ڈیڑھ سو برس تک فلسطین یہودیوں سے خالی رہا. اس کے بعد ایران کا بادشاہ سائرس منظر عام پر آیا‘ جس نے عراق پر حملہ کر کے نمرود کو شکست دی اور یہود کو واپس جانے کی اجازت دے دی. اس وقت حضرت عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تجدیدی و اصلاحی تحریک کے ذریعے بنی اسرائیل کی purgation کی گئی اور مشرکانہ اعمال سے ان کو پاک کیا گیا. معبد سلیمانی کو انہوں نے دوبارہ تعمیر کیا اور اسے Second Temple کا نام دیا. اس کے بعد ان پر یونانی حملہ آور ہوئے‘ سکندر اعظم یہین سے گزر کر انہیں تہس نہس کرتا ہوا پنجاب تک آیا اور اس کے سپہ سالار سلیوکس کی ان پر حکومت رہی. کچھ عرصے بعد رومیوں نے یہاں پر حکومت قائم کر لی.

البتہ انہوں نے براہِ راست قبضہ نہیں کیا بلکہ وہاں پر مقامی بادشاہتیں رہنے دیں. بہرحال اس زمانے میں ایک عظیم مکابی سلطنت قائم ہوئی‘ جس نے 170 ق م سے لے کر 63 ق م تک پھر بالکل وہی نقشہ دکھا دیا جو حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہم السلام کے زمانے کا تھا. یہ 100برس ایسے ہیں کہ پورے فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ رہا. پھر ان کے اندر زوال آیا اور اللہ تعالیٰ نے رومیوں کو ان پر مسلط کیا. حضرت مسیح ؑ اس زمانے میں مبعوث کئے گئے. یہودیوں نے حضرت مسیحؑ کا کفر کیا. انہیں 33 یا 34 عیسوی میں اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا. اللہ تعالیٰ نے یہود کو یوں سزا دی کہ70 ء میں ایک رومن جنرل ٹائٹس نے ان پر حملہ کیا اوریروشلم کی دوبارہ اینٹ سے اینٹ بجا دی.سیکنڈ ٹیمپل گرا دیا گیا. 70ء سے آج 2004ء تک 1934 برس سے یہودیوں کا خانہ کعبہ گرا ہوا ہے. ٹائٹس نے ایک دن میںایک لاکھ 33ہزار یہودی یروشلم میں قتل کئے اور 66ہزار کو وہ قیدی بنا کر یورپ لے گیا. یہودیوں کو فلسطین سے نکلنے کا حکم دے دیا گیا. 1917ء تک یہودی فلسطین سے بے دخل رہے ہیں.یہ ساری داستانن میں نے آپ کو اس لئے بتائی ہے کہ یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین کی سرزمین اللہ نے ہمیں دی ہے اور اس پر ہمارا پیدائشی حق ہے. آج بدقسمتی سے لبرل مسلمان‘ یہاں تک کہ میں حیران ہوں کہ بعض وسیع النظر علماء بھی ان کے اس دعوے کو تسلیم کر رہے ہیں. اس کے لئے قرآن کے ان الفاظ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ’’تمہارے لئے یہ ارض مقدس لکھ دی گئی ہے.‘‘ لیکن اُس وقت یہ چیز اس سے مشروط تھی کہ اگر جہاد کر کے فتح کر لو گے تو یہ تمہاری ہوگی. جب انہوں نے جہاد و قتال نہیں کیا تو یہ وعدہ ختم ہو گیا. بہرحال ان کا حق نہیں ہے یہاں پر .

وہ دو ہزار سال پہلے نکال دیئے گئے تھے. پوری دنیا میں ان سے شدید نفرت کی جاتی تھی. عیسائی یورپ کے اندر انہیں ستایا اور مارا جاتا تھا. ا ن کو شہروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی اور ان کی بستیاں شہروں سے باہر ہوتی تھیں‘ صرف دو گھنٹے کا قت مقرر تھا کہ ضروریاتِ زندگی کی خرید و فروخت کے لئے آجا سکتے ہو. یہ حال تھا ان کا!فلسطین پر یہودیوں کے دعوے میں عیسائیوں کا بھی ایک بہت بڑا اور مؤثر حلقہ ان کے ساتھ ہے. عیسائیوں کو دو فرقوں یعنی کیتھولکس اور پروٹسٹنٹس میں تقسیم کرنے والے بھی یہودی تھے‘ ورنہ پہلے سب عیسائی ایک پوپ کو ماننے والے تھے. پوپ کے خلاف بغاوت یہودیوں نے کروائی اور سب سے پہلے اس کا ظہور انگلستان میں ہوا. انگریزوں نے اپنا چرچ ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کے نام سے علیحدہ کر لیا‘ جو پوپ کے تحت نہیں تھا. سب سے پہلا پروٹسٹنٹ ملک بھی برطانیہ تھا اور وہیں پر یہودیوں نے سب سے پہلا ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ قائم کیا تھصا. اس سے پہلے دنیا میں کوئی بینک نہیں تھا. کوئی سودی معاملہ نہیں تھا. پوپ کے زیر اثر کسی بھی علاقے میں سود کی اجازت نہیں تھی. یوں پروٹسٹنٹس یہودیوں کے آلۂ کار بن گئے. 100 سال پہلے تک پروٹسٹنٹس کا امام برطانیہ تھا‘ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہ جگہ امریکہ نے لے لی ہے. عیسائیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ارضِ فلسطین سے ان کا بھی تعلق ہے. حضرت عیسیٰ ؑجہاں پیدا ہوئے‘ وہ مقام بیت اللحم ہی تھا. پھر جہاں انہوں نے تبلیغ کی‘ وہ سارا علاقہ فلسطین ہی کا تو ہے. پھر عیسائیوں کے قول کے مطابق اسی یروشلم شہر کے اندر انہیں صلیب دی گئی. تو عیسائیوں کی نظر میں فلسطین مذہبی اعتبار سے ان کا اہم ترین اور مقدس ترین علاقہ ہے.

یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے ایک ہزار سال بعد انہوں نے ارض مقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے واگزار کرانے کے لئے کروسیڈز شروع کیں. ان کروسیڈز کے اندر انتہائی خون ریزی ہوئی اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں میں مسلمانوں کی اکثر بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں. 1099ء میں عیسائیوں نے یروشلم فتح کر لیا اور وہاں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا. یورپی مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب عیسائی فاتحین کے گھوڑے یروشلم میں داخل ہوئے تو ان گھوڑوں کے گھٹنوں تک خون کا دریا بہہ رہا تھا. مسلمانوں پر ایسا عذاب آیا. لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اٹھاسی سال بعد 1187ء میں اس نے ایک مرد مجاہد صلاح الدین ایوبی کو اٹھایا. انہوں نے عیسائیوں کو شکست دی اور یروشلم واپس لے لیا. اس کے بعد بھی تین چار کوششیں ہوئی ہیں. کروسیڈز ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ہوئے ہیں. تاہم‘ اب امریکہ کے پروٹسٹنٹ عیسائی کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ کن صلیبی جنگ شروع ہونے والی ہے‘ جب مسلمانوں کے ایک ایک بچے کو فلسطین سے نکال دیا جائے گا اور یہ زمین پاک کر دی جائے گی. The Philadelphia Trumpet کی اشاعت بابت اگست 2001ء میں اس کے ایڈیٹر کی طرف سے یہ عبارت شائع ہوئی ہے کہ ’’اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ صلیبی جنگ ماضی کی بات ہے جو ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی. لیکن وہ غلط سمجھتے ہیں. آخری صلیبی جنگ کے لیے تیاریاں ہو رہی ہیں اور وہ سب سی زیادہ خون ریز ہو گی.‘‘اب مستقبل کیا ہے؟ آئندہ کے حالات سامنی آ گئے ہیں.

سن 70ء سے نکالے ہوئے یہودی جن کی انتہائی persecution ہونی ہے- پہلے کروسیڈز میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے ‘ اس کے برابر یہودیوں کا بھی ہوا ہے کیونکہ عیسائیوں کو یہودیوں سے بھی شدید نفرت تھی. ایک قوم (عیسائی) حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا مانتی ہے جبکہ دوسری (یہود) انہیں حرام زادہ‘ واجب القتل‘ کافر اور مرتد ٹھہراتی ہے (نعوذ باللہ). تو ان دونوں قوموں میں کوئی مصالحت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ تاریخ کا معجزہ ہے. یہ یہودیوں کی محنت ‘ جدوجہد‘ کوشش‘ سازشی انداز‘ منصوبہ بندی اور دوراندیشی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے عیسائیوں کو جو یہودیوں خون کے پیاسے تھے اور ان سے انتہائی نفرت کرتے تھے‘ رفتہ رفتہ دو فرقوں میں تقسیم کر دیا. پروٹسٹنٹس کو انہوں نے اپنا آلہ کار بنایا اور آج پوری عیسائی دنیا ان کے قبضہ قدرت میں ہے. یہودیوں کا ایجنڈا کیا ہے؟ آرمیگاڈان کی ایک خبر دی گئی ہے کہ بہت بڑی جنگ ہوگی. وہ چاہتے ہیں کہ یہ جلد از جلد ہو جائے‘ جس کی حدیث میں بھی خبر ہے الملحمۃ الکبریٰ. تاریخ انسانی کی یہ سب سے بڑی جنگ کئی سالوں پر پھیلی ہوگی. یہ جنگ اگرچہ چھوٹے سے علاقے میں ہوگی‘ لیکن خون ریزی کے اعتبار سے دنیا کی تاریخ کی کوئی جنگ اس کے مساوای نہیں ہوگی. تو یہود چاہتے ہیں کہ پہلے تو آرمیگاڈان کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل قائم ہو جائے. اس کے لئے کوشش ہو رہی ہے. ذرا سوچئے کہ امریکہ نے عراق پر کیوں حملہ کیا! ابھی تک کوئی وجہ سامنے نہیں آ سکی. کوئی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار برآمد نہیں ہوئے. بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ تیل کے لئے کیا گیا. قطعاً نہیں! یہ گریٹر اسرائیل کی طرف پہلا قدم ہے. 1991ء کی خلیجی جنگ کے اتحادی کمانڈر انچیف نے بعد میں صاف کہہ دیا تھا کہ ’’ہم نے اسرائیل کی حفاظت کے لیے جنگ کی.‘‘ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم نے گریٹر اسرائیل بنانا ہے. پہلے کہتے تھے کہ فرات تک ہمارا علاقہ ہے‘ اب کہتے ہیں دریائے دجلہ بھی ہمارا ہے. سقوط بغداد کے وقت اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے صااف کہہ دیا تھا کہ عنقریب عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا. یہ ساری تیاری اس کے لئے ہے. یہ یہودی ہیں جو بش اور اس کے ساتھیوں کو چابی دے رہے ہیں. یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ 11ستمبر2001ء کا واقعہ کرنے والے بھی یہودی ہیں. امریکہ میں اب اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہو رہی کہ 11ستمبر2001ء کا واقعہ کس نے کیا تھا! شروع میں کچھ کارروائی ہوئی تھی ‘ لیکن اس کی بعض باتیں لیک ہونے پر معاملہ فوراً ٹھپ کر دیا گیا. کیونکہ وہ کھرا تو اسرائیل تک پہنچ رہا تھا. بہرحال یہودیوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ سب سے پہلے آرمیگاڈان جلد از جلد ہو جائے جس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل قائم ہو . وہاں پر وہ اپنا تھرڈ ٹمپل تعمیر کریں گے‘ جس کے لئے مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرا دونوں کو گرایا جائے گا. پھر وہاں پر تخت دائود لاکر رکھا جائے گا اور اس پر وہ مسیحا آ کر بیٹھے گا جس کا انہیں انتظار ہے.پروٹسٹنٹ عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ آرمیگاڈان جنگ جلد ہو‘ گریٹر اسرائیل قائم ہو اور تھرڈ ٹمپل بنے. پروٹسٹنٹ عیسائیوں اور کیتھولکس کے درمیان مذہب کے نام پر جتنی خون ریزی ہوئی ہے‘ دنیا میں کبھی نہیں ہوئی. یورپ میں اس پر جس قدر خانہ جنگیاں ہوئی ہیں‘ اس کا آپ تصور نہیں کر سکتے. سارے پروٹسٹنٹس یہاں سے مار مار کر بھگا دیئے گئے‘ جو امریکہ میں جا کر آباد ہوئے. یورپ کا بڑا حصہ کیتھولکس پر مشتمل ہے. سپین‘ اٹلی‘ فرانس ‘ جرمنی سب کیتھولکس ہیں. پروٹسٹنٹس نے امریکہ کے اندر اپنی نئی دنیا بسائی ہے اور وہاں وہ غالب ہیں. یہودی اور پروٹسٹنٹ عیسائی برطانیہ اور امریکہ کونیا اسرائیل کہتے ہیں‘ اس لئے کہ یہاں انہیں طاقت اور کنٹرول حاصل ہے. بہرحال کیتھولکس کی چونکہ پروٹسٹنٹس کے ساتھ دشمنی ہے اس لئے درحقیقت اب یورپ میں آخری صلیبی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے. یورپ کو دوبارہ متحد کیا جا رہا ہے‘ جیسے کبھی رومن امپائیر ہوتی تھی اور پورا یورپ تقریباً ایک بادشاہ کے تحت ہوتا. یہ اصل میں پوپ کی طرف سے کروایا جا رہا ہے تا کہ بہت بڑی رومن کیتھولک امپریلزم قائم ہو سکے. نیٹو سے علیحدہ ہو کر یورپ کی اپنی الگ فوج بنانے کی تیاریاں بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں. پروٹسٹنٹس کا کہنا یہ ہی کہ کیتھولک عیسائی فلسطین کو فتح کرنا چاہتے ہیں‘ تا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کو ختم کر کے وہاں پر کیتھولک عیسائی ریاست قائم ہو جائے.

سابقہ امت بنی اسرائیل جن کو اللہ نے کتاب ہدایت اور کتاب شریعت تورات عطا کی تھی‘ تقریباً دو ہزار برس تک اس دنیا میں اللہ کی نمائندہ قوم کے منصب پر فائز رہی. 
انہیں 1400 قبل مسیح میں تورات عطا کی گئی تھی اور 610 عیسوی میں آنحضور کی بعثت تک وہ امت مسلمہ تھے. 624ء میں تحویل قبلہ کا حکم اس امر کی واضح علامت اور اعلان تھا کہ سابقہ امت مسلمہ‘ جس کا مرکز بیت المقدس تھا‘ اب اپنی اس حیثیت سے معزول کر دی گئی ہے اور جو نئی امت اس مقام پر فائز کی گئی ہے یعنی امت محمدؐ : ‘ اس کا مرکز خانہ کعبہ ہے. حضور  کی بعثت تک بنی اسرائیل کی دو ہزار سالہ تاریخ تھی جبکہ تقریباً ساڑھے چودہ سو برس اس امت محمدؐ کے ہیں. اس پس منظر میں فلسیطین کے حوالے سے ایک بڑا پیارا جملہ میری نظر سے گزرا تھا کہ : Too small geography but too big a history یعنی فلسطین جغرافیہ کے اعتبار سے تو بہت چھوٹی جگہ ہے‘ اس کا رقبہ ہماری سابقہ ریاست بہاول پور کے برابر ہے‘ لیکن تاریخ اس کی پانچ ہزار سال تک پہنچی ہوئی ہے. اس کے مانند دنیا کے کسی علاقے کی تاریخ محفوظ نہیں ہے. اس کا آغاز آج سے چار ہزار سال قبل انبیاء کرام کے سلسلے سے ہوتا ہے جب حضرت ابراہیمؑ عراق سے ہجرت کر کے فلسطین میں آئے تھے. ان کی قوم کی طرف سے دشمن کی انتہا یہ تھی کہ آگ میں ڈال دیئے گئے. اللہ نے آگ کو حکم دیا تو وہ گل و گلزار بن گئی. اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ اب میں یہاں سے ہجرت کر جائوں گا. یہ اللہ کا قانون رہا ہے کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے اور وہ قوم اس رسول کی جان لینے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اسے ہجرت کی اجازت ہو جات ہے. حضور  کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا. چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے فلسطین کو اپنا مسکن اور مرکز بنا لیا. ان کے بیٹے حضرت اسحاق ؑ کا مقام بھی یہیں رہا. پھر ان کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم کے پوتے حضرت یعقوب ؑ نے بھی یہیں قیام کیا.

