دعوت اِلی اللہ کی اصل شرط : اللہ کی ربوبیت پر اعتماد

اس بات کو بالکل دل سے نکال دیں کہ دین کی دعوت کے لیے دین کے کسی لمبے چوڑے علم کی ضرورت ہے. آج ’’علم دین‘‘ جن ’معلومات‘ کا نام ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ اکثر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو آپ میں سے اکثر سے کم حاصل تھیں. انہیں جو علم بہ تمام و کمال حاصل تھا وہ ’’علم ایمان‘‘ تھا ‘جیسا کہ ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ تَعَلَّمْنَا الْاِیْمَانَ ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ (۲)’’ہم نے ایمان پہلے سیکھا‘ قرآن بعد میں!‘‘

منطقی طور پر بھی ’’دعوت الی اللہ‘‘ کا اصل لازمہ ’’ایمان باللہ‘‘ ہی کو ہونا چاہیے. چنانچہ جو آیت میں نے سنائی تھی اس سے متصلاً قبل ایمان باللہ کی بلند ترین منزل یعنی ربوبیت خداوندی 
(۱) ’’میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجر نہیں مانگتا. میرا اجر تو بس اللہ کے ذمے ہے!‘‘ 

(۱) رواہ ابن ماجہ‘ عن جُندب بن عبداللّٰہص- 
پر دل کے جم اور ٹھک جانے اور اس پر استقامت حاصل ہونے ہی کا تذکرہ ہے کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا… دعوت الی اللہ کے منصب پر فائز وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو خدا کی ربوبیت پر پوری طرح مطمئن اور اس پر مضبوطی سے قائم ہوں.