یہ مضمون شروع کرنے سے قبل میں اپنے قارئین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ہر شخص یہ سوچے کہ آج امت مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ کیا مال و دولت، حکومت، تعلیم، ٹیکنالوجی، جمہوریت ہماری سب سے بڑی ضرورت ہیں؟ اگر یہی سوال کوئی مجھ سے پوچھے تو میرے خیال میں امت مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اسلامی انقلاب برپا کرنے کے اس طریقے کو سمجھ لے کہ جس طریقے پر نبی اکرمؐ نے انقلاب برپا کیا. اس حوالے سے میں اپنی سوچ کے جو پہلو آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آج عالمی پیمانے پر امت مسلمہ جس زبوں حالی کا شکار ہے یہ اصل میں عذاب الٰہی ہے جس میں ہم مبتلا ہو چکے ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین کے نمائندے بنائے گئے تھے لیکن آج ہم پوری دنیا میں کوئی ایک ماڈل ملک بھی نہیں دکھا سکتے کہ لوگو! آئو دیکھو یہ ہے نظام مصطفی ، یہ ہیں دین حق کی برکات، لہٰذا ہم اللہ کے عذاب کی گرفت میں ہیں. اگر ہم ملک میں صحیح اسلامی نظام نافذ کر لیں تو امریکہ سمیت دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. اگر پاکستان میں اسلامی انقلاب نہ آیا تو خدانخواستہ اس کے قائم رہنے کی وجہ جو از ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ تو قائم ہی اسلام کے اصول حریت و اخوت و مساوات کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا گیا تھا. یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج امریکہ اور اس کے تمام اتحادی اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ اسلامی نظام کا کہیں ظہور نہ ہو جائے. بقول علامہ اقبال ؎’’عصر حاضرکے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف. ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں.‘‘

آج امریکہ پر یہ خوف طاری ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں شرع پیغمبری کا عملی ظہور نہ ہو جائے. وہ جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے ایک جذبہ انگڑائیاں لے رہا ہے کمی صرف یہ ہے کہ اس جذبے کو صحیح راہِ عمل نہیں مل رہی. محض جذبہ ہی کافی نہیں اس کے ساتھ لائحہ عمل بھی ہونا چاہئے. اس لیے میں عرض کر رہا ہوں کہ اسلام کو نظام زندگی کے طور پر نافذ غالب کرنے کے لیے صحیح لائحہ عمل واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے. صحیح لائحہ عمل وہی ہو گا جو سیرت النبی سے ماخوذ ہو. ہم نے وہ احادیث ایک جگہ جمع کرکے بہت عام کی ہیں کہ جس سے یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا اور کفار کا ’’نیوز ورلڈ آرڈر‘‘ نہیں ’’اسلامک ورلڈ آرڈر‘‘ پوری دنیا میں غالب ہو کر رے گا. ظاہری بات ہے کہ یہ نظام سب سے پہلے کسی ایک ملک میں قائم ہو گا. ’’بقول امام مالکؒ اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہو سکتی مگر اس طریقے پر کہ جس پر پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی‘‘ یعنی نبی کریم نے جس طریقے سے انقلاب برپا کیا تھا اس پر عمل پیرا ہو کر انقلاب آ سکتا ہے کیونکہ وہی ہمارے لیے بہترین اسوہ ٔحسنہ ہیں. آیئے دیکھتے ہیں کہ انقلاب کہتے کسے ہیں؟ اس کے لفظی معنی ہیں تبدیلی. آج کل ہم اسے ہرجگہ پر استعمال کر لیتے ہیں. علمی انقلاب، ثقافتی انقلاب، سائنسی انقلاب، فوجی انقلاب جو کہ غلط ہے. کسی معاشرے کے سیاسی نظام، سماجی نظام یا معاشی نظام میں سے کسی ایک میں بنیادی تبدیلی کو صحیح انقلاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. نبی کریم نے مندرجہ بالا تینوں گوشوں میں تبدیلیاں لا کر تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا کیا. کیونکہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے اس کا آئیڈیا دینے والے کوئی اور لوگ تھے اور اس کو عملی جامہ پہنانے والے دوسرے لوگ.

انقلاب محمدی وہ واحد انقلاب ہے جس کے تمام مراحل نبی کریم کی حیات دنیوی میں مکمل ہوئے. ایک وقت میں نبی کریم مکہ میں (Street Preaching) کر رہے ہیں اور وہی محمد میدان بدر میں فوج کی کمان کر رہے ہیں یعنی انقلابی دعوت کا آغاز بھی آپؐ فرما رہے ہیں اور اسے آخری منزل پر بھی آپؐ پہنچا رہے ہیں. کل 23سال میں اوّل سے آخر تک مراحل انقلاب مکمل فرمائے. آج کے دور جدید میں اجتماعیات، سوشیالوجی یا پولیٹکل سائنس کا کوئی طالب علم پوری دیانت داری سے اسلامی انقلاب کا صحیح طریقہ اخذ کرنا چاہے تو اسے مارکس، لینن یا والٹیئر سے نہیں نبی کریم کی سیرت پاک سے مکمل راہنمائی مل سکتی ہے. میں اسلامی اصطلاحات دین، اسلام، ایمان، جہادو قتال استعمال کئے بغیر انقلاب کے مراحل آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دور زوال کے دوران ان اصطلاحات کا مفہوم محدود اور مسخ (Limited and perverted) ہو گیا ہے. ہم جب بھی کوئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں وہی (Perverted) تصور ہمارے ذہنوں میں اجاگر ہو جاتا ہے لہٰذا اگر ان اصطلاحات کو ہٹا کر جدید (Terminology) میں بات کریں تو انقلاب کا خاکہ نسبتاً آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا پھر اس خاکے میں سیرت النبی اور قرآن وحدیث کی اصطلاحات اور واقعات کا رنگ بھریں گے. ایک مکمل انقلاب کے چھ یا سات مراحل حسب ذیل ہیں.

(۱) ہر انقلاب کی پہلی ضرورت انقلابی نظریہ اور انقلابی فلسفہ ہوتی ہے. انقلابی نظریہ اور فلسفہ اسے کہتے ہیں جو موجودہ (Politico, Socio, Economic system) کی جڑوں پر تیشہ بن کر گرے. اگر فی الواقعہ ایسا ہے تو پھر وہ انقلابی نظریہ ہے ورنہ محض وعظ و نصیحت ہے. نظریہ نیا ہو تو معاملہ آسان ہو گا کیونکہ وہ اپنی اصطلاحات خود وضع کرے گا. اگر وہ نظریہ پرانا ہے تو اس کی وضاحت جدید اصطلاحات کے مطابق کرنا پڑے گی. پھر اس نظریے کو پھیلایا جائے اور عام کیا جائے. اس کے لیے دور جدید کے تمام ذرائع مثلاً پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا استعمال کئے جائیں. دوسرے مرحلے کے طور پر جو لوگ اس نظریے کو حقیقتاً قبول کریںانہیں (Listen&obey) کے اصول کے تحت منظم کیا جائے اور تحریک میں کارکنوں کی حیثیت اور مرتبے کا تعین تحریک کے ساتھ وفاداری اور قربانی کی بنیاد پر کیا جائے. تیسرا مرحلہ تربیت کا ہے جس میں انقلابی جماعت کے کارکنوں کے ذہنوں سے انقلابی نظریہ ایک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونا چاہئے. اگر نظریہ ذہنوں میں راسخ ہے تو عمل کا جذبہ بھی رہے گا. اگر وہ مدہم پڑ گیا تو کام آگے نہیں بڑھے گا. اس کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہو گی تاکہ کارکنوں میں تحریک کے لیے تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ بیدار رہے. بقول شاعر ؎ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں. اگر مجوزہ انقلابی پروگرام میں روحانیت کا کوئی پہلو موجود ہو تو کارکنوں کی روحانی تربیت بھی درکار ہو گی. انقلاب کے لیے چوتھا مرحلہ کہنے کو تو نمبر 4ہے لیکن حقیقت میں اس کا آغاز پہلے مرحلے کے ساتھ ہو جاتا ہے وہ ہے صبر محض (Passive resistance) جس کا مطلب ہے کارکن اپنے موقف پر ڈٹے رہیں کھڑے رہیں لیکن کسی قسم کی جوابی کارروائی نہ کریں. اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں انقلابی جماعت کے کارکن تالاب میں پتھر مارنے کی مانند ایک Conflict پیدا کرتے ہیں. جس کے جواب میں داعی انقلاب کی شخصیت کو مجروح کرنے اور اس کی ہمت توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے. مخالفین اسے پاگل، دیوانہ اور شاعر کہیں گے اس موقع پر داعی انقلاب اگر تمام الزامات سننے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم اور کھڑا رہے تو پھر انقلابی جماعت کے کارکنوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے. انہیں مارا جاتا ہے.

بھوکا رکھا جاتا ہے. جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے اور فائرنگ سکواڈ کے ذریعے ان کے سینے گولیوں سے چھلنی کئے جاتے ہیں. اس موقع پر کارکنوں کی طرف سے صبر محض کی اشد ضرورت ہو گی کیونکہ اس مرحلے میں کارکنوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور اگر وہ مشتعل ہو جائیں تو مخالف قوت انہیں کچل دے گی اگر انقلابیوں کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہ ہو اور وہ مہلت عمل حاصل کرتے ہوئے اپنے مشن پر گامزن رہیں اور اپنی Base ب ڑھاتے رہیں. اپنے تحفظ کے لیے بھی ہاتھ نہ اٹھائیں تو باطل نظام کی طرف سے جسمانی تشدد بھی ایک حد تک ہو گا وہ سب کو ختم نہیں کریں گے. اس کانہایت اہم نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام الناس کی ہمدردیاں انقلابیوں کو حاصل ہو جائیں گی. گویا ’’جو دلوں کو فتح کرے وہی فاتح زمانہ‘‘ پانچواں مرحلہ اقدام کا ہو گا جس میں مزاحمت ہو گی. یہ قیادت کی ذہانت کا ثبوت ہو گا کیونکہ یہ انتہائی نازک فیصلے کا وقت ہو گا. اس مرحلے پر جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے اور تیاری پوری ہونے کے باوجود تاخیر بھی نہیں ہونی چاہئے ورنہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا. گویا موقع گنوا دیا تو ناکامی اور اگر قبل ازوقت اقدام کر دیا تو بھی ناکامی. اگر تعداد کافی ہو، ڈسپلن ہو اور تحریک کے لیے تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ موجود ہو تو تحریک Passive Resistance سےActive Resistance میں منتقل ہو سکتی ہے.

جس میں موجودہ نظام کی کسی دکھتی رگ کو چھیڑا جائے گا اور عدم تشدد کی بنیاد پر سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی. اس کے بعد چھٹا اور آخری مرحلہ براہِ راست تصادم کا ہو گا. جس میں موجودہ نظام اور اس کے محافظوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ ہوگی. کیونکہ انقلابیوں نے Active Resistance کے ذریعے نظام کو چیلنج کر دیا ہے لہٰذا باطل نظام مقابلے کے لیے آ جائے گا. اس موقع پر اگر انقلابیوں کی تیاری ٹھیک ہو گی، تنظیم و تربیت ٹھیک کی گئی ہو گی صحیح وقت پر اس مرحلے کا فیصلہ کیا گیا ہو گا تو انقلابی کامیاب ہو جائیں گے ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا. انقلاب کا ساتواں مرحلہ بھی ہے کیونکہ انقلاب کبھی بھی اپنی جغرافیائی قومی یا ملکی حدود میں نہیں رہتا کیونکہ انقلاب نام ہے انقلابی نظریہ کا جسے کسی پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی. سچا انقلاب لازماً Export ہوتا ہے. قارئین کرام یہ انقلابی عمل کا وہ خاکہ ہے جسے میں نے سیرت محمد سے اخذ کیا ہے. اب ہم اس میں نبی کریم کے عظیم انقلاب کا رنگ بھرتے ہیں. محمد کا انقلابی نظریہ کیا ہے ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ ہے توحید جس کا مفہوم یہ ہے کہ روئے ارضی پر کوئی انسان یا قوم حاکم نہیں آقا اور مولا صرف خدا کی ذات باری تعالیٰ ہے. اس سے بڑا کوئی سیاسی نعرہ نہ تھا جو اس وقت کے سیاسی نظام کی جڑوں پر تیشہ بن کر گرتا. زمین اور آسمان میں ہرچیز کا مالک خدا ہے. انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے. انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کی امانت ہے. تمام انسان مساوی ہیں. اگر کوئی فرق ہے تو وہ علم و تقویٰ کی بنیاد پر ہے. گویا اسلام کامل انسانی مساوات کا داعی ہے.

نبی کریم نے اس نظریئے کی تبلیغ اور اشاعت انفرادی طور پر مکہ کی گلیوں، حج 
کے اجتماعات اور آکاس کے میلوں تک میں کی گویا جو طریقہ بھی ممکن تھا وہ اختیار فرمایا. اگلے مرحلے میں جو لوگ ایمان لے آئے ان کی تربیت کی جس کے لیے بیعت کا سلسلہ شروع کیا جس کا ثبوت ہمیں متفق علیہ حدیث میں ملتا ہے جس کے راوی حضرت عبادۃ ابن صامت ہیں. ’’میں بیعت کرتا ہوں کہ آپ کا ہر حکم سنوں گا اور مانوں گا، خواہ تنگی ہو خواہ آسانی، خواہ میری طبیعت آمادہ ہو خواہ مجھے اس پر جبر کرنا پڑے اور خواہ دوسروں کو مجھ پر ترجیح دی جائے اور یہ کہ نظم کے ذمہ دار لوگوں سے ہرگز نہیں جھگڑوں گا اور یہ کہ ہرحال میں حق بات ضرور کہوں گا اور اللہ کے دین کے معاملے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کروں گا.‘‘ جماعت کی بنیاد رکھنے کے لیے نبی کریم کی بیعت کی ضرورت ہرگز نہیں تھی کیونکہ آپؐ پر تو صحابہ ایمان لائے تھے یہ محض ہماری رہنمائی کے لیے تھا. صبر محض کے مرحلے میں نبی کریم کی ذات ہمارے لیے کامل نمونہ ہے. قریش نے کئی سال تک آپ ؐ کی کردار کشی کی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ آپؐ کے جسم مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹا. صحابہ کرام کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا. حضرت بلالؓ اور آل یاسرؓ پر ہونے والے مظالم کی داستانیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. سمع وطاعت کے تمام تقاضے پورے کئے گئے. دیکھئے جب ایک شخص کو معلوم ہو جائے کہ مجھے مار دیا جائے گا تو وہ مشتعل ہو کر دوچار کو مار کر مرے گا لیکن یہاں حکم ہاتھ اٹھانے کا نہیں تھا. حضرت خبابؓ بن ارت سے جب یہ کہا گیا کہ دہکتے ہوئے انگاروں پر لیٹ جائو آپؓ لیٹ گئے پیٹھ کی کھال جلی، چربی پگھلی تو اس سے وہ انگارے ٹھنڈے ہوئے. میرے نزدیک سمع و طاعت کا اس سے بڑا مظہر ممکن نہیں. اگلے مرحلہ میں تن من دھن قربان کرنے کی عالی شان مثالیں صحابہ کرام ؓ نے پیش کیں. ویسے تو دنیوی انقلابات میں بھی لوگوں نے قربانیاں دیں اور جانیں قربان کیں لیکن مسلمان کے لیے معاملہ اتنا آسان ہے کیونکہ اس کا ایمان تو آخرت پر ہے اور اصل زندگی تو آخرت کی ہے لہٰذا وہ سب کچھ بھی خرچ کر دے تو اس کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں. اسے تو کوئی سو گنا واپسی کا یقین ہے. مسلمان کا آخرت پر جتنا یقین مستحکم ہو گا وہ اتنا ہی دین کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار ہو گا.

یہ عقیدۂ آخرت ہی ہے جو اس وقت دنیا کو سمجھ نہیں آرہا کہ مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے جانیں دینے کے لیے اس طرح آمادہ ہیں. کشمیر، فلسطین، چیچنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں. یہ عقیدہ آخرت پر یقین کی علامتیں ہیں. نبی کریم کے انقلاب میں روحانی تربیت دو مرحلوں میں مکمل کی گئی. روحانیت پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذریعے قرآن پاک کو دلوں میں اتارا گیا اور نفس کے تقاضوں کی مخالفت کروائی گئی اور پھر تزکیہ نفس کے لیے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے. اگلہ مرحلہ (Active Resistance) کا ہے. نبی کریم کے معاملے میں اس مرحلہ میں داخل ہونے کا فیصلہ اللہ کی طرف سے تھا لہٰذا غلطی کا کوئی امکان ہی نہیں تھا لیکن آئندہ کوئی بھی تحریک اس مرحلے پر خود فیصلہ کرے گی اور غلطی کا امکان موجود رہے گا. نیک نیتی کے ساتھ غلطی کی صورت میں دنیا میں ناکامی کے باوجود آخرت کی کامیابی یقینی ہے. نبی کریم نے ہجرت مدینہ کے بعد 6ماہ میں تین کام کر کے اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا. مسجد نبوی تعمیر فرمائی جو عبادت گاہ بھی تھی، درسگاہ بھی تھی. پارلیمنٹ کا کام بھی وہیں ہوتا تھا گویا ایک مرکز بن گیا. مہاجرین اور انصار میں مؤاخات کے اصول پر مفاہمت کروائی. چشم فلک نے کیسی کیسی مثالیں دیکھیں. انصاری بھائیوں نے ہجرت کر کے آنے والے مہاجر بھائیوں کو دکان و مکان میں برابر کا شریک کیا یہاں تک کہ جس کی دو بیویاں تھیں وہ اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے کر گیا اور کہا کہ آپ جسے پسند کرتے ہیں میں اسے طلاق دیتا ہوں. آپ اس سے شادی کر لیں (یاد رہے کہ اس وقت تک پردے کے احکامات نہیں آئے تھے) میں برداشت نہیں کر سکتا کہ حضورؐ نے تمہیں میرا بھائی قرار دیا. تمہارا گھر آباد نہ ہو اور میرے گھر میں دو دو بیویاں ہوں. یہ مؤاخات تھی. مدینہ کے قبائل کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے مشترکہ دفاع کے معاہدے کئے اب آپ نے Active Resistance کے طور پر غزوۂ بدر سے پہلے چھاپہ مار قسم کے 8دستے بھیجے جس میں سے 4میں خود بھی شرکت فرمائی اور اس طرح کفار کی Economic life line کو ڈسٹرب کر دیا. جس کی وجہ سے نبی کریم کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھا اور قریش کا کم ہوا اور پھر غزوۂ بدر کے نام سے حق و باطل کے معرکوں کا آغاز ہوا جو 17رمضان المبارک 2ھ سے شروع ہو کر 10رمضان المبارک 8ہجری کو فتح مکہ پر ختم ہوا جس میں سینکڑوں صحابہ کو جانوں کی قربانی دینا پڑی. 70صحابہ کرام تو غزوۂ احد میں شہید ہوئے جس میں حضرت حمزہ ؓ بھی شامل تھے. بالآخر 6سال کی زبردست کشمکش اور مسلح تصادم کے بعد تاریخ انسانی کے عظیم ترین انقلاب کی تکمیل ہوئی. یہاں مجھے دو باتوں کی مزید وضاحت کرنا ہے. نبی کریم ؐ نے فتح مکہ سے قبل کوئی پیغام، خط یا مبلغ عرب سے باہر نہیں بھیجا بلکہ دس سال تک سارا کام مکہ میں ہی کیا. اس کے بعد طائف کا سفر فرمایا. یہ انقلابی عمل کی خاص بات ہے کہ یہ ابتداء میں پھیلتا نہیں ہے.

مشنری اور تبلیغی کام پھیلتا ہے جبکہ انقلابی عمل ایک ہی مقام پر اٹھتا ہے جیسے آدم کی گٹھلی سے وہ دو پتے نکلتے ہیں. آم کا پودا بنتا ہے، درخت بن کر برگ وبار لاتا ہے. وہ خربوزے اور ککڑی کی بیل کی طرح زمین پر نہیں پھیلتا لہٰذا ظاہر ہوا کہ محمد کی جدوجہد مشنری نہیں بلکہ انقلابی تھی. صلح حدیبیہ کے بعد آپؐ نے کسریٰ، ہرقل، نجاشی، یمامہ اور بحرین کی طرف نامہ بر بجھوائے. اس موقع پر آپ ؐ کے ایک سفیر کو شہید کر دیا گیا تو پھر آپؐ نے جنگ موتہ اور جنگ تبوک کا معاملہ شروع کیا گویا کہ نبی کریمؐ کی حیات دنیوی ہی میں نہ صرف یہ کہ یہ عظیم انقلاب مکمل ہوا بلکہ عرب سے باہر کام کا آغاز آپؐ نے اپنے دست مبارک سے کیا اور پھر یہ ذمہ داری امت کے سپرد کی. دوسری بات یہ کہ اب وقت کے دریا میں بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور حالات میں بہت تبدیلی آ چکی ہے لہٰذا اس وقت ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں نبی کریمؐ کے طریقہ انقلاب پر جوں کا توں عمل کیا جائے گا یا اس کے لیے کسی اجتہاد کی ضرورت ہے. میرے خیال میں اوپر بیان کئے گئے پہلے پانچ مراحل میں قطعاً کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے. آخری مرحلہ کے حوالے سے اجتہاد کی ضرورت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ کے دور میں ایک طرف کفار تھے اور دوسری طرف مسلمان لیکن اس وقت دونوں طرف مسلمان ہیں. دوسرا یہ کہ اس وقت دونوں فریقوں میں صرف تعداد کے اعتبار سے فرق تھا. ادھر313جانثار تھے تو ادھر 1000تھے. تعداد کا فرق تھا نوعیت کے اعتبار سے کوئی فرقنہ تھا اور تیسری بات یہ کہ (Social evolution) کے نتیجے میں آج اس بات کا امکان موجود ہے کہ بغیر جنگ کے حکومت تبدیل ہو سکتی ہے تو پھر اب دو صورتیں ممکن ہیں. ایک الیکشن دوسرا احتجاج. الیکشن کے نتیجے میں نظام نہیں بدلا کرتا صرف اس نظام کو چلانے والے ہاتھ بدل جاتے ہیں. الیکشن چاہے کتنا ہی منصفانہ ہو نظام نہیں بدل سکتا. آپ کے ملک میں جاگیرداری نظام چل رہا ہے تو الیکشن کے نتیجے میں کوئی جاگیرداری ہی آئے گا. یہ لوگ حکومت اور اقتدار میں آ کر کبھی اس نظام کو نہیں بدلیں گے. اب ایک راستہ باقی ہے وہ یہ کہ پرامن منظم عوامی تحریک جو تھوڑ پھوڑ نہ کرے، کسی سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائے. خود جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوں. اس کو میں یکطرفہ جنگ کہا کرتا ہوں.

یہ جنگ ہی ہے کہ ہم نے منکرات کو ختم کرنے کے لیے آپ سے بہت درخواستیں کیں لیکن اب ہمارے جیتے جی یہ نہیں ہو سکے گا. یہ بینک ہم نہیں چلنے دیں گے. گھیرائو کریں گے اور سسٹم کو بلاک کر دیں گئے. چلائو ہم پر گولیاں. میرے خیال میں اس وقت یہی قابل عمل طریقہ ہے. اگر ہم مشتعل ہو کر اسلحہ اٹھائیں تو کس کے خلاف اٹھائیں گے. فوج، ائیرفورس یا نیوی کے خلاف لہٰذا اب دو طرفہ جنگ ممکن ہی نہیں ہے وہ بھی مسلح اور تربیت یافتہ افواج کے ساتھ. یاد رکھئے کہ اس موقع پر جنگ حرام نہیں ہے بلکہ امام ابوحنیفہؒ کے مطابق کلمہ گو حکمران کے خلاف بھی لڑ سکتے ہیں. جنگ جائز ضرور ہے لیکن اس وقت موزوں (Feasible) نہیں ہے. لہٰذا میرے خیال میں آخری مرحلے پر پرامن اور منظم عوامی تحریک سے ہی ملک میں اسلامی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے. ورنہ ہر شخص کا خلوص و اخلاص اپنی جگہ، کامیابی ممکن نہیں.