ان تین انبیاء کے تسلسل کے ساتھ وہاں قیام کو بھی بنی اسرائیل اپنی تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں. حضرت یوسفؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر چلے گئے اور چار پانچ سو سال تک وہاں رہے. اس دوران فلسطین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہا. بنی اسرائیل کے لئے یہ شدید ترین غلامی اور تغدیب کا دور تھا‘ جس سے انہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعے سے نجات دلائی. پانچ چھ سو سال قبل محض ستر افراد کا جو قافلہ مصر میں داخل ہوا تھا‘ اب اس کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی. وہاں سے حضرت موسیٰ ؑ اس قافلے کو لے کر فلسطین کی سرحد پر پہنچ گئے اور اپنی قوم کو حکم دیا کہ اب جنگ کے لئے تیار ہو جائو اور اس ارض مقدس میں داخل ہو جائو. لیکن پوری قوم نے کورا جواب دے دیا. قرآن مجید میں ارشاد ہے : ’’ہم ہر گز داخل نہیں ہوں گے ارض فلسطین میں جب تک کہ جو لوگ آج اس پرقابض ہیں وہ وہاں سے نکل نہ جائیں. تو جائو تم اور تمہارا رب لڑو‘ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.‘‘ اس پر اللہ کا فیصلہ آ گیا کہ : ’’انہوں نے بزدلی دکھائی ہے تو ارض مقدس چالیس برس تک ان پر حرام کر دی گئی. اب وہ اس زمین کے اندر بہکتے اور بھٹکتے پھریں گے. (اے موسیٰ !) اب تم افسوس نہ کرو ان فاسقوں کے بارے میں کہ ان کا یہ حشر ہو رہا ہے.‘‘ ان چالیس برسوں کے دوران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کا انتقال ہو گیا. وہ ساری نسل جو کہ مصر میں غلام رہی تھی‘ ختم ہو گئی. نئی نوجوان نسل نے حضرت موسیٰ ؑ کے جانشین حضرت یوشع ابن نون کی سرکردگی میں رفتہ رفتہ پورا فلسطین فتح کر لیا. لیکن ایک بہت بڑی غلطی یہ ہوئی کہ پورے فلسطین پر کوئی ایک مرکزی حکومت قائم نہیں کی گئی. بارہ میں سے دس قبیلوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں جبکہ دو قبیلوں کا تاریخ میں سراغ نہیں ملتا کہ کہاں گئے. میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ بھارت میں آ کر آباد ہوئے. یہاں کا برہمن وہی یہودی طبقہ ہے جو اُس وقت برہما یعنی حضرت ابراہیم ؑ کا نام لے کر یہاں آیا تھا. ’’صحف ابراہیم و موسیٰ‘‘ کا قرآن مجید میں دو جگہ ذِکر ہے‘ لیکن وہ آج ہمارے پاس کہیں نہیں ہیں. تورات بگڑی تگڑی ہژ تو سہی ناں. زبور محرف حالت میں سہی‘ لیکن موجود تو ہے. انجیل کیسی بھی ہو‘ وجود تو رکھتی ہے. لیکن آج دنیا میں صحف ابراہیم کے نام سے کوئی کتاب نہیں ہے. رائے ہے کہ ہندوئوں کے اپنشد درحقیقت حضرت ابراہیم ؑ کے صحیفے ہیں. یہ رائے میں نے اپنشد کا کچھ مطالعہ کر کے قائم کی ہے.بہرحال انہوں نے دس چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں‘ جو باہم دست و گریباں رہنے لگیں. آس پاس کی مشرک قومیں ایک دوسرے کے خلاف ان سے مدد لیتیں. ہوتے ہوتے ان قوموں کا اتنا اثر و و نفوذ ہو گیا کہ تقریباً پورے فلسطین پر وہ قابض ہو گئے اور ان کو اپنے گھرں سے نکال باہر کیا. یہ تین سو برس کی تاریخ ہے جو ان حملوں میں بیان ہوئی ہے.

پھر انہیں ہوش آیا کہ ہمیں تو جہاد کرنا چاہئے. چنانچہ وقت کے نبی سے کہا گیا کہ ایک سپہ سالار معین کر دیں. انہوں نے حضرت طالوت کو معین کیا. اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت کو جالوت کے مقابلے میں فتح دی. یہاں سے یہود کی تاریخ کا زریں باب شروع ہوا‘ جو میرے نزدیک ان کی خلافت ِ راشدہ ہے. 1000قبل مسیح سے لے کر 900 قبل مسیح تک محیط تقریباً 100 برس میں پہلے حضرت طالوت تھے‘ پھر ان کے داماد حضرت دائود ؑ آئے اور پھر ان کے بیٹے حضرت سلیمان ؑ . اس کے بعد ان کا ایک دورِ زوال شروع ہو گیا. حضرت سلیمانؑ کے دو بیٹوں کے درمیان یہ سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: شمالی اسرائیل اور جنوبی یہودیہ. شمالی سلطنت کا دارالخلافت سامریہ جبکہ جنوبی کا یروشلم تھا. آپس کی لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ 700 قبل مسیح میں آشوریوں نے اسرائیل کی شمالی سلطنت ختم کر دی‘ صرف چھوٹی سی جنوبی یہودیہ رہ گئی. پھر ان کے ہاں فسق و فجور کا بازار گرم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے عراق کے بادشاہ اور اس وقت کے نمرود نبو قد نضر (بخت نصر) کے ہاتھوں ان پر زبردست عذاب مسلط کیا.حضرت سلیمانؑ نے جو معبد (ہیکل سلیمانی) بنایا تھا‘ اسے مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا. لاکھوں افراد یروشلم میں موقع پر قتل ہوئے جبکہ چھ لاکھ یہودی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا کر بابل لے جایاگیا.

یہودیوں‘ رومن کیتھولکس اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں تینوں کی نگاہ اس وقت اس چھوٹے سے علاقے پر ہے. یہ سارا معاملہ اب ارض فلسطین پر آ گیا ہے.اب اس کا حل کیا ہے؟ ایک اصولی اور مبنی بر انصاف حل تو یہ ہے جو شروع سے پی ایل او کا مطالبہ تھا اور اب بھی حماس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کا قیام ناجائز طور پر ہوا تھا‘ ہمارے اوپر ظلم کر کے یہاں یہودیوں کو آباد کیا گیا اس لئے اسرائیل کو ختم ہونا چاہئے اور پورے کا پورا فلسطین اس کے اصل رہنے والوں کو دیا جائے. لیکن اصل فیصلہ تو طاقت کرتی ہے. ع ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ امریکہ ان کی پشت پر ہے. یورپ سے بھی کبھی کبھی امیدیں بنتی ہیں کہ وہ کچھ یہودیوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق کی بات کر دیتے ہیں‘ لیکن ان کا بھی اصل ایجنڈا یہی ہے کہ یہاں سی یہودیوں اور مسلمانوں سب کو نکال کر رومن کیتھولک حکومت قائم کی جائے.بہرحال یہ صورتِ حال ہے. ہمارے ہاں بھی کہا جاتا ہے کہ بھئی زمینی حقائق کودیکھ. ایک زمانہ ہوا کہ پی ایل او نے ہاتھ ڈال دیئے کہ اچھا ٹھیک ہے‘ اسرائیل بھی رہے لیکن ایک فلسطینی ریاست بھی بن جائے. اب اس صورتِ حال کو بھی بارہ تیرہ سال گزر گئے ہیں. بظاہر اس مسئلے کا کوئی حل ہے ہی نہیں. اس چھوٹے سے جغرافیہ پر اتنے لوگوں کی نگاہیں ہیں اور بے چارہ مسلمان وہاں پر پٹ رہا ہے. اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں پی ایل او کی بات بھی کسی درجے میں صحیح ہے. امریکہ کے سامنے سر جھکانے کے علاوہ اور کیا چارئہ کارہے!بہرحال دنیا کی تازہ ترین صورتحال کے مطابقآرمیگاڈان اب زیادہ دور نہیں ہے. اس کے لئے یورپ بھرپور تیاریاں کر رہا ہے.آج کل ایک عجیب بات قبرص کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آ رہی ہے.

کوفی عنان صاحب وہاں بار بار آ رہے ہیں. اصل میں نیٹو افواج کا صدر مقام پہلے جرمنی تھا‘ وہاں سے یہ کوسوو کی طرف منتقل ہوا. اب وہاں سے ان کا اگلا قدم قبر ص ہے. وہیں اصل ’’جمپنگ پیڈ‘‘ بنے گا. فلسطین یہاں سے بہت قریب ہے‘ لہٰذا یہیں سے حملہ ہوگا‘ اور اس حملے میں اتنی خون ریزی ہوگی کہ اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے‘ کیونکہ جب تک یہود مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو نہ گرائیں ان کا تھرڈ ٹمپل نہیں بنتا. قبضہ ان کژ پاس ہے اور دنیا کی عظیم ترین عسکری قوت ان کی پشت پر ہے. اب اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے فیصلہ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر قائم چند یہودی بستیوں کو تو ہم خالی کر دیں گے‘ جس کا رقبہ محض 140مربع میل ہے‘ لیکن مغربی کنارے پر ہم اپنی بستیاں نہیں گرائیں گے اور وہ یہودی علاقہ ہی رہے گا. امریکہ نے بھی اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے. اس سے آگے یہ معاملہ ہوا ہے کہ صدر حسنی مبارک نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران بش کو یہ دھمکی دی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کا عمل طویل ہونے اور روڈ میپ پر اسرائیل کے کاربند نہ ہونے سے عرب دنیا میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے. عوام یہ صورت حال کب تک برداشت کریں گے! عرب نوجوانوں کے اندر یہودیوں کی نفرت رچی ہوئی ہے. لہٰذا وہ اٹھیں گے اور پھر ہولناک قتل عام ہوگا. اس میں سب سے پہلے امریکہ کے ایجنٹوں کی صورت میں جو مسلمان حکمران بیٹھے ہوئے ہیں وہ اپنے نوجوانوں کو ختم کریں گے. ملت عرب کے لئے انتہائی خون ریز معاملہ آنے والا ہے. یہ ہے وہ ہولناک منظر جسے حضور نے الملحمۃ العظمیٰ‘ الملحمۃ الکبریٰ یعنی تاریخ انسانی کی عظیم ترین جنگ سے تعبیر کیا ہے. مستقبل سوائے اس کے اور کوئی نہیں. کوئی راستہ نہیں.