اس سے پہلے میں اس استہزا کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے معاشرے میں تبلیغ کے مقدس اور عظیم الشان فریضے کے ساتھ کیا جا رہا ہے . آپ جانتے ہیں ہر مذہبی فرقے نے ’’مبلغین‘‘ کی ایک ’سول سروس‘ جاری کی ہوئی ہے اور اس کے تحت تنخواہ دار مبلغ بعض اختلافی مسائل پر مناظرانہ انداز کی تقریریں دیہات و قصبات میں کرتے پھرتے ہیں ‘جس سے اس کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ ان کے ہم مسلک و ہم مشرب لوگوں پر وقتی طور پر ایک سرور کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ واقعتا ہم ہی حق پر ہیں اور ہمارا ہی مسلک صحیح تر ہے! ایسے مبلغین کی اکثریت کو تو اس کی سرے سے جرأت ہی نہیں ہوتی کہ اپنے سامعین کو براہِ راست خطاب کر کے یہ کہہ سکیں کہ تمہارے اندر یہ خرابیاں ہیں انہیں دور کرو‘ سودی کاروبار نہ کرو‘ غلط حسابات نہ رکھو‘ رشوت نہ لو‘ اسراف نہ کرو (۱.بعض واعظین اگر برائے بیت ایسی کوئی بات کہہ بھی دیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا‘اس لیے کہ جس اجتماع میں وہ تقریر کر رہے ہوتے ہیںاس کا اہتمام ان تمام غلط کاموں کی آمدنی سے ہوتا ہے! سامعین کی اکثریت تھوڑی دیر کے لیے اپنے مقررین کی اس حق گوئی سے بھی لذت اندوز ہولیتی ہے. رہے میاں حضرات اور چوہدری صاحبان تو وہ زیرلب مسکرا کر اس وقت تو ایک خاموش مگر تلخ طنزپر اکتفا کر لیتے ہیں‘ مگر بعد میں اپنی نجی گفتگوئوں میں اپنے مذہبی پیشوائوں کی گھریلو و نجی خامیوں اور کوتاہیوں کا اہانت آمیز تذکرہ کر کے بدلہ چکا لیتے ہیں اور اس پورے سلسلے کا نام ہے تبلیغ دین!

حضرات! میں پورے سوز اور درد کے ساتھ یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہوں کہ کیا یہ نبی اکرم کی سب سے زیادہ متواتر اور مؤکدسنت کے ساتھ استہزاء اور تمسخر نہیں ہے؟ اور کیا اس طرح نادانستہ طور پر ہم خود آنحضور کی توہین و تحقیر کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ منبر رسولؐ پر کھڑے ہو نے والوں کی ہمارے اس معاشرے میں جو قدر و منزلت اور عزت ووقعت ہے‘ قطع نظر اس سے کہ اس کا اصل سبب خود وہ ہیں یا دوسرے‘ اس سے کیا بالواسطہ خود اس محترم ہستی کی تحقیر نہیں ہوتی جس سے منبر منسوب ہے؟خدا کے لیے اپنے طرزِعمل پر نظر ثانی فرمائیں! تنخواہ پر کام کرنا حرام نہیں. لیکن واضح رہنا چاہیے کہ معاوضے پر کام کرنے والا مدرس و معلّم ہو سکتا ہے داعی و مبلغ ہرگز نہیں ہو سکتا. اس راہ کی تو سب (۱) واضح رہے کہ ازروئے قرآن علماء و صلحائِ اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی وہ ہے جس کی جانب اس آیت کریمہ میں اشارہ ہوا کہ لَـوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّـوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَط (المائدۃ:۶۳’’کیوں نہیں روکتے انہیں ان کے درویش اور علماء گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے؟‘‘ سے پہلی شرط یہ ہے کہ ہر طرح کے مفادات و اغراض سے بالکل پاک ہو کر خالص نصح و خیر خواہی کے جذبے سے اور اس اعلان کے ساتھ کام کیا جائے کہوَ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾ۚ (الشعرائ) (۱