دوسرا سبب آج کے اس اجتماع میں اس موضوع پر گفتگو کا یہ ہے کہ یہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہے جو سنت رسولﷺ کے شیدائی ہیں اور جن کا مسلک و مشرب ہی یہ ہے کہ جو آنحضورﷺنے کیا بس وہی کرنا چاہیے. مبارک ہیں آپ لوگ اگر واقعتا آپ کے دلوں میں حضورﷺ کی سنت کے اتباع کا جذبہ موجود ہے . لیکن افسوس کہ آپ کو آنحضورﷺ کی بہت سی دوسری سنتیں تو یاد ہیں اور ان پر آپ عمل بھی پوری شدت کے ساتھ کر تے ہیں ‘بلکہ ان کی وجہ سے آپ دوسروں سے جنگ و جدل سے بھی نہیں چوکتے‘ لیکن حضورﷺ کی سب سے بڑی سنت ‘ جس سے زیادہ مؤکد سنت اور کوئی نہیں‘ جس پر آپﷺ کا تواتر عمل ظاہرو باہر‘ جس پر آپﷺ اپنی بعثت کی پہلی ساعت سے حیات (۱) دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل کی آیات ۴ تا ۸. دنیوی کی آخری گھڑی تک ہر لحظہ و ہر آن عمل پیرا رہے‘ اسے آپ نے نہ صرف یہ کہ عملاً ترک کر دیا ہے‘ بلکہ بھلا بھی دیا ہے. میری مراد ’’سنت دعوت‘‘ سے ہے. کون کہہ سکتا ہے کہ دعو ت و تبلیغ آنحضورﷺ کی مؤکد ترین سنت نہیں ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ زندگی بھر حضورﷺ کو دعوت و تبلیغ سے زیادہ کسی بات کا دھیان یا دھن رہی؟ اب اگر سنت نام ہے حضورﷺ کے طریقے اور طرزِعمل کا‘ تو خدارا سوچیے کہ آنحضورﷺ کی سب سے بڑی سنت کون سی ہے! ’’بَلِّغُوْا عَنِّی‘‘ کے تاکیدی حکم پر غور کیجیے کہ اس کو ’’وَلَوْ آیَۃً‘‘ (۱) کے ذریعے کس قدر عمومیت دے دی گئی ہے. رفع یدین جس کے بارے میں آپ بہت جھگڑتے ہیں‘ کون ہے جو یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ اس پر آپﷺ عمر بھر عمل پیرا رہے! آمین بالجہر کے بارے میں کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس پر آپﷺ نے از اول تا آخر مداومت کی؟ برعکس اس کے ’’دعوت و تبلیغ‘‘ وہ سنت مؤکدہ ہے جس پر آپﷺ ۲۳ سال کی پوری مدت کے دوران مسلسل عمل پیرا رہے. گویا دعوت الی اللہ ایک طرف تو ازروئے قرآن اُمت مسلمہ کا مقصد ِوجود اور فرضِ منصبی ہے اور دوسری طرف ہمارے محبوب پیغمبرﷺ کی مؤکد ترین سنت ہے. لہٰذا اسی موضوع پرمیں آپ سے چند باتیں کروں گا!