’دعوت الی اللہ‘ کا دوسرا لازمہ یہ ہے کہ داعی کی عملی زندگی میں ایمان باللہ کے اثرات محسوس و مشہود ہوں اور وہ عمل صالح کاایک حسین نمونہ ہو. چنانچہ اس آیت میں بھی وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ کے فوراً بعد وَ عَمِلَ صَالِحًا کا تذکرہ ہے. اس لیے کہ یہ دعوت کے مؤثر ہونے کی شرط لازم ہے! اس کے بغیر‘ تعلیم و تدریس ہو سکتی ہے‘ اعلیٰ سطح کا علمی کام بھی کیا جا سکتا ہے ‘اور اس میں شک نہیں کہ ان چیزوں کا اپنا ایک مقام اور ان کی اپنی ایک افادیت ہے ‘لیکن ’دعوت‘ مؤثر صرف وہی ہو سکتی ہے جس کا شاہد ’عمل صالح‘ ہو. حقیقت یہ ہے کہ ’عمل صالح‘ ہی وہ مشکل ’’گھاٹی‘‘ہے (۱جس سے جی چرا کر ہم لوگوں نے یہ تقسیم کار کی ہے کہ کچھ لوگ اس کی قید سے آزاد ہوں اور حلال و حرام سب ذرائع سے دولت کما کر کچھ دوسرے لوگوں کو پا لیں‘ جو دین کی تبلیغ کا کام کریں. ذہانت کا تو یہ یقیناایک شاہکار ہے! لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین کے خلاف اس ’’شریفانہ معاہدے‘‘ سے بڑی سازش شاید کوئی اور نہ ہو!