’دعوتِ دین‘ یا دعوت الی اللہ‘ کوئی مفرد یابسیط عمل نہیں ہے بلکہ اس کے متعدد پہلواور بے شمار مراتب و مدارج ہیں. یہ ایک فرد کی اپنی ذات اور اس کے اہل و عیال قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا(التحریم:۶سے ہوکر‘ اس کے کنبے قبیلے وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ (الشعرائ) پھر قوم یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ اور بالآخر پوری نوعِ انسانی لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ (البقرۃ) تک پہنچتی ہے. اس کی ابتدا محض خبردار کرنے اور ’’ڈر سنادینے‘‘ یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ سے ہوتی ہے. لیکن اس کا منتہائے مقصود یہ ہوتا ہے کہ خالق کائنات کی کبریائی کا اعلان و (۱) حدیث نبویؐ : ’’میری جانب سے پہنچائو چاہے ایک ہی آیت!‘‘ (صحیح بخاری) و اظہار ہو وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ (المُدَّثِّر) . حسب استعداد و مذاقِ مخاطبین اسے بلندپایہ علمی و عقلی استدلال کے ساتھ بھی پیش کیا جانا چاہیے: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ اور مؤثر ودلنشیں وعظ و نصیحت وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ کے ذریعے بھی. پھر کٹ حجتوں اور ہٹ دھرم لوگوں کے مقابلے میں بحث و جدال کی بھی ضرور ت پڑ سکتی ہے وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ(النحل:۱۲۵اور وقت آنے پر جہاد و قتال بھی اسی دعوتِ الٰہی کی بلند ترین منازل قرار پاتے ہیں وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند ہو‘ اسی کا حکم چلے اور لوگ عدل و قسط پر قائم ہوں لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ (الحدید:۲۵

آج کی اس گفتگو میں میں دعوت الی اللہ کے ان بلند مراتب سے بحث نہیں کرنا چاہتا جن کے لیے اجتماعی جدوجہد لازمی ہے ‘یعنی ایک تو تمام بنی آدم پر خاتم النبیین کی نبوت و رسالت کی جانب سے اِتمامِ حجت کا وہ فریضہ میری آج کی گفتگوکے دائرے سے خارج ہے جو آپ کی اُمت پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتا ہے اور دوسرے خود اس امت کی اجتماعی اصلاح کاوہ کام بھی میری آج کی گفتگو کا براہِ راست موضوع نہیں ہے جو بجائے خود ایک منظم اجتماعی جدوجہد کا متقاضی ہے. اس کے برعکس آج میں ’’دعوت اِلی اللہ‘‘ کی ان ابتدائی اور بنیادی منزلوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جن تک ہر مسلمان کی رسائی ممکن بھی ہے اور لازم بھی!