اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے گذشتہ ادوار میں گاہے بگاہے دبی زبان سے باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کی مقتدر ترین شخصیت نے اس کو تسلیم کرنے کا نہ صرف وعدہ کر لیا ہے، بلکہ قرائن بتاتے ہیں کہ فیصلہ ہو چکا ہے، صرف وقت کے تعین کا مسئلہ ہے کہ کب اعلان کیا جائے. جبکہ امریکہ کا اصرار ہے کہ اس سال کے خاتمہ تک اعلان کر دیا جائے. چنانچہ آج کل کرائے کے دانشور ٹی وی ریڈیو اور اخبارات میں اس کے حق میں بڑھ چڑھ کر دلائل دے رہے ہیں اور ایک کورس کے انداز میں راگ الاپ رہے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں. لہٰذا آیئے اس مسئلے کا تاریخی اور علمی اعتبار سے جائزہ لیں کہ یہ مسئلہ ہے کیا؟ اس کا پس منظر کیا ہے اور ہمیں اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرنا چاہئے.

پاکستان اور اسرائیل میں مشترک قدریں:

سب سے پہلے تو اس مسئلے کا جائزہ لیتے چلیں کہ پاکستان اور اسرائیل کا آپس میں کیا تعلق ہے. دراصل ان دونوں ملکوں میں کچھ باتیں بظاہر مشترک ہیں، اگرچہ باطنی طور پر یہ اشتراک حقیقی نہیں بلکہ ان میں کچھ فرق ہیں. وہ مشترک چیزیں کیا ہیں؟

۱) یہ دونوں ملک مذہب کے نام پر قائم ہوئے. پاکستان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا. 
اسرائیل بھی بظاہر یہودی مذہب کے نام پر قائم ہوا لیکن یہود مذہب چونکہ باطنی طور پر ایک نسلی مذہب ہے، اس لیے اس کے قیام کی بنیاد مذہبی نہیں بلکہ نسلی ہے. حال ہی میں ڈربن سائوتھ افریقہ میں ایک عالمی کانفرنس میں یہ قرارداد سامنے آئی تھی کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے اور یہ نسل کی بنیاد پر فلسطینوں پر ظلم ڈھا رہا ہے. وہاں سے اسرائیل اور امریکہ نے واک آئوٹ کیا اور امریکہ نے اس قرارداد کو روکنے کے لیے پورا زور لگا دیا. بہرحال پوری دنیا متفق تھی کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے، جو دوسری نسلوں پر ظلم ڈھا رہی ہے.

۲) دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ملک تقریباً ہم عصر ہیں یعنی ایک ہی وقت میں وجود میں آئے. دونوں میں اتفاقاً ٹھیک نو ماہ کا وقفہ ہے. پاکستان 14اگست 1947ء کو بنا جبکہ اسرائیل 14مئی 1948ء کو قائم ہوا. میرے خیال میں اس میں بھی ایک معنوی ربط ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ’’اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا، جس کی دوا نہ پیدا کی ہو.‘‘ گویا اللہ نے ٹھیک نو ماہ قبل اسرائیل کے علاج کے طور پر پاکستان قائم فرمایا جس نے آگے چل کر آخری معرکہ حق و باطل میں اسرائیل کے سامنے آنا ہے.

۳) دونوں ملک 
Tips of the lceberg) (کی حیثیت رکھتے ہیں. اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن پورا عالم عیسائیت اور مغرب اس کی پشت پر ہے. اسی طرح پاکستان بھی کوئی بڑا ملک نہیں لیکن پوری امت مسلمہ میں احیائے اسلام کا جو جذبہ کارفرما ہے، اس کی ساری امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں. قیامت سے قبل یہ دونوں بڑے تودے آپس میں ٹکرانے والے ہیں جیسا کہ احادیث میں قیامت سے قبل آخری جنگ کے طو رپر حق و باطل میں ایک بہت بڑے معرکہ کی خبر دی گئی ہے. 

ایک بڑا فرق: 

اس اشتراک کے علاوہ ایک بہت بڑا فرق جو ان دونوں ممالک میں پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان ایک خطے میں پہلے سے مقیم ایک قوم کی دستوری اور پر امن جدوجہد 
کے نتیجے میں وجود میں آیا جبکہ اسرائیل کا معاملہ بالکل برعکس ہے. ایک قوم جو ساڑھے اٹھارہ سو سال قبل فلسطین سے نکلی تھی، آج ظلم اور دھاندلی سے یہاں آ کر دوبارہ قابض ہو گئی. انہیں 70ء میں یہاں سے نکالا گیا، نیز جب یہ یہاں سے بے دخل ہوئے تو حاکم نہ تھے بلکہ چار سو برس سے رومیوں کے غلام تھے. یہودیوں کے ایک فرقے ذی لوٹس نے حضرت عیسیٰ کے رفع سماوی کے 37برس بعد 70ء عیسوی میں رومیوں کے خلاف بغاوت کی تو ٹائیٹس رومی نامی جرنیل نے ان پر حملہ کیا اور ایک دن میں ایک لاکھ تیس ہزار یہودیوں کو قتل کیا اور انہیں یہاں سے نکال دیا. اس وقت یہ پوری دنیا میں پھیل گئے. اس عرصے کو یہ اپنا دور انتشار کہتے ہیں.

اس عرصے کے دوران نہیں کہیں پناہ نہ ملی. البتہ طارق بن زیاد نے جب سپین پر حملہ کیا تو وہاں آباد یہودیوں نے طارق بن زیاد کی مدد کی تو انہیں سپین کی مسلمان حکومت میں بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہو گیا، جس کو استعمال کرتے ہوئے یہودیوں نے فرانس، اٹلی اور برطانیہ سے سپین میں مسلمانوں کی قائم کردہ یونیورسٹیوں میں حصول علم کے لیے آنے والے نوجوانوں میں اپنا اثر بڑھایا جس کے نتیجے میں عیسائیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی. ایک حصہ کیتھولک اور دوسرا پروٹسنٹ بن گیا. یہودیوں نے پروٹسنٹ فرقے کے ذریعے سود اور سیکولرازم کو رواج دیا. یوں انہوں نے سودی کاروبار کی اجازت لے کر بینکنگ سسٹم قائم کیا اور عیسائی حکومتوں کو سودی قرضے دے کر اپنے شکنجے میں جکڑ لیا. گویا فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں آ گئی. اس دوران انہوں نے فلسطین پر قبضہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی. بالآخر انہوں نے برطانیہ کے ذریعے 1971ء میں یہاں آباد ہونے کا حق حاصل کر لیا. پہلے انہوں نے پیسے سے مکانات اور زمینیں خریدیں جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو انہوں نے دھونس اور زبردستی سے علاقوں پر قبضہ شروع کیا اور مقامی لوگوں کو طاقت کے بل پر بے گھر کر دیا. یہاں تک کہ یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کا علان کر دیا.

آج امریکہ انہی پروٹسٹنٹس کا امام ہے جبکہ برطانیہ اس کا چھوٹا بھائی بنا ہوا ہے. 
یہی وجہ ہے کہ عراق خلاف یہ دونوں ایک تھے جبکہ اولڈ یورپ ان کے خلاف تھا کیونکہ وہ کیتھولک ہیں. کیتھولک اکثریت والے ممالک جنہیں قدیم یورپ کہا جاتا ہے، یروشلم میں ایک عیسائی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، جبکہ پروٹسٹنٹس وہاں یہودی حکومت قائم کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرانا چاہتے ہیں. ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ زمین پر آمد اسی وقت ہو گی جب یہ مراحل طے ہو جائیں گے. البتہ تمام تر اختلافات کے باوجود یہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں سے مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے.
جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے وہ فلسطین ہی کا علاقہ نہیں بلکہ مصر ،شام، اردن اور سعودی عرب کے بعض علاقوں تک گریٹر اسرائیل کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں. اس کے علاوہ وہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ گرا کر ہیکل سلیمانی بھی تعمیر کرنا چاہتے ہیں. اگر یہودیوں نے بیت المقدس میں ’’قبۃ الصخرہ‘‘ گرا دیا تو عالم اسلام کی حکومتیں اس سیلاب میں بہہ جائیں گی. احادیث کی رو سے قبل از قیامت اسلام اور کفر کے درمیان جو ایک فیصلہ کن ٹکر ہونے والی ہے، میرے نزدیک یہ واقعہ اس جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو گا. اس جنگ میں یہودی اور عیسائی دنیا ایک طرف ہو گی اور عالم اسلام ایک طرف ہو گا. اللہ کے رسول کے فرمان کے مطابق عیسائی دنیا 80جھنڈوں تلے جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہو گی اور ہر جھنڈے کے نیچے 12ہزار فوج ہو گی. گویا مجموعی طور پر نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج مشرق وسطیٰ پر حملہ کرے گی. اس وقت حضرت مہدی اور مسیح علیہ السلام اس یلغار کا مقابلہ کریں گے، ان دونوں شخصیات کی مدد کے لیے حدیث کے الفاظ ہیں، خراساں کے علاقے سے مسلمان پہنچیں گے. پرانے خراساں میں افغانستان کے علاوہ پاکستان ایران کا کچھ حصہ شامل ہے.

علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات: اب آیئے دیکھیں کہ اسرائیل کے حوالے سے ہمارے اکابرین کے کیا خیالات رہے ہیں. مصور و مبشر پاکستان علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس کی وضاحت یوں کی ہے ؎

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟

اگر دو ہزار برس پہلے نکلی ہوئی قوم کو دوبارہ فلسطین میں لا کر آباد کیا جا سکتا ہے جو یہاں کبھی حاکم بھی نہیں رہی، بلکہ محکوم تھی تو پھر عربوں کو ہسپانیہ واپس ملنا چاہئے کیونکہ وہ کئی صدیوں تک وہاں حاکم رہے ہیں. اسی طرح 25اکتوبر 1947ء کو قائداعظم نے رائٹر نیوز ایجنسی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ محمد ظفر اللہ خان نے کر دی ہے مجھے اب بھی یہ امید ہے کہ تقسیم (فلسطین) کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک چپقلش کا شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی امر ہے. یہ چپقلش عربوں اور منصوبہ تقسیم نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہو گی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے (اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ ہی سیاسی اور اخلاقی طور پر. ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو گا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خواہ مخواہ کے اشتعال اور دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہو، پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروئے کار لائے.‘‘

علامہ اقبال اور قائداعظم کے خیالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ظلم اور نا انصافی کا ساتھ دیناہے. چنانچہ اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے یہ نہ کرنے کے حوالے سے جو بحث جاری ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ اصول پرستی اور ابن الوقتی کا مقابلہ ہے. اصول کی بات کی جائے تو اسرائیل کو کسی قیمت پر تسلیم نہ کیا جائے. اگر گیدڑ کی سو سالہ زندگی کو بہتر سمجھتے ہوئے ابن الوقتی کو اپنائیں تو اسرائیل کو تسلیم کرنے میں فائدے ضرور ہیں مگر دیرپا نہیں. دراصل یہ جنگ یہودیوں اور عربوں کی نہیں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہے. اگر عرب ممالک کے حکمران امریکہ کی طاقت کے آگے جھک کر اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو یہ ہمارے لیے دلیل نہیں بن سکتی. ویسے بھی یہ 
ممکن ہی نہیں کہ اسرائییل اور فلسطینیوں کے درمیان کوئی امن کا عمل کسی صورت کامیاب ہو سکے. موجودہ سیز فائر کے ذریعے اسرائیل محض وقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ رفتہ رفتہ مسلمانوں کی حمیت مر جائے. گذشتہ ایک عشرے کے مذاکرات ہمارے سامنے ہیں. کیمپ ڈیوڈ، اوسلو، وائی ریور او رپتہ نہیں کہاں کہاں مذاکرات ہوئے لیکن عین وقت پر اسرائیل ہمیشہ مکر جاتاہے. بہرحال ہم اسرائیل کو تسلیم کریں یا نہ کریں، وہ پاکستان کو کمزور کرنے اور ایٹمی اثاثے ختم کرنے یا ان پر قبضہ کرنے کی ضرور کوشش کرے گا کیونکہ اسرائیل پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے.

ہم امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جو چاہیں کر لیں، پاکستان کی باری آ کر رہے گی. اگرچہ اس وقت امریکہ کی یہ حیثیت بن گئی ہے کہ اس کے دامن میں پناہ لینے کے علاوہ کسی کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں. امریکہ کا کوئی مقابلہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ امریکہ نے دجال کی شکل اختیار کر رکھی ہی. اس کی دجالیت کی تکون سیکولرازم، سود اور بے حیائی پر مشتمل ہے. لیکن اگر ہم اللہ پر بھروسہ کر کے اس وقت دین اسلام کے تقاضوں، اخلاقی اصولوں اور غیرت و حمیت کی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے امریکی دبائو کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیں اوریہاں اللہ کا دین قائم کر دیں تو اللہ کی مدد ہمیں حاصل ہو گی اور پھر کوئی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا.