عیسائی مذہب کے بہت سے بنیادی عقائد میں اسلام سے حیرت انگیز حد تک مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ انہی عقائد میں یہودیت اور عیسائیت کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے. زیرِ نظر تحریر کے ذریعے مختلف مسائل پر تینوں مذاہب کا نقطۂ نظر پیش کرکے عیسائی بھائیوں کو دعوت فکر دینا مقصود ہے کہ وہ غیرجانبدارانہ انداز میں غور و فکر کریں کہ ان کے عقیدے سے قریب ترین کون ہے، یہودی یا مسلمان؟ سب سے پہلے ولادتِ مسیح کا مسئلہ لیجئے، عیسائیوں کا ایمان ہے کہ مسیح کی ولادت کنواری مریم سلام علیہا سے بن باپ کے ہوئی. یہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے اﷲ تعالیٰ کے خصوصی ’’کلمۂ کُن ‘‘سے ہوئی. سورۃ النساء (آیت ۱۷۱) میں الفاظ آئے ہیں. ’’بے شک مسیح d ابن مریم، اﷲ کا ایک رسول ہی تو تھا اور اس کا ایک فرمان تھا جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اﷲ کی طرف سے.‘‘ تو ہمارا عقیدہ عیسائیوں سے قریب تر ہے جبکہ یہودی تو سیدہ مریم (سلامٌ علیہا) پر بدکاری کی تہمت لگاتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کو (معاذ اﷲ) ولد الزنا قرار دیتے ہیں. ان کی جرأتوں کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے امریکہ میں Son of Man کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں واشگاف الفاظ میں کہا گیا کہ : Jesus is not son of God; he was son of man. He was not born without any father; he had a father 

یہ پوری فلم گویا ’’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘‘ کی عملی مصداق ہے. انہوں نے عیسائیت، خاص طور پر پروٹسٹنٹ عیسائیت کو جس طور پر فتح کیا ہے اس کا اس سے بڑا مظہر اور کیا ہوگا کہ اس کے گھر میں بیٹھ کر یہ باتیں کہہ رہے ہیں اور ان کے خداوندِ یسوع مسیح کو گالی دے رہے ہیں کہ وہ حرامی تھا (معاذ اﷲ) پھر جناب مسیح علیہ السلام کی شخصیت کو لیجئے. یہود کے نزدیک وہ مرتد، کافر، جادو گر اور واجب القتل تھا. اس مؤقف میں انہوں نے آج تک کوئی ترمیم نہیں کی. اگر آج کے یہودی اس سے اعلانِ براء ت کرلیتے تو بات اور تھی. اس صورت میں کہا جاسکتا تھا کہ اب ان کی ان نسلوں کو تو بہرحال ان کے اسلاف کے جرائم کی سزا نہیں دی جانی چاہئے. لیکن ان کا مؤقف بھی بالکل وہی ہے کہ یسوع جادوگر تھا لہٰذا کافر تھا، اور چونکہ کافر تھا لہٰذا مرتد تھا اور مرتد واجب القتل ہے. یہ علمائِ یہود کا فتویٰ ہے. اس کے برعکس مسلمانوں کے نزدیک وہ اﷲ کے رسول ہیں. قرآن مجید نے خود حضرت مسیح علیہ السلام کی زبانی آنجنابؑ کی کیا خوبصورت مدح بیان کی ہے.’’اور سلام ہے مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں مروں اور جس روز زندہ کرکے اُٹھایا جائوں…… یہ ہے عیسیٰ ؑ ابن مریم.‘‘حضرت مسیح علیہ السلام نے جبکہ وہ ابھی گود ہی میں تھے، لوگوں سے یہ گفتگو کی تھی. یہ مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں کا بھی. حضرت مسیح علیہ السلام کے عظیم ترین معجزات کو ہم بھی مانتے ہیں، وہ بھی مانتے ہیں. اس کے برعکس یہودی آپؑ کے معجزات کو جادوگری قرار دیتے ہیں. لہٰذا مسیحیوں کو سوچنا چاہئے ، غور کرنا چاہئے. دوست اور دشمن کو پہچاننا چاہئے.

پھر رفع مسیح علیہ السلام کے معاملہ کو لیجئے. یہودیوں کا مؤقف ہے کہ مسیح مرگیا تھا، 
اسے ہم نے سولی پر چڑھا دیا تھا، قرآن حکیم میں ان کے الفاظ نقل ہوئے ہیں. ترجمہ: ’’کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اﷲ کو قتل کردیا ہے.‘‘ جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قتل نہیں کئے گئے، زندہ آسمان پر اُٹھا لئے گئے.عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان کے نزدیک مسیح علیہ السلام صلیب دیئے گئے، پھر زندہ ہوکر آسمان پر اُٹھا لئے گئے. ہمارے نزدیک صلیب دیئے جانے کا سوال ہی نہیں، کیونکہ اﷲ کا رسول کبھی صلیب نہیں دیا جاسکتا. نبی تو قتل کیا جاسکتا ہے، لیکن رسولوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا اصول یہ ہے کہ ’’اﷲ نے یہ بات مقرر فرما دی ہے کہ میں اور میرے رسول لازماً غالب رہیں گے.‘‘ چنانچہ سورۃ المائدہ میں یہود کے قتل مسیح علیہ السلام کے دعوے کو نقل کرنے کے فوراً بعد دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا گیا ’’حالانکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا، بلکہ معاملہ ان کے لئے مشتبہ کردیا گیا.‘‘ ان کو غلط فہمی میں مبتلا کردیا گیا اور اس غلط فہمی کی وضاحت انجیل برنباس میں ہے کہ حقیقت میں وہی یہودا اسکر یوتی جو حضرت مسیح علیہ السلام کے حوارِیین میں شامل تھا اور جس نے سونے کی تیس اشرفیوں کے بدلے مخبری کرکے آپؑ کو گرفتار کروادیا تھا اس کی شکل حضرت مسیح علیہ السلام کی سی بنادی گئی اور اسے آپؑ کی جگہ سولی پر چڑھادیا گیا. وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ کا مفہوم یہی ہے کہ وہ اپنے خیال میں مسیح علیہ السلام کو مصلوب کررہے تھے لیکن درحقیقت اس بدبخت کو سولی پر چڑھا رہے تھے جس نے کہ غداری کی تھی اور تیس اشرفیوں کے عوض اپنے خداوندِ یسوع مسیح علیہ السلام کو فروخت کردیا تھا.

اسے یہودی عدالت سے اس غداری کے انعام میں تیس اشرفیاں ملی تھیں. انجیل بر نباس میں مزید تصریح ملتی ہے کہ آسمان سے چار فرشتے اُترے جو چھت پھاڑ کر اس کمرے میں داخل ہوئے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام عبادت کررہے تھے اور انہیں اُٹھا کر لے گئے. یہ تفصیلات کسی حدیث میں ہیں نہ کسی تفسیر میں، بلکہ برنباس کی انجیل میں مذکور ہیں. مسلمانوں کی رائے بھی یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے اور ان کی رائے بھی یہی ہے. فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک وہ سولی دیئے ہی نہیں گئے، بلکہ ان کی جگہ پر کسی اور کو سولی چڑھایا گیا، جبکہ ان کے نزدیک وہ سولی دیئے گئے، پھر انکا "Resurrection" ہوا یعنی پھر زندہ ہوگئے اور اس کے بعد آسمان پر اُٹھائے گئے. لیکن یہودی تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے انہیں قتل کردیا، ختم کردیا.اس کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کی دنیا میں دوبارہ آمد (Second Coming of Jesus) کا معاملہ لیجئے. مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہی عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم قیامت کے قریب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، عیسائی بھی یہی مانتے ہیں. چنانچہ یہ چار عقیدے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین مشترک ہیں. جبکہ ان چاروں میں یہودی ان سے مختلف ہی نہیں، ان کے متضاد عقائد رکھتے ہیں.

ایک بات مزید نوٹ کیجئے . ہمارے نزدیک بھی نزول مسیح علیہ السلام سے قبل ایک مسیح الدجال آنے والا ہے، ان کے نزدیک بھی 
Anti-Christ آنے والا ہے اور یہودیوں کی عیاری ملاحظہ ہو کہ انہوں نے عیسائیوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ وہ ’’انٹی کرائسٹ‘‘ مسلمانوں میں سے ہوگا. حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے، اس لئے کہ مسلمان تو مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں. انٹی کرائسٹ (مسیح الدجال) درحقیقت ایک یہودی ہوگا، اس لئے کہ یہودی ایک ’’مسیح‘‘ کے منتظر تھے، لیکن حضرت مسیح علیہ السلام آئے تو ان کو مانا نہیں، لہٰذا ان کے نزدیک مسیح کی جگہ ابھی خالی ہے اور یہ اپنے اس مسیح کے منتظر ہیں. چنانچہ انہی میں سے کوئی یہودی کھڑا ہوکر مسیح ہونے کا دعویٰ کردے گا. جیسا کہ سولہویں صدی عیسوی میں یہودیوں کو ایک شخص کے بارے میں یقین کامل ہوگیا تھا کہ یہی مسیح ہے اور یہ اب اعلان کرنے والا ہے. لیکن سلطنت عثمانیہ نے اُسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا، جہاں وہ مسلمان ہوگیا اور یہ ہاتھ ملتے رہ گئے. اس ضمن میں History of God بڑی اہم کتاب ہے جو اس دور میں چھپی ہے. اس کی مصنفہ نے لکھا ہے کہ حضرت موسٰی ؑ کے بعد یہودیوں کی پوری تاریخ میں اس شخص سے زیادہ محبوب اور ہردلعزیز شخصیت نہیں گزری ہے. پھر حال ہی میں ایک اور شخص کا امریکہ میں انتقال ہوا ہے جس کے بارے میں انہیں اُمید تھی کہ یہ مسیح ہے اور اعلان کرنے والا ہے، لیکن وہ مرگیا. بہرحال حضرت مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد سے قبل ایک جھوٹا مسیح، فریبی مسیح، مسیح الدجال (Anti-Christ) لازماً آئے گا اور وہ یقینا یہود میں سے ہوگا. اس کی آمد وہ پانچواں نقطہ ہے جو ہمارے اور عیسائیوں کے درمیان مشترک ہے. یہ دوسری بات ہے کہ عیسائی دنیا کو یہودیوں نے یہ بات باور کرادی ہے کہ وہ مسلمان ہوگا.

اب میں ایک خاص بات اضافی طور پر اپنے عیسائی بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں. عالمی سطح پر جو یہودی سازش چل رہی ہے وہ تو اب واضح ہوچکی ہے. اس پر کتابیں بھی آچکی ہیں. جنہیں دلچسپی ہو وہ
Pawns in the Game جیسی کتابوں کا مطالعہ کرلیں. اب تو ان کا Order of Illuminati بھی پورے کا پورا طشت از بام ہوچکا ہے اور اب یہودیوں کو ان چیزوں کے افشاء سے کوئی اندیشہ بھی نہیں ہے. اس لئے کہ وہ اپنے سارے مقاصد حاصل کرچکے ہیں. صیہونیت نے عالم عیسائیت کو اپنے پھندے میں گرفتار کر کے اسے اپنا آلہ کار بنا لیا ہے اور اب اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے. لیکن اس کے علاوہ خاص طور پر پاکستان میں ایک اور معاملہ بھی ہے. عالمی صیہونیت (World Zionism) کے علاوہ ایک پاکستان کی دیسی یہودیت (Indigenous Zionism) بھی ہے جس سے میں اپنے پاکستانی مسیح بھائیوں کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں. میری مراد قادیانیت سے ہے اور جہاں تک میری معلومات ہیں یہ قادیانی پاکستانی مسیحیوں کو استعمال کررہے ہیں. یہ خود تو سامنے آنہیں سکتے، کیونکہ ملکی قانون ان کی راہ میں رکاوٹ ہے، اگرچہ در پردہ ان کی تبلیغی سرگرمیاں بھی جاری ہیں ، کنونشن بھی منعقد ہوتے ہیں، سیٹلائیٹ کے ذریعے سے خطابات بھی آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود قادیانی برملا طور پر کھلم کھلا سامنے نہیں آسکتے، لہٰذا اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انہیں کسی کور (Cover) کی ضرورت ہے، اور اپنی یہ ضرورت پوری کرنے کے لئے انہوں نے یہاں کے عیسائیوں کو ورغلایا ہے. لہٰذا مجھے پاکستانی مسیحیوں سے یہ عرض کرنا ہے کہ جہاں وہ عالمی یہودی سازش کا آلہ کار بننے سے بچیں ، وہیں اس ’’دیسی یہودیت‘‘ سے بھی خبر دار رہیں. اس کے بارے میں بھی انہیں صحیح صحیح معلومات ہونی چاہئیں. چنانچہ ذرا ان کے ساتھ بھی اپنے عقائد کا موازنہ کریں تو اندازہ ہو کہ اختلاف کس درجے زیادہ ہے. مسلمانوں کے برعکس قادیانی بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی بغیر باپ کے ولادت کے قائل نہیں ہیں، لہٰذا وہ یہودیوں کے قریب تر ہوگئے ہیں یا نہیں؟ محمد حسین نامی ایک شخص جو بہت عرصے تک لاہور ی مرزائیت کے انگریزی پرچے The Light کا ایڈیٹر رہا تھا، مرزائیت سے منحرف ہوگیا تھا. بقول اس کے وہ لاہوریت اور قادیانیت دونوں سے اعلانِ برأت کرچکا تھا. وہ شخص میرے دروس میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا تھا اور میرے لئے وہی القابات استعمال کرتا تھا جو یہ لوگ اپنے بڑے بڑے لوگو ں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں. میرے پاس اس کی وہ کتاب بھی موجود ہے جس میں اس نے میرے لئے وہ القابات لکھے ہوئے ہیں. لیکن اس شخص نے جب میرا سورۂ مریم کا درس سنا جس میں میں نے یہ الفاظ استعمال کئے کہ ’’جو شخص بھی اس بات کو نہیں مانتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی ہے وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا‘‘، تو اس دن کے بعد وہ میرے دروس میں نہیں آیا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس نے میرے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا، پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کئے اور میرے خلاف سازشیں شروع کردیں، حالانکہ کہنے کو وہ قادیا نیت سے تائب ہوچکا تھا.لیکن اس کے باوجود وہ اس معاملے میں قادیانیوں کے عقیدے پر قائم تھا. پھر قادیانی یہودیوں کی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے بھی قائل نہیں ہیں، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مسیح وہاں سے بھاگ کر یہاں کشمیر آیا اور یہاں مرگیا اور دفن ہوگیا. ان کے نزدیک یہاں اس کی قبر بھی موجود ہے. قادیانیوں کا یہ مؤقف قرآن کے فلسفہ کے سراسر خلاف ہے. جان لیجئے کہ کوئی رسول جان بچا کر نہیں بھاگا کرتا. البتہ ہجرت ہوسکتی ہے لیکن رسول کی ہجرت کے بعد یا تو پوری قوم ہلاک کردی جاتی ہے، یا رسول کو ان کے اوپر فتح حاصل ہوتی ہے، غلبہ نصیب ہوتا ہے، جیسے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح حاصل ہوئی اور حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت موسیٰؑ تک جن جن رسولوں نے بھی ہجرت کی ان کی قومیں ہلاک کردی گئیں. اﷲ کی سنت تو یہ ہے . اس کے برعکس یہ کہنا کہ مسیح وہاں سے جان بچا کر بھاگ کر آگئے اور یہاں گمنامی میں ان کی موت واقع ہوگئی سراسر غلط ہے. معاذ اﷲ، ثم معاذ اﷲ. اﷲ کے کسی رسول کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوگی.تیسری بات یہ کہ قادیانی حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کی طرح ان کی دوبارہ آمد کے بھی منکر ہیں. اس ضمن میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اصل میں تو مثیلِ مسیح کو دنیا میں آنا تھا اور وہ آگیا، مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں. تو اگر تمہارے قول کے مطابق مسیح دجال اور انٹی کرائسٹ بنتا ہے تو وہ مرزا قادیانی آنجہانی بنتا ہے، اس نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں. بہرحال عیسائیوں کو کسی صورت میں قادیانیوں کے ہتھکنڈوں میں نہیں آنا چاہئے. مجھے اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے. ؎

شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری

یعنی شکار خود یہ چاہے کہ مجھے شکار کرلیا جائے.دراصل اس دیسی یہودیت یا ہندی یہودیت کو ملک خدا دادِ پاکستان سے اس لئے بعض وعداوت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ملتِ اسلامیہ پاکستان کو توفیق عطا فرمائی کہ اس نے علماء کے اجماع 
( Consensus) کے ساتھ، قانون اور دستور کے تمام تقاضے پورے کرکے دستوری طور پر ان کی تکفیر کی اور ایسا نہیں ہوا کہ ان کی بات نہ سنی گئی ہو. مرزا ناصر احمد کو قومی اسمبلی میں بلا کر پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنے مؤقف کا پوری طرح دفاع کرے. اس نے برملا کہا کہ ’’ہم مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں.‘‘ اس کے بعد پوری اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر یہ اس مؤقف پر قائم ہیں تو دائرہ اسلام سے خارج ہیں. لہٰذا وہ ہم سے اس کا انتقام لینا چاہتے ہیں اور اس کے لئے یہاں کے مسیحیوں کو اپنا آلہ کار بنانا چاہتے ہیں. اب ہمارے یہاں کے عیسائی بھائیوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کس کے خلاف کس کے آلہ کار بن رہے ہیں؟ ہم تو خود منتظر ہیں حضرت مسیح علیہ السلام کے اور وہ حضرت مسیح علیہ السلام ابن مریم ہوں گے، کوئی مثیل مسیح نہیں. قادیانیت کے اسی شوشے کی علامہ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ نامی نظم میں اس طرح تعبیر کی ہے.

آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟

یہ قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ فرزندِ مریم کی صفات کا حامل مجدد غلام احمد آگیا ہے، بس اب کسی اور مسیح کو نہیں آنا ہے. جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام، عیسٰی ابن مریم دوبارہ بنفس نفیس دنیا میں تشریف لائیں گے. البتہ ان کے نزول سے قبل یہودیوں میں سے ایک مسیح دجال کھڑاہوگا جسے حضرت مسیح علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے مقامِ ’’لُد ‘‘ پر قتل کریں گے. (واضح رہے کہ ’’لِڈا‘‘ اسرائیل کا سب سے بڑا ایئر بیس ہے). تو مسیحی بھائیو! یہ ہیں ہمارے عقائد! آپ ہمارے پورے عقائد بے شک نہ مانیں، لیکن مندرجہ بالا گذارشات پر غور تو فرمائیں کہ آپ کے عقیدے سے قریب ترین کون ہے. یہودی یا مسلمان؟ اور قادیانی یا مسلمان؟ کم سے کم اتنا تقابلی جائزہ تو ہر شخص لے سکتا ہے.