جس طرح ہمارے تمام دینی تصورات محدود اور مسخ ہو چکے ہیں، اسی طرح جہاد کا لفظ بھی ہمارے ہاں بہت ہی محدود معنی میں استعمال ہو رہا ہے، بلکہ اکثر و بیشتر بہت غلط معنی میں استعمال ہوتا ہے. آیئے قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ہے کیا؟ اس لفظ کے لغوی معنی کیا ہیں؟ اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ ہمارے دین میں اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اس جہاد کی کیا کیا شکلیں ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اس کا نقطہ آغاز کیا ہے؟ اس کی پہلی منزل کیا ہے اور اس کی آخری منزل کون سی ہے؟ اس ضمن میں ایک عظیم مغالطہ تو یہ ہوا کہ جہاد کو جنگ کے ہم معنی بنا دیا گیا، حالانکہ جہاد کے معنی ہر گز جنگ کے نہیں ہیں. جنگ کے لیے قرآن مجید کی اپنی اصطلاح ’’قتال‘‘ ہے جو قرآن میں بکثرت استعمال ہوئی ہے. یہ اصل میں جہاد کی ایک آخری صورت اور آخری منزل ہے، لیکن جہاد اور قتال کو بالکل مترادف بنا دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب جہاد کی وسعت اور ہمہ گیری پیش نظر نہیں رہی. اس ایک مغالطے کے بعد ستم بالائے ستم اور ظلم بالائے ظلم یہ ہوا ہے کہ مسلمان کی ہر جنگ کو جہاد قرار دے دیا گیا، خواہ وہ خیر کے لیے ہو یا شر کے لیے. کوئی ظالم و جابر مسلم حکمران اپنی نفسانیت کے لیے، اپنی ہوس ملک گیری کے لیے کہیں خونریزی کر رہا ہو تو اس کا یہ عمل بھی جہاد قرار پایا اور اس طرح اس مقدس اصطلاح کی حرمت کو بٹہ لگایا گیا ہے. آیئے ذرا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں کہ قرآن مجید کے نزدیک جہاد کی اصل حقیقت کیا ہے.

لفظ جہاد کا سہ حرفی مادہ ’’ج ھ د‘‘ ہے اور یہ لفظ اردو بولنے اور اردو لکھنے والوں کے 
لیے کسی درجہ میں بھی نامانوس نہیں ہے. جہد مسلسل، جدوجہد، یہ الفاظ اردو زبان میں عام استعمال ہوتے ہیں. جہد کے معنی ہیں کوشش کرنا. انگریزی میں اس کا مفہوم ان الفاظ میں ادا ہو گا. To Exert Ones Utmost کسی بھی مقصد کے لیے، کسی بھی معین ہدف کے لیے محنت کرنا کوشش کرنا،مشقت کرنا جدوجہد کرنا اصلاً ’’جہد‘‘ ہے. لیکن عربی زبان میں یہی مادہ جب مختلف سانچوں میں ڈھلے گا تو اس سے لفظ ’’مجاہدہ‘‘ بنے گا جیسے لفظ ’’مقاتلہ‘‘ ہے ’’قتل‘‘ اور ’’مقاتلہ‘‘ میں فرق یہ ہے کہ قتل ایک یک طرفہ فعل ہے. ایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا. جب کہ مقاتلہ یہ ہے کہ دو افراد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے آمنے سامنے آ کھڑے ہوں، وہ اسے قتل کرنے کے درپے ہو اور یہ اسے قتل کرنے کے درپے ہو. اسی طرح لفظ ’’جہد‘‘ میں یکطرفہ کوشش کا تصور سامنے آتا ہے، یعنی کسی ہدف اور مقصود کے لیے محنت کی جا رہی ہے، مشقت ہو رہی ہے، جب کہ مجاہدہ میں ایک اضافی تصور سامنے آئے گا کہ کوشش میں مختلف فریق شریک ہیں. ہر ایک کا اپنا کوئی مقصد اور اپنا کوئی نقطہ نظر ہے اور ہر ایک اس کوشش میں ہے کہ اپنے مقصد کو حاصل کرے اور اپنے خیال یا اپنے نظریئے کو دنیا میں سر بلند کرنے کی کوشش کرے. ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ درحقیقت قرآن مجید کی ایک اہم اصطلاح ہے. جہاد اور مجاہدہ دونوں باب مفاعلہ سے مصدر ہے. انگریزی میں اب اس کو یوں ادا کیا جائے گاTo Struggle Hard اس لیے کہ Struggle میں کشمکش اور کشاکش کا مفہوم شامل ہے. جہد صرف کوشش ہے جب کہ جہاد یا مجاہدہ کشمکش اور کشاکش ہے اور انگریزی کے اس لفظ Struggle میں بھی وہ تصور موجود ہے.

مجاہدہ خواہ کسی مقصد کے لیے ہو اس میں انسان کی صلاحیتیں، قوتیں اور توانائیاں بھی صرف ہوں گی اور مالی وسائل و ذرائع بھی صرف ہوں گے. ان دو کے بغیر دنیا میں کوئی کوشش ممکن نہیں ہوتی. ابتدائی سطح پر کسی بھی مقصد کے لیے، کسی بھی نصب العین کے لیے، کسی بھی خیال کی ترویج و اشاعت کے لیے انسان کو کچھ مالی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے، جن سے وہ اپنے نصب العین اور آئیڈیا کو Project کر سکے. لہٰذا قرآن مجید میں بھی آپ دیکھیں گے کہ اس مجاہدے کے ساتھ دو الفاظ آپ کو ہر جگہ ملیں گے. ’’اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ‘‘ یعنی اس مجاہدے، اس جدوجہد اور اس کی کوشش میں اپنے مال بھی کھپائو اور اپنی جانیں بھی کھپائو جیسا کہ سورۃ الحجرات کی آیت میں ارشاد ہوا: ’’اور انہوں نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ.‘‘ اس جہاد کے لیے ایک تیسری چیز جو بہت ضروری ہے وہ کسی ہدف کا معین ہونا ہے. کوئی مقصود معین ہو، کوئی نصب العین ہو، جس کے لیے وہ محنت اور مشقت کی جائے. لہٰذا سورۃ الحجرات میں فرمایا گیا ’’اور انہوں نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں کھپائی اس میں اپنی جان بھی اور اپنے اموال بھی.‘‘ ایک بندہ مؤمن کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا نقطہ آغاز خود اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ ہے. اس لیے کہ ایمان کا حاصل تو یہی ہے کہ انسان نے اللہ کو مانا، اللہ کے رسولؐ کو مانا، اللہ کی کتاب کو مانا، آخرت کو مانا، بعث بعد الموت، حساب کتاب اور جزا و سزا کو مانا.

اگر یہ ماننا صرف زبانی اقرار کے درجے میں نہیں ہے. بلکہ فی الواقع ان حقائق پر انسان کا ذہن مطمئن ہو چکا ہے، دل میں یقین جاگزیں ہو گیا ہے اور اس سے اس کا باطن منور ہو گیا ہے تو اس کا نتیجہ لازمی یہ ہو گا کہ اس کے اپنے اندر ایک کشاکش پیدا ہو گی، ایک تصادم اس کی شخصیت کے داخلی میدانِ کارزار میں برپا ہو جائے گا. اس کشاکش کا آغاز اسی لمحے ہو جاتا ہے جیسے ہی ایمان دل میں داخل ہوتاہے. ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ خواہ تمہاری بھوک ہو یا شہوت ہو، یا کوئی اور فطری جذبہ اور تقاضا تمہارے باطن میں سے ابھر رہا ہو، اس کی تسکین اب حلال اور حرام کی قیود اور حدود کے اندر اندر کرنی ہو گی، ماد رپدر آزاد ہو کر اب کوئی کام نہیں ہوگا. یہیں سے اس کشاکش کا آغاز ہو جاتا ہے. چنانچہ نبی اکرم سے پوچھا گیا ’’اے اللہ کے رسولؐ سب سے اعلیٰ اور افضل جہاد کون سا ہے؟‘‘ جواباً آپ نے ارشاد فرمایا: ’’کہ تو اپنے نفس کے ساتھ کشمکش کرے اور اسے اللہ کی اطاعت کا عادی اور خوگر بنائے.‘‘ یہ نقطہ آغاز ہے جہاد کا جیسے کہ ایک اور مقام پر آنحضور نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص حقیقی معنی میں مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس تابع نہ ہو جائے اس کے کہ جو میں لے کر آیا ہوں.‘‘

اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ جو لوگ مجاہدہ فی سبیل اللہ کے اس باطنی میدان کارِ زار میں کوئی فتح اور بالادستی حاصل کیے بغیر باہر کے دشمنوں سے لڑائی لڑنا شروع کر دیتے ہیں وہ دراصل خود فریبی کا شکار ہیں. باہر کے دشمنوں سے نبرد آزمائی اور مجاہدہ و مقاتلہ سے پہلے اپنے نفس سے کشاکش اور اسے احکامِ الٰہی کا پابند بنانے کی جدوجہد لازم اور ناگزیر ہے. اس لیے کہ جہاد و مجاہدہ کا صحیح اور فطری طریقہ یہی ہے کہ مجاہدے کا آغاز خود اپنی ذات سے ہو. جس طرح ایک پودا زمین میں سے نکلے، پھوٹے اور پھر پروان چڑھے تو وہ ایک مضبوط و تناور درخت بن سکتا ہے. اسی طرح مجاہدہ مع النفس وہ جڑ ہے جو انسانی شخصیت کے باطن میں اگر گہری نہ اتر گئی ہو اور صرف اوپر ہی اوپر زمین میں اٹکی ہوئی ہو تو پھر یہ کسی بھی سیلاب اور کسی بھی نوع کے دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی. یہ مجاہدہ مع النفس جب انسان کے باطن سے پھوٹتا ہے تو یہ اللہ کے دین کے دشمنوں سے مجاہدہ، کشاکش اور جدوجہد کی صورت اختیار کرتا ہے. اس کی اوّلین منزل دعوت اور تبلیغ و تلقین ہے. یہ درحقیقت اس مجاہدہ فی سبیل اللہ کا خارج میں پہلا ہدف ہے کہ جو بات آپ نے حق مانی ہے اس کی حقانیت کا اعلان کیجئے، اس کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کیجئے. یہ آپ کی شرافت نفس کا تقاضہ بھی ہے. نبی اکرم کی بڑی پیاری حدیث ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے.‘‘

دعوت و تبلیغ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی کا ابتدائی مرحلہ ہے. اس میں تلقین اور نصیحت بھی شامل ہے اور حق کی نشر واشاعت اور اس کا ابلاغ بھی. اس ابلاغ کے لیے ظاہر بات ہے کہ ہر دور میں جو بھی ذرائع میسر ہوں وہ بھرپور طریقے پر استعمال کیے جائیں. نبی کریم کی سیرت پاک میں اس کی مثالیں موجود ہیں آپؐ انفرادی ملاقاتیں بھی کرتے تھے، آپ گلیوں میں بھی تبلیغ فرماتے تھے، جہاں کہیں معلوم ہوا کہ کوئی قافلہ ٹھہرا ہوا ہے وہاں پہنچ کر اپنی دعوت پیش فرماتے تھے. حج کے ایام میں آپؐ کی یہ دعوتی سرگرمیاں پورے عروج کو پہنچ جاتی تھی. ملک کے کونے کونے سے لوگ آئے ہوتے تھے، آپ ؐ مختلف وادیوں میں گھومتے اور جہاں کہیں کسی قبیلے کا پڑائو دیکھتے وہاں جا کر اپنی دعوت پیش کرتے .‘‘ یہ ہے درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ کا اوّلین مرحلہ. اسے تبلیغ کہئے، دعوت کہئے یا نشرو اشاعت کہیے. اس میں محنت و مشقت ہو گی، اوقات صرف ہوں گے، صلاحیتیں کھپیں گی. ضرورت اس بات کی ہو گی کہ باصلاحیت لوگ آئیں اور اپنی صلاحیتوں کو اس راہ میں صرف کریں. نبی اکرم پر ایمان لانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر اپنے کاروبار میں منہمک نہیں ہوئے، بلکہ آپ اسی کشاکش، اسی کوشش اور اسی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف ہو گئے، اور چند سال کی محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ عشرہ مبشرہ میں سے چھ اصحاب کو لا کر انہوں نے محمد رسول اللہ کی جھولی میں ڈال دیا. یہ ہے اس مجاہدہ فی سبیل اللہ کی پہلی منزل! یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جنگ اور قتال کا مرحلہ تو نبی اکرمکے دورِ نبوت میں کہیں پندرہ برس کے بعد آیا. مکہ مکرمہ کے تیرہ برسوں میں او رپھر قیام مدینہ کے ابتدائی دو برسوں میں مجاہدہ جاری رہا.

مجاہدہ فی سبیل اللہ کا اوّلین ہدف یہ ہے کہ خلق خدا پر خدا کی طرف سے دعوت و تبلیغ کے ذریعے حجت قائم کر دی جائے تاکہ روز قیامت انسان یہ عذر نہ پیش کر سکے کہ ے رب! ہمیں معلوم نہ تھا کہ تیرا دین کیا ہے. ظاہر بات ہے کہ اس کام میں محنتیں بھی لگیں گی اور صلاحیتیں بھی صرف ہوں گی، تب ہی تو کوئی داعی حق خلق خدا پر حجت قائم کر سکے گا کہ جو حق میرے پاس تھا میں نے تمہارے سامنے رکھ دیا ہے، کسی قسم کے اخفا سے کام نہیں لیا ہے. قارئین جہاد فی سبیل اللہ کا آخری ہدف کیا ہے؟ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس کائنات کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اسی کا حکم نافذ ہو. زمین بھی اللہ کی ہے اور حکم بھی اللہ کا ہونا چاہئے. بالفاظ قرآنی ’’حکم اور فیصلے کا اختیار سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں.‘‘ گویا تمام حقائق میں سب سے فائق حق یہی ہے کہ اللہ کی زمین پر اس کے اختیار کو عملاً نافذ و غالب ہونا چاہئے جب کہ بالفعل معاملہ اس کے برعکس ہی. چنانچہ اس حق کو بالفعل دنیا میں نافذ کرنے کے لیے اب ایک مزید محنت درکار ہو گی، مزید جدوجہد کی ضرورت ہو گی. دعوتِ تبلیغ کے لیے محنتیں اور کوششیں اپنی جگہ اہم ہیں، مزید جدوجہد کی ضرورت ہو گی. لیکن یہ بات ذہن میں رکھئے کہ اگر کسی بے ضرر قسم کی بات کی تبلیغ کی جا رہی ہو، جس میں کسی پر کوئی تنقید نہ ہو اور جس میں کسی کے مفادات پر کوئی آنچ نہ آتی ہو تو کوئی تصادم نہیں ہوگا، لیکن اگر تبلیغ ہو صحیح معنی میں کہ جس میں حقیقت ہی کو سامنے لایا جائے اور حق بات کے کہنے سے دریغ نہ کیا جائے، خواہ اس سے لوگوں کے مفادات پر آنچ آ رہی ہو، یا ان کے غلط نظریات اس سے مجروح ہو رہے ہوں، تو ظاہر بات ہے کہ تصادم اور کشمکش کا مرحلہ آ کر رہے گا.

یہی وجہ ہے کہ یہ تصادم اور کشمکش مکی دور میں بھی ہمیں نظر آتا ہے. لیکن اس سے آگے مرحلہ آتا ہے جب داعی حق یہ کہتا ہے کہ ہم صرف مبلغ نہیں ہیں، ہم صرف داعی نہیں ہیں، بلکہ ہم تو حق کو قائم اور غالب کرنے کے لیے اٹھے ہیں، ہم عدل و انصاف کا صرف وعظ کہنے کے لیے نہیں آئے، بلکہ ہم عدل و انصاف کو بالفعل نافذ کرنا چاہتے ہیں. تو سیدھی سی بات ہے کہ یہاں تصادم اب مزید شدت اختیار کرے گا. جن کے مفادات پر آنچ آئے گی وہ اسے کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے. وہ اپنی پوری قوتوں کو اور اپنے تمام وسائل و ذرائع کو مجتمع کر کے مزاحمت کریں گے اور اس دعوت کی راہ روکنے اور اسے کچلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے. اس مرحلے پر یہ کشاکش اور تصادم انتہائی شدید اور ہولناک صورت اختیار کرے گی. یہ ہے اس مجاہدہ فی سبیل اللہ کا نقطۂ عروج، جس کا نقظہ آغاز ہے ’’مجاہدہ مع النفس.‘‘ نفس انسانی سے یہ مجاہدہ جب خارج کی طرف آتا ہے تو یہ تبلیغ دین، دعوت دین، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے. اس سے اصل مقصود یہ ہے کہ خلق خدا پر خدا کی طرف سے حجت قائم کر دی جائے اور اس کی بلند ترین منزل یہ ہے کہ ’’پورے کے پورے دین اور پورے نظام زندگی پر اللہ کے دین کو غالب کر دیا جائے.‘‘ قرآن مجید اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے ’’کہ اے مسلمانو! جنگ جاری رکھو، تمہاری یہ جنگ جاری رہنی چاہئے، یہاں تک کہ فتنہ بالکل فرو ہو جائے اور دین کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے.‘‘ اس زمین پر اللہ کا حق ہے کہ اسی کی حکومت قائم ہو. لیکن اگر یہاں کسی اور نے اپنی حکمرانی کا تخت بچھایا ہوا ہے اور کسی فرعون یا نمرود کی مرضی یہاں رائج ہے تو قرآن حکیم کی اصطلاح میں فتنہ ہے جو فساد فی الارض کی بدترین شکل ہے. اس فتنے کو ختم کرنا اور اس بغاوت کو فرو کرنا ایک بندہ مؤمن کا مقصد حیات بن جانا چاہئے. ہمارے اس دور انحطاط میں جہاد فی سبیل اللہ پر دو ظلم روا رکھے گئے. ایک یہ کہ اس کو جنگ کے مترادف قرار دے دیا گیا. چنانچہ اس کی وسعت، اس کی ہمہ گیری، اس کا نقطہ آغاز، اس کے وہ سارے مراحل جن میں دعوت و تبلیغ بھی ہے، نشرو اشاعت بھی ہے، پھر جو لوگ اس حق کو قبول کر لیں ان کو ایک نظم میں پرو کر ایک منظم قوت کی شکل دینا اور انہیں آئندہ کے مراحل کے لیے مناسب تربیت دینا بھی شامل ہے، یہ سب ذہن سے بالکل خارج ہو گئے.

دوسرا ظلم یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ہر جنگ کو بہرحال اور بہر نوع جہاد قرار دے دیا گیا. اس طرح ’’جہاد‘‘ کے لفظ کو ہم نے انتہائی بدنام کر دیا اور اس کے مقدس تصور کو بہت بری طرح مجروح کیا گیا اور تیسرا ظلم اس پر یہ ڈھایا گیا کہ جہاد کو فرائض دینی کی فہرست سے خارج کر دیا گیا کہ یہ فرض عین نہیں ہے، بلکہ فرض کفایہ ہے. یہ درحقیقت مسلمانوں کے اندر سے جذبہ جہاد کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے. ایمان حقیقی، جس کی بنیاد پر آخرت میں معاملے طے ہوں گے، جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کسی کو آخرت میں مؤمن قرار دے گا، اس ایمان حقیقی کے دو ارکان ہیں ایک یقین، جو قلب میں جاگزیں ہو گیا ہو اور دوسرے اس کا جو اوّلین اور نمایاں ترین مظہر انسان کے عمل میں ہو وہ جہاد ہے وہ کشاکش اور تصادم ہے، اس راہ میں جان اور مال کھپانا ہے. اس کا نقظہ آغاز خود اپنے نفس کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا پابند بنانے کے لیے اس کے ساتھ مجاہدہ ہے اور اس کے لیے ابتدائی مرحلہ یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ، نشر و اشاعت اور تمام ممکنہ ذرائع ابلاغ کو کام میں لا کر حق کی دعوت کو پھیلایا جائے اور اس کی آخری منزل یہ ہے کہ جس طریقے سے اس شخص نے اپنے وجود پر اللہ کے دین کو قائم اور اللہ کی مرضی کو نافذ کیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت کو اس پر بالفعل قائم کر دیا ہے، اسی طرح پورے کرہ ٔ ارض پر اللہ کے دین کو عملاً نافذ اور غالب کرنے کے لیے جان اور مال لگائے. اس کے لیے تن من دھن سے کوشش کرے جہاد کا آخری اور بلند ترین مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں حاضر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ توفیق دے تو مرتبہ شہادت حاصل کرے.

شہادت ہے مطلوب و مقصود مؤمن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی!