ایک یہ کہ میں اورآپ جس امت کے افراد ہیں‘ اس کا مقصدوجود اور غرضِ تأسیس ہی ’’دعوت الی اللہ‘‘ ہے ‘اور دنیا میں ہماری عزت اور سربلندی ہی نہیں ہمارے وجود اور بقا کا انحصار بھی اسی بات پر ہے کہ ہم اپنے اس فرضِ منصبی کو کماحقہ ٗادا کریں. سورۃالبقرۃ کے سترہویں رکوع میں تحویل قبلہ کے حکم کے ساتھ ہی یہ آیت وارد ہوئی ہے کہ: 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ 
(آیت ۱۴۳
’’ہم نے تمہیں ایک اُمت وسط اس لیے بنایا ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول ( ) تم پر گواہ ہوں .‘‘

تحویل قبلہ کا حکم دراصل علامت 
(symbol) تھی اس امر کی کہ اب متولیانِ مسجد اقصیٰ یعنی بنواسرائیل سے ہدایت خداوندی کی امانت داری و علمبرداری کا منصب سلب کر لیا گیا اور متولیانِ مسجد حرام یعنی بنواسمٰعیل اس منصب پر فائز کر دیے گئے. ظاہر ہے کہ اُمت مسلمہ کا اصل مرکز اور قلب (nucleus) ہونے کی حیثیت بنو اسمٰعیل ہی کو حاصل ہے‘ان ہی کی زبان کتاب اللہ کی حامل بنی اور ان ہی کے رسوم و رواج سے قطع و برید اور حذف و اضافے کے ساتھ خدا کی آخری شریعت کا تانابانا تیار ہوا. ’’آخَرِیْنَ‘‘ یعنی وہ دوسری اقوام جو بعد میں اس امت میں شامل ہوتی چلی گئیں‘ معنوی اعتبار سے یقینا ’’مِنْھُمْ‘‘ یعنی ان ہی میں سے ہیں‘ اور یہ بھی اللہ کا بڑا ہی فضل ہے جو ان پر ہوا‘ لیکن یہ شرف ’’اُمّیِّین‘‘ ہی کو حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کی بعثت ان ہی میں اور ان ہی میں سے ہوئی. (۱)

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا!
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں!

اس امت کی وجہ تشکیل اور غرضِ تأسیس سورۂ آل عمران میں ان الفاظ میں بیان ہوئی کہ: 

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ 
(آیت ۱۱۰
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے برپا کیا گیا ہے ‘ تم حکم دیتے ہو نیکی کا ‘ روکتے ہو بدی سے اور ایمان رکھتے ہو اللہ پر.‘‘ 

گویا دنیا کی دوسری تمام اقوام و امم اپنے لیے جیتی ہیں اور ان کا مطمح نظر اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ ان کا بول بالا اور عظمت دوبالا ہو اور وہ آدم کی زیادہ سے 
(۱) اشارہ ہے سورۃ الجمعہ کی آیات۲ تا ۴ کی جانب! زیادہ اولاد کو‘ بس پڑے تو عسکری و سیاسی ورنہ کم از کم معاشی و تہذیبی تسلط کے چنگل میں گرفتار کر کے اپنے تابع رکھ سکیں. لیکن اس امت کا جینا اس لیے ہے کہ دنیا میں اللہ کا نام رہے‘ (۱اس کا کلمہ بلند ہو‘ حق کا بول بالا ہو‘ نیکیاں عام ہوں اور اچھائیاں پروان چڑھیں‘ اور بدیاں ختم ہوں اور برائیوں کا استیصال ہو جائے. یعنی یہ اُمت دراصل دنیا میں خدا کی نمائندہ‘ خیر کا ذریعہ و آلہ (instrument) اور شر اور باطل کے استیصال کا ادارہ (institution) ہے.

جب تک یہ اپنے اس فرضِ منصبی کو ادا کرتی رہی‘ اس کا اپنا بول بھی بالا رہا اور حق کے ساتھ یہ بھی سربلند رہی. لیکن جب اس نے اپنے مقصد وجود کو بھلا دیا اور یہ بھی بس دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئی تو اس پر بھی اسی طرح عتابِ خداوندی نازل ہوا جس طرح اس سے پہلے بنی اسرائیل پر ہوا تھا. اوّل اوّل معاملہ صرف 
وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ ﴿٪۳۸﴾ (۲تک محدود رہا اور عالم اسلام کی سیادت بنی اسمٰعیل یعنی عربوں سے چھین کر کردوں اور سلجوقیوں کو عطا کر دی گئی. اس پر بھی آنکھیں نہ کھلیں تو فتنہ ٔتاتار کی صورت میں قہرخداوندی کا ’’وعدۂ اولیٰ‘‘ نازل ہوا اور بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ (۳کاہوبہونقشہ کھچ گیا. تاریخ حیران کہ اہل ہند فتنہ ٔتاتار کا انتظار ہی کیوں کرتے رہ گئے اور کیوں اُن کا رخ تیر کی مانند سیدھا بغداد کی طرف رہا. لوگ بھول جاتے ہیں کہ اس امت کا مرکز بنواسمٰعیل تھے اور اس کا قلب بغداد تھا اور اصل گوشمالی ان کی مطلوب تھی.تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں میں سے جو قومیں اُبھریں‘وہ بنی اسمٰعیل میں سے نہ تھیں‘ ’’آخرین‘‘میں سے تھیں یعنی ہند میں مغل اور ایشیائے کوچک میں ترک جو بالآخر خلافت اسلامی کے بھی وارث ہوئے. اس طرح بنواسمٰعیل کی مذہبی و دینی سیادت کا آخری امتیازی نشان بھی مٹ گیا. ان کی حیثیت ترکوں کے محکوموں اور باج گزاروں سے زیادہ کچھ نہ رہی. یہ تو ا س صدی کے واقعات ہیں کہ اس کے (۱؏’’ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے!‘‘ (اقبالؔ)

(۲) ’’اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اسی مقام پر فائز کر دے گا.‘‘ 
(محمد:۳۸

(۳) ’’ہم نے تم پر اپنے سخت جنگجو بندے مسلط کردیے تو وہ تمہاری آبادیوں میں گھس گئے.‘‘ 
(الاسرائ:۵اوائل میں وہ ترکوں کی غلامی سے نکل کر پہلے یورپی تسلط کے تحت آئے اور پھر صدی کے وسط کے لگ بھگ آہستہ آہستہ ا س سے بھی نجات پائی اور آزادی کا سانس لیا. اس کے بعد کی ربع صدی اس داستان کا المناک ترین باب ہے کہ آزاد ہو کر بھی جب انہوں نے دین سے بے رخی اختیار کی‘ تعیش و تنعم کی زندگی کو اختیار کیا اور مغربی تہذیب کے ظاہر سے متاثر ہو کر عیاشی اور فکری و عملی آوارگی کو شعار بنایا‘ ملت اسلامی کی بجائے نسلی ووطنی عصبیتوں کو ابھارا‘ شریعت کو پس پشت ڈالا اور مذہب کے نام لیوائوں پر مظالم ڈھائے تو بالآخر کم از کم بنی اسمٰعیل کی حد تک تو ’’وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ‘‘ بھی آ کر رہا اور اللہ نے اپنی ایک علی الاعلان (proclaimed) مغضوب قوم کے ہاتھوں انہیں ایسی ذلت آمیز شکست دی کہ رہے نام اللہ کا. (۱

حالیہ عرب اسرائیل جنگ سے ذلیل و خوار تو پوری ملت اسلامی ہوئی اور یہ داغِ رسوائی لازماً سارے ہی مسلمانوں کے حصے میں آیا‘لیکن اس میں 
’’اَلَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ‘‘ کا مصداق بہرحال عرب ہی ہیں. دینی پستی اور مذہب سے بعد یقینا اس وقت پوری اُمت مسلمہ ہی کا حال ہے ‘لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس معاملے میں مصر‘ شام اور لبنان کی بدمستیاں دوسرے مسلمانوں سے کئی ہاتھ آگے ہیں. تو پھر کون سے تعجب کی بات ہے اگرذلت و رسوائی میں سے بھی سب سے بڑا حصہ انہی نے پایا.ویسے بھی جب عزت و فضیلت اور شرف میں مقدم تھے تو منطقی (۱) راقم الحروف نے جولائی ۱۹۶۷ء کے ’’میثاق‘‘ میں سیاہ حاشیے میں لکھا تھا : ’’گزشتہ ماہ اسرائیل کے ہاتھوں مسلمانانِ عرب کو جو ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی اور جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں 3 نے اپنے دلوں میں درد کی شدید ٹیسیں محسوس کیں‘پھر نام نہاد اقوام متحدہ نے اس معاملے میں سرد مہری ہی نہیں باقاعدہ اسرائیل نوازی کا جو رویہ اختیار کیا اس سے کم از کم مسلمانانِ عرب کے لیے تو ایک بار ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُکی وہی کیفیت پیدا ہو گئی جس میں کئی ہزار سال تک بنی اسرائیل مبتلا رہے ہیں!‘‘
اس وقت یہ اندازہ ہو سکتا تھا کہ صرف چار ساڑھے چار سال بعد ہی سقوطِ مشرقی پاکستان کی صورت میں عذابِ خداوندی کا ایک کوڑا ’’آخرین‘‘ کے ایک اہم حصے کی پیٹھ پر پڑنے والا ہے! 
طور پر ذلت و رسوائی کا بھی حصہ ٔاولیٰ انہی کا ہونا چاہیے.

قصہ طول کھینچ گیا. عرض صرف اس قدر کرنا تھا کہ اس امت کی غرضِ تأسیس دعوت اِلی اللہ ہے ‘اور اس پر نہ صرف یہ کہ اس کی عزت و عظمت کا انحصار بلکہ وجود وبقا کا دار و مدار بھی ہے اور
’’اُمّیِّین‘‘ اور ’’آخَرِیْنَ‘‘ دونوں کے لیے ایک ہی راہ ہے کہ : عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ کی نوید جانفزا سے گرتے ہوئے حوصلوں کو ازسر نو استوار اور ٹوٹتی ہوئی امیدوں کو نئے سرے سے قائم کریں اور وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ (۱کی وعید سے لرزاں و ترساں ہو کر اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں. اللہ تعالیٰ کی جانب سے پے درپے تنبیہات اسی لیے ہیں کہ ہم جان لیں کہ ہمارے لیےفَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ؕ کے سوا کوئی راہ نہیں ہے اور اپنی عظمت وسطوتِ پارینہ کی بازیافت ہی نہیں بلکہ اپنے وجود و بقا کی ضمانت کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل ’’دعوت الی اللہ‘‘ کے سوا موجود نہیں ہے!