے نزدیک یہ مقصد الیکشن کی ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے. پھر ایسے مخلص لوگ بھی ہیں جو اسلام کے لیے جانیں دے رہے ہیں. انہیں آج کل دہشت گرد کہا جا رہا ہے. لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ان طریقوں سے کوئی مستقل اور پائیدار تبدیلی ممکن نہیں. ہمارے نزدیک اسلام کے نظام کو قائم کرنے کا طریقہ صرف سیرت محمدیؐ سے ماخوذ ہونا چاہئے.اس جماعت کی قیادت کے قریب جا کر دیکھئے کہ اس سے خلوص کی خوشبو آتی ہے یا دنیاداری کا دھندا معلوم ہوتا ہے! قیادت کا اخلاص اور خلوص بہت ضروری ہی، کیونکہ پیچھے چلنے والوں میں تو ہر طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں. آنحضورﷺ کے پیچھے چلنے والوں میں جہاں نہایت مخلص جانثار ساتھیوں کی ایک مضبوط جماعت تھی وہاں کچھ منافق بھی شامل تھے.
اگر ان چار اعتبارات سے کسی جماعت کے بارے میں آپ کا دل ٹھک جائے تو اس میں شامل ہونا فرض ہے. عدم شمولیت سے اس سارے کام کی نفی ہو جائے گی. اگر کوئی جماعت مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اترتی اور آپ موجودہ تمام جماعتوں کو مسترد کر دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اپنے ذہن میں کوئی ایسا تصور ضرور موجود ہے جس کے حوالے سے آپ دوسروں کو پرکھ رہے ہیں، لہٰذا آپ خود کھڑے ہوں اور جماعت بنائیں. ایک امام، ایک مقتدی ہو تو جماعت کا کم از کم تقاضا پورا ہو جائے گا. محنت کیجئے، لوگ آہستہ آہستہ آ جائیں گے. آنحضورﷺ کو ابتدائی دس سال میں صرف سو آدمی ملے تھے. حاصل کلام یہ کہ اگرچہ بین الاقوامی حالات، پاکستان کا مستقبل اپنی جگہ بہت اہم موضوعات ہیں لیکن میرے اور آپ کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ روز محشر اللہ کی طرف سے یہ شکوہ نہ ہو کہ تم دنیا میں میرے باغیوں کے وفادار رہے تھے کیونکہ اس سے بڑی بغاوت دنیا میں کبھی نہیں ہوئی جو آج ہے. آج کی دنیا میں اللہ کو انسانی زندگی سے نکال دیا گیا ہے. ہمارے پارلیمنٹ میں، مارکیٹوں کے اندر حتیٰ کہ گھروں میں بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کو روندا جا رہا ہے. اللہ کے خلاف یہ بغاوت اب بروبحر میں پھیل گئی ہے. اس سے نجات کا صرف ایک راستہ ہے… اس بغاوت کے خلاف بغاوت